ریوا گوجون اعلیٰ پائے کی لکھاری ہیں ۔ ان کے مستند کالم اور تجزیے ‘ دنیا بھر میں دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ امریکہ اور چین میں جاری سرد جنگ کے حوالے سے ان کا تجزیہ پیش خدمت ہے۔ '' نیو یارک شہر کے وسط میں واقع مین ہٹن ہوٹل کی لابیوں میں صحافی غیر ملکی قائدین کا پیچھا کررہے ہیں۔ جھنڈوں والے موٹر کیڈز ٹریفک جام کا باعث بن رہے ہیں اور ڈپلومیٹ بڑی احتیاط کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے واک آئوٹ کررہے ہیں۔ کیا آپ اقوام متحدہ پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے نفاذ کے مشن پر قائم ہے؟ یا پھر اس کے کردار کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں کہ یہ بین الاقوامی تنظیم ‘ ان قومی ریاستوں کے لئے ایک تماشہ گاہ بنی ہوئی ہے جو محض اپنے مفادات کا حصول یقینی بنانے میں مصروف ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دریائے مشرق پر واقع وہ پتلی سبز شیشوں والی عمارت تاحال دنیا کا مصروف ترین ڈپلومیٹک بازار ہے۔ اقوام متحدہ میں جو چیز سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ ڈپلومیٹک شناکٹ کے لئے کی جانے والی دوڑ دھوپ ہے۔ وہاں چھوٹی سے چھوٹی اور غریب سے غریب حاکمیت بھی ‘ اپنے ووٹ کے حوالے سے راز و نیاز کرتی نظر آتی ہے تاکہ بڑی میز ‘ یعنی اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل تک رسائی حاصل کی جاسکے۔ بڑی طاقتیں عالمی ایجنڈا مرکزی سٹیج پر پیش کرنے کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں‘ جبکہ چھوٹی طاقتیں راہ داریوں میں اپنا سودا سجاتی ہیں تاکہ کسی بڑی طاقت کو ‘ چھوٹے ممالک کے حق میں کوئی معاہدہ کرنے پر آمادہ کیاجاسکے۔ چھوٹی طاقتوں کے لئے شناخت کی تلاش کے لئے تگ و دو طویل ہوتی ہے اور مشکل بھی ‘ لیکن اگر وہ مناسب جیوپولیٹیکل اہمیت کی حامل ہیں تو عظیم طاقتوں کی مسابقت کے اس دوڑ میں ان کو چھوٹی طاقت ہونے کا بڑا فائدہ ہوسکتا ہے۔
تائیوان اور اسرائیل‘ حرکی قوت رکھنے والے اس معاملے سے اچھے خاصے آگاہ اور واقف ہیں۔ دونوں چھوٹی ریاستیں ہیں۔ دونوں کے پڑوس خطرناک ہیں جبکہ دونوں ہی معاشی تحریک اور سفارت کارانہ پھرتیوں کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہیں۔ دونوں کو ایک بڑے سرپرست کی ضرورت ہے خصوصی طور پر ایسا سرپرست‘ جو اتنا طاقت ور ہو کہ کسی بحران یا مسئلے کے وقت مدد کو پہنچ سکے‘ لیکن اس کے باوجود وہ اتنا دور ہو کہ وہ مستقل اور مسلسل ان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ سفارتی شناخت کے حوالے سے جو فیصلہ کرتا ہے‘ وہ اقوام متحدہ کے سٹیج پر بے حد وزن رکھتا ہے۔ 1948 ء میں ‘ اس وقت جب امریکہ نے خستہ حال برطانوی سلطنت سے اپنی عظیم طاقت ہونے کی حیثیت موثر طریقے سے ورثے میں حاصل کرلی تو وہ ‘ سوویت یونین کی جانب جھکائو رکھنے والی عرب ریاستوں کے ساتھ توازن قائم قائم کرنے اور اسے قائم رکھنے کے حوالے سے ‘ اسرائیل کی اہمیت و افادیت سے پوری طرح آگاہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر ‘ ہیری ٹرومین نے اسی روز اسرائیل کی ریاست کو تسلم کر لیا تھا ‘ جس دن ڈیوڈ بن گوریان نے اس یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ تائیوان کے معاملات اس سے بالکل مختلف بلکہ بالکل الٹ تھے۔ سرد جنگ کے زمانے میں جب امریکہ کو چین اور سوویت یونین کے اتحاد میں رخنہ ڈالنے کا موقع ہاتھ آیا تو اس نے 1979 ء میں چین کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرلئے اور روایتی طور پر یہ تسلیم کر لیا کہ چین صرف ایک ہے اور تائیوان کو چین کا حصہ کہہ کر ‘ تائی پے کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کر لئے۔ 1971 ء میں دی ری پبلک آف چائنا جو کہ تائیوان ہے‘ نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اپنی سیٹ‘ پیپلز ری پبلک آف چائنا کے ہاتھوں کھو دی ۔ اس وقت سے اب تک تائیوان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے اور عالمی برداری کے ہجوم میں ایک کونے میں بیٹھا ہوا ہے۔
اب عالمی نظام ایک بار پھر اپنے سرد جنگ کے زمانے سے باہر نکل رہا ہے اور اس ارتقا کے ساتھ بڑی طاقتوں کے تعلقات میں حالات کے مطابق مرتب کیا جارہا ہے۔ امریکہ ‘ چین کے ساتھ مسابقت کی دوڑ میں ‘ ایک زیادہ سخت اور شدید زمانے میں قدم رکھنے کی تیاریوں میں ہے۔ ایسا کرنے کے لئے اسے دنیا کے دوسرے غیر مستحکم حصوں ‘ جیسے شرقِ اوسط میں معاملات کو قابو میں رکھنے کیلئے ‘ قابل بھروسہ اتحادیوں کی ضرورت ہے‘ چنانچہ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ اسرائیل اور تائیوان آج امریکہ کی خارجہ پالیسی میں ایک بار پھر بے حد اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ تائیوان کی حمایت دبائو ڈالنے اور بڑھانے کا وہ اہم ہتھیار ہے جو واشنگٹن ‘ بیجنگ پر ڈالنا چاہتا ہے۔ اگر امریکہ ‘ ایران کو محدود کرنے کے لئے اقدامات کرتا ہے تو اسرائیل اس سلسلے میں امریکی پالیسیوں کو آگے بڑھانے اور ان پر عمل کرنے کے سلسلے میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر آپ اسرائیل اور تائیوان کے سفارتی دیوانہ پن کا جائزہ لینا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ وسطی امریکہ کے خاکنائے سے آگے نظر دوڑائیں، جہاں تائی پے کے بجائے بیجنگ کی شناخت اور اس کے ساتھ ساتھ یروشلم کی ایمبیسی کو نئی جگہ پر لانے جیسے سوالات ان چھوٹی ریاستوں کو بڑی طاقتوں کی سازشوں کے میدان میں عین وسط میں لا کھڑا کررہی ہیں۔ تائیوان کی شناخت روک بیک کرنے کے سلسلے میں چین کو جوکام کرنے ہیں‘ ان میں ایک وسطی امریکہ پر توجہ دینا بھی شامل ہے۔ چین اس امر میں بالکل واضح ہے کہ تائیوان اس کا ایک صوبہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کو پیپلز ری پبلک آف چائنا اور ری پبلک آف چائنا میں کسی ایک کو تسلم کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ ری پبلک آف چائنا کے لیڈر 1949 ء میں ہونے والی خانہ جنگی میں شکست کے بعد تائیوان فرار ہوگئے تھے۔ 1990 ء کی دہائی میں بیجنگ نے تائیوان کے تمام اتحادیوں کو خرید کر دبائو بڑھانے کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔ اس کے بعد تائی پے میں بیجنگ اور ماینگ جیو کی دوست ‘ کومنتانگ ( کے اپم ٹی) کے حکومت 2008 ء میں ایک غیر اعلانیہ جنگ بندی تک پہنچ گئے تھے ‘ جس میں دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ کسی کی بھی شناخت کو روندنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ یہ جنگ بندی 2016 ء میں اس وقت ختم ہوگئی جب سائی انگ وین اور اس کی آزادی پسند ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی ( ڈی پی پی) الیکشن جیت گئی اور بیجنگ کو یہ تحریص ملی کہ وہ تائی پے کو تنہا کرنے کی کوششیں تیز تر کردے۔ آج تائیوان کے محض 17 ڈپلومیٹک اتحادی باقی بچے ہیں اور ان میں سے بھی آٹھ مغربی نصف کرہ پر واقع ہیں۔
یہی وہ صورتحال ہے‘ جہاں امریکہ نے انٹری دینی ہے۔ امریکہ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے کہ جاری ڈپلومیٹک تگ و دو میں چین کو زیادہ فائدہ ہو رہا ہے۔ لیکن واشنگٹن یہ بھی جانتا ہے کہ چین کو محدود رکھنے کی حکمت عملی میں تائیوان کو اس کھیل میں شامل رکھنا ضروری ہے۔ ون چائنا پالیسی کی حددد کو محدود رکھنے کیلئے امریکہ نہ صرف تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ کررہا ہے بلکہ دفاع میں تعاون کو بڑھا رہا ہے۔ تائیوان کے حکام کو اعلیٰ سطحی دوروں کی اجازت دے رہا ہے اور تائی پے میں اپنی ڈی فیکٹوایمبیسی کو اپ گریڈ کررہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک باقاعدہ حکمت عملی کے تحت ہو رہا ہے۔ چین امریکہ تعلقات میں جوں جوں تائیون کو آسیب چھاتا جارہا ہے‘ قدرتی طور پر وائٹ ہائوس کی نظریں اس جانب اٹھ رہی ہیں کہ چین اپنے پچھواڑے میں تائیوان کے باقی ماندہ اتحادیوں کو اس سے الگ کرنے کیلئے کیا کررہا ہے ؟ ‘‘ (جاری)