محمد سعید شیخ
اب تو کسی ہم عصر کو فون کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ جواب نہ ملے کہ وہ تو گزر گئے‘ اسی طرح سابق بیورو کریٹ‘ ہمارے دوست اور ممتاز فکشن رائٹر محمد سعید شیخ چپکے سے‘ ہم سے پچھلے دنوں ہمیشہ کے لیے جُدا ہو گئے۔ اوکاڑہ کو جب ضلع کا درجہ حاصل ہوا تو اس کے پہلے ڈپٹی کمشنر طارق محمود اور ان کے ساتھ اسسٹنٹ کمشنر محمد سعید شیخ تھے۔ دونوں کی فکشن رائٹنگ کا آغاز اوکاڑہ سے ہوا۔ طارق محمود ناول اور افسانے کی صف میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھتے ہوئے بطور فیڈرل سیکرٹری ریٹائر ہوئے اور اب ایک انگریزی روزنامے میں کالم لکھتے ہیں‘ یعنی قلم کے ساتھ رشتہ بدستور قائم ہے۔ دونوں پرلے درجے کے اپ رائٹ افسر تھے۔ محمد سعید شیخ سیکرٹری تعلیم پنجاب رہے اور ممبر بورڈ آف ریونیو کے طور پر ریٹائر ہوئے‘ چونکہ ایل ایل بی بھی تھے‘ اس لیے ریٹائرمنٹ کے بعد پریکٹس بھی کرتے رہے۔ افسانوں کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔ بہت محبت کرنے والے‘ درویش صفت اور سمارٹ آدمی تھے۔ ان کی اہلیہ بتا رہی تھیں کہ پہلے وہ ہیپا ٹائٹس میں مبتلا رہے‘ اسی دوران جگر کے سرطان نے آ لیا اور اسی حالت میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔ خدا ان کی مغفرت فرمائے۔
سمیع آہوجا کی علالت
صاحبِ طرز نثر نگار اور افسانوں کے متعدد مجموعوں کے خالق اور ہمارے عزیز دوست سمیع آہوجا عرصۂ دراز سے صاحبِ فراش ہیں۔ بات سن سکتے ہیں‘ کر نہیں سکتے۔ اگلے روز ان کی طبیعت کا پتا چلانے کے لیے فون کیا تو اُن کی صاحبزادی نے کہا کہ وہ آپ کی آواز سننا چاہتے ہیں۔ فون انہیں دیا گیا تو بس اوں آں کر کے ہی رہ گئے۔ بیحد زندہ دل اور یارباش آدمی ہوا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جلد از جلد صحت کاملہ عطا کرے۔ ان کی صاحبزادی نے بتایا کہ ان کے افسانوں کا تازہ مجموعہ شائع ہو گیا ہے‘ جو مجھے ارسال کرنے کے لیے انہوں نے تاکید کی ہے۔
ریکارڈ کی درستی
ہمارے بھائی صاحب نے اپنے پرسوں والے کالم میں کسی استاد کا یہ شعر اس طرح درج کیا ہے؎
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا
اس کا دوسرا مصرع محلِ نظر ہے‘ جس میں ''لیجے‘‘ کو ''لیجیے‘‘ باندھا گیا ہے‘ یعنی اصل شعر اس طرح ہے۔
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا
مصرعے کے معنی تو نہیں بدلے لیکن ''لیجے‘‘ کو ''لیجیے‘‘ لکھنے سے شعر کا وزن ضرور بگڑ گیا ہے۔ اکثر حضرات ''لیجے‘‘ کو ''لیجیے‘‘ اور ''دیجے‘‘ کو ''دیجیے‘‘ لکھ جاتے ہیں اور اس باریک سے فرق کا خیال نہیں رکھتے جس سے مصرعے کا وزن خراب ہو کر مصرعہ بے وزن ہو جاتا ہے۔
ظفر اقبال: شخصیت اور فن
