تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-10-2018

دماغ کہاں رہ گیا؟

کچھ مدت سے دماغ کا کہیں کچھ پتا نہیں چل رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نعمت کو ترک کرنے کی ٹھان لی گئی ہے اور اب اس کی مشق بھی کی جارہی ہے! دماغ کو یا دماغ کا استعمال ترک کرنے کی روش نئی ہے‘ نہ انوکھی۔ روئے زمین پر انسان نے ایسے کئی ادوار دیکھے ہیں ‘جب دماغ کو بروئے کار لانے سے یکسر گریز کیا گیا اور پھر اس کے سنگین نتائج بھی جھیلے اور بھگتے گئے۔ دکھ اگر ہے‘ تو صرف اس بات کا کہ جس روش پر گامزن ہونے سے بربادی اور خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہو‘ اُسے ترک کرنے کی زحمت گوارا کرنے کے بارے میں کم ہی سوچا گیا ہے۔ 
دنیا کے جتنے بھی مسائل ہیں وہ سب کے لیے یکساں ہیں۔ پریشانی اگر ہے‘ تو سب کے لیے ہے۔ بے حواسی اور انتشارِ خیال سے کوئی بھی محفوظ و مامون نہیں۔ قدرت نے کسی سے کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا۔ نفسی مسائل اگر بڑھے ہیں ‘تو کسی ایک فرد‘ طبقے یا معاشرے کے لیے نہیں‘ بلکہ پوری دنیا کے لیے بڑھے ہیں۔ نالہ و شیون کی گنجائش اگر ہے ‘تو سب کے لیے یا پھر کسی کے لیے بھی نہیں۔ 
مسائل کس لیے ہوتے ہیں؟ صرف اِس لیے کہ اُنہیں حل کیا جائے‘ اور کیا؟ آج کا دور جتنے بھی مسائل پیدا کر رہا ہے‘ ان کا حل تلاش کرنا لازم ہے۔ ہر دور کی طرح آج کے دور میں بھی ‘جو ایسا نہیں کرے گا‘ وہ پیچھے رہ جائے گا۔ جنہیں مسائل سے صرف گھبرانا آتا ہے‘ وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ دنیا میں اب تک یہی ہوتا آیا ہے‘ تو اب بھی یہی ہوگا۔ 
ہر دور میں بہت سے انسانوں نے حالات کے ساتھ ساتھ خود کو بدلا ہے اور نئے حالات پیدا کیے ہیں۔ یہ سب کچھ فطرت کے عین مطابق ہے۔ مسائل ہی تو ہیں‘ جو انسان کو عمل کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہر بحران اپنے ساتھ ایک آدھ امکان بھی لاتا ہے۔ بحرانی کیفیت ہی انسان کو کچھ سوچنے اور کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ جب سب کچھ درست چل رہا ہو تو کچھ نیا کرنے کی تحریک کم ہی ملتی ہے۔ جاندار پانی وہی ہوتا ہے‘ جو رواں ہو۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں کائی جم جاتی ہے اور یوں وہ زیادہ کارآمد نہیں رہتا۔ 
دماغ کس کے پاس نہیں ہوتا؟ یہ نعمت سبھی کو دی گئی ہے؛اگر اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا ہے‘ تو لازم ہے کہ اسے بروئے کار لایا جائے‘ جس نے دماغ سے کام لیا‘ اُس نے میدان مار لیا۔ دماغ کو بروئے لانے کی جتنی ضرورت آج ہے‘ پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسائل بھی بہت ہیں اور بیشتر مسائل ایسے ہیں ‘جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ بالائے طاق نہیں رکھا جاسکتا۔ تعطل یا التواء کی کیفیت پیچیدہ معاملے کو پیچیدہ تر کرتی ہے۔ 
قصہ یہ ہے کہ ہم نے دماغ کو فالتو مال سمجھ کر ایک کونے میں ڈال دیا ہے۔ شدید نوعیت کی بے دماغی‘ بلکہ بے ذہنی کے ساتھ جینے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ زندگی کا ہر شعبہ انتہائی غیر متوازن ہوکر رہ گیا ہے۔ ہر صورتِ حال کوئی نہ کوئی چیلنج کھڑا کرتی ہے۔ اب اگر ہم اُس چیلنج کو قبول کریں اور معاملات کو درست کرنے کی بھرپور کوشش کریں تب ہی کچھ بہتری ممکن ہو پاتی ہے۔ بصورتِ دیگر الجھنیں دامن گیر ہی رہتی ہیں۔ 
جب تک زندگی ہے‘ سمجھنے اور سوچنے کی ذمہ داری بھی برقرار ہے۔ ہم جب تک روئے زمین پر ہیں‘ یعنی زندہ ہیں‘ انتخاب کے مرحلے سے گزرتے رہنے کی روش پر گامزن رہنا پڑے گا۔ کوئی بھی مسئلہ ممکنہ بہترین طریقے سے حل کرنا یا کسی بھی صورتِ حال میں بہترین آپشن منتخب کرنا ہم پر لازم ہے۔ ہر صورتِ حال ہمارے سامنے کئی آپشن رکھتی ہے۔ کسی بھی مسئلے کو کئی طریقوں سے حل کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اطمینان بخش‘ بلکہ قابلِ رشک نتائج اُسی وقت حاصل ہوتے ہیں‘ جب ہم کسی بھی مسئلے کو بہترین طریقے سے حل کریں۔ ہم نے بہترین آپشن اختیار کرنے کے مرحلے کو اپنی زندگی سے بہت حد تک skip کردیا ہے؛ اگر کسی صورتِ حال میں کئی آپشن دکھائی دے رہے ہوں‘ تو زیادہ سوچنے‘ یعنی دماغ سے کچھ کام لینے کی بجائے بالعموم پہلا یا پھر آسان ترین آپشن اختیار کرلیا جاتا ہے۔ 
