تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     02-10-2018

تعلیمی عدم مساوات

تعلیم کے مقاصدمیں جہاں معاشرے میں تبدیلی ‘ڈیویلپمنٹ‘ آزادیٔ افکار‘ آزادیٔ اظہار اورآزادیٔ انتخاب شامل ہیں‘ وہیں تعلیم کاایک اہم مقصد معاشرے میں معاشی اورمعاشرتی امتیازات کوکم کرنا ہے۔یہ امتیازات معاشرے میں گروہ بندیوں کوفروغ دیتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں بے اعتمادی اور بے چینی کی فضاء جنم لیتی ہے۔
کبھی یہ امتیازشہری اوردیہاتی علاقوں میں رہنے سے جنم لیتاہے کیونکہ شہراوردیہات میں آسائشوں کی دستیابی میںعدم توازن ہے۔یوں دیہات میں رہنے والے صحت اورتعلیم کی سہولتوںسے محروم رہتے ہیں۔ ایک اور اہم امتیاز امارت اور غربت کاہے۔ امیروں کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں ‘جبکہ غریب والدین کے پاس اپنے بچوں کواعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھیجنے کے لیے مالی وسائل نہیں ہوتے۔ معاشرے میں ایک اور امتیاز کی بنیاد جنس ہے۔ پاکستان میں بچوں اوربچیوں کے لیے تعلیمی مواقع میں واضح فرق ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں یا بیرون ملک تعلیم کے مواقع بھی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے لیے کم ہیں‘ اس کی ایک وجہ والدین کا بیٹیوں کواعلیٰ تعلیمی اداروں اوربیرونِ ملک تعلیم کے لیے بھجوانے میں ہچکچاہٹ ہے۔
پاکستانی تعلیمی نظام میں بھی مختلف طرح کےInbuiltامتیازات ہیں‘ جس میں مدارس‘ اردو میڈیم سکولز‘ انگلش میڈیم الیٹ سکولز‘ انگلش میڈیم نان الیٹ سکولز ‘