''پاکستانی ادب کے معمار کے سلسلے کی یہ کتاب اکادمی ادبیات پاکستان نے چھاپی ہے‘ جو پروفیسر‘ محقق‘ جدید ترقی پسند شاعر سعادت سعید کی عر ق ریزی کا نتیجہ ہے۔342صفحات کی مجلد کتاب کی قیمت440‘ جبکہ غیر مجلد کی قیمت400روپے ہے‘ اس کی تدوین اور نظر ثانی ادبی جریدہ ''انگارے‘‘ کے مدیر اور سرگودھا یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے صدر ڈاکٹر عامر سہیل نے کی ہے۔ اس کے نگران اعلیٰ سید جنید اخلاق‘ منتظم ڈاکٹر راشد حمید اور نگران منصوبہ و طباعت علی یاسر ہیں۔ پیش نامہ سید جنید اخلاق کے قلم سے ہے‘ جبکہ پیش لفظ ڈاکٹر سعادت سعید نے لکھا ہے۔ پس سر ورق ڈاکٹر سعادت سعید کی تصویر اور مختصر تعارف درج ہے۔''ظفر اقبال تصاویر کے آئینے میں‘‘ کے عنوان سے راقم کی متعدد اپنی تصویر کے علاوہ‘ اہل خانہ اور معاصر ادبا و شعرا کی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔ کتاب کو مندرجہ ذیل عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ظفر اقبال: سوانحی خاکہ‘ لسانی و شعری اجتہاد‘ خیال خلقی اور زبان انتظاری کی شاعری‘ پنڈو کڑی(پنجابی کُلیات) تنقیدی بصیرت‘ لا تنقید‘ شاعری اور ظفر اقبال کے تنقیدی نظریات‘ ظفر اقبال کی صحافت‘ ظفر اقبال نقادوں کی نظر میں‘ محاکمہ ‘ انتخاب شاعری اور کتابیات۔ (اس طویل ذکر اذکار کے لیے معذرت‘ جو ناشر علی یاسر کی فرمائش اور تقاضے پر بروئے کار لائی گئی)
پنجاب کی تقسیم
پنجابی زبان کے ممتاز ادیب اور دانشور جناب جمیل احمد پال نے مندرجہ بالا عنوان کے تحت ایک چشم کشا تحریر بھیجی ہے‘ جس میں حقائق اور دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجاب میں سے کوئی نیا صوبہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے دنیا بھر کے ان صوبوں کا ذکر کیا ہے‘ جو پنجاب سے بھی کہیں بڑے ہیں۔ یہ بھی درست نہیں کہ لوگوں کو معمولی کاموں کے لیے لاہور کے چکر لگانے پڑتے ہیں‘ جو بہت دور ہے‘ جبکہ پاسپورٹ آفس‘ عدالتیں ضلع کی سطح پر موجود ہیں اور ہسپتال‘ یونیورسٹیاں وغیرہ بھی ضلعوں میں بر سرِکار ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے نئے صوبے کا مطالبہ ‘عوام کا مطالبہ ہے کی دلیل کو بھی مختلف مثالوں سے رد کیا ہے۔ جنوبی علاقے میں انہوں نے پسماندگی کا اس طرح بطلان کیا ہے کہ یہ سندھ اور کے پی کے میں بھی موجود ہے؛ اگر پنجاب میں ترقی ناہموار انداز میں ہوئی ہے‘ تو اس کے ذمہ دار اس علاقے کے لیڈر بھی ہیں اور پنجاب کو تقسیم کرنے یا صوبہ بنانے کی بات لوگوں کو بُدھو بنا کر جاگیرداروں اور پیروں کی اجارہ داری قائم رکھنے کی ایک کوشش ہے ‘ تاکہ وہ نیا صوبہ بنوا کر اپنے بھائی‘ بھتیجوں کو وہاں کا وزیراعلیٰ‘ وزیر اور افسر لگوا کر اپنی ہوس اقتدار پوری کر سکیں‘ جس سے حکومت پنجاب ہی‘ جتنا خرچہ بھی اضافی طور پر کرنا پڑے گا‘ نیز اگر یہ رَو چل پڑی تو ہر صوبہ سے نئے صوبے کی آوازیں اٹھیں گی۔
آج کا مطلع
اِس رات کی رگوں سے گزارا ہے اور بس
یہ خواب جو ہمارا تمہارا ہے اور بس