آسانیاں تلاش کرتے رہنے کی عادت نے ہمیں اُس مقام پر پہنچا دیا ہے ‘جہاں ہر معاملے میں صرف آسانی کا پہلو دیکھا جاتا ہے۔ معیار کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ کوشش کی جاتی ہے کہ دماغ کو متحرک کیے بغیر ہی کام ہو جائے۔ آسانی تلاش کرتے رہنا بالآخر انسان کو تن آسانی کی طرف لے جاتا ہے۔ تن آسانی کا مطلب ہے‘ جسم پر زیادہ زور نہ ڈالنا‘ اُسے زیادہ زحمت ِ کار دیئے بغیر معاملات کو نمٹانا۔ کاہلی یا تن آسانی کی صورت میں بھی دماغ کو تو بہرحال حرکت دینا ہی پڑتی ہے‘ یعنی سوچنے کی منزل سے گزرنا ہوتا ہے۔ اب کمال یہ ہوا ہے کہ جسم کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی تھکن سے بچانے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ سوچنے کے مرحلے ہی کو ترک کردیا گیا ہے۔ 
اگر کسی کو یہ بتانے کی کوشش کیجیے کہ جناب‘ سوچنا سیکھئے اور جو کچھ بھی کیجیے وہ سوچ‘ سمجھ کر کیجیے ‘تو سامنے سے جواب ملتا ہے کہ اتنا تو سوچتے ہیں‘ اب اور کتنا سوچیں؟ اس نکتے پر کم ہی لوگ غور کرتے ہیںکہ عمومی سطح پر محض مشاہدے کو ہم تفکر کے درجے پر نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں جو کچھ دکھائی اور سُنائی دیتا ہے‘ اُسے سمجھنا ہوتا ہے۔ یہ عمل ادراک کہلاتا ہے۔ ادراک کی بنیاد پر ہم اپنے لیے کوئی لائحۂ عمل مرتب کرتے ہیں۔ کسی بھی لائحۂ عمل کا مرتب کرنا سوچے بغیر ممکن نہیں۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ کسی بھی صورتِ حال میں محض مبتلائے تشویش ہونے کو سوچنا نہیں کہا جاسکتا۔ انسان کے لیے پریشان ہونا‘ تشویش میں مبتلا ہونا آسان ترین آپشن ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ لوگ یہ آپشن اپناکر سمجھ لیتے ہیں کہ تفکر کا حق ادا کردیا! 
آج پاکستانی معاشرہ مجموعی طور پر ''بے فکری‘‘ کی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ لوگ محض پریشان ہوتے رہتے ہیں اور یہ سوچ کر خوش ہولیتے ہیں کہ غور و فکر کا حق ادا ہوگیا! عام آدمی ہر معاملے میں صرف پریشان اور وحشت زدہ ہو رہنے کی منزل پر رک جاتا ہے۔ اس سے کئی قدم آگے جاکر سوچنے کی منزل آتی ہے۔ وہاں تک جانے کی زحمت گوارا نہیں کرتی۔ اس کا سبب ناقابلِ فہم نہیں۔ سوچنے کے لیے دماغ کو ہلانا پڑتا ہے۔ بہت سے آپشن دیکھنا پڑتے ہیں ‘پھر اُن کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔ مشاورت بھی کرنا پڑتی ہے۔ یہ اچھا خاصا محنت طلب عمل ہے۔ جسم متحرک نہ بھی ہو تو دماغ کو تو ہلانا جُلانا پڑتا ہے۔ لوگ اس مرحلے سے کتراتے ہوئے ‘گزرنا چاہتے ہیں اور گزر رہے ہیں۔ 
پیٹ بھرنے کے لیے کچھ بھی کھایا جاسکتا ہے۔ تن پر کوئی بھی لباس سجایا جاسکتا ہے۔ کہیں جانا ہو تو ہم سواری پر بھی جاسکتے ہیں اور پیدل بھی اور سواری میں بھی کئی آپشن ہوتے ہیں۔ ہر معاملے میں حتمی معاملہ انتخاب کا ہے‘ جس طور روزہ مرہ معاملات میں انتخاب ناگزیر مرحلہ ہے ‘بالکل اُسی طور زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے انتخاب ''ابھی نہیں یا کبھی نہیں‘‘ والا معاملہ ہے۔ 
دماغ محض اس لیے نہیں دیا گیا کہ وہ کھوپڑی میں پڑا رہے۔ اُسے بہ طریقِ احسن متحرک کرنا پڑتا ہے‘ بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ ایسا کیے بغیر دماغ کو ذہن کی منزل تک لانا ممکن نہیں ہوتا اور یوں بنیادی مسائل حل ہو پاتے ہیں ‘نہ زندگی کا معیار بلند ہو پاتا ہے۔ دماغ کو بیشتر معاملات میں تڑی پار رکھنے کا رجحان ترک کیجیے‘ اُسے اپنائیے‘ یعنی سوچنے کی عادت اپنائیے ‘تاکہ عمل کا بھی معیار بلند ہو اور مطلوبہ نتائج کا حصول زیادہ سے زیادہ آسان ہو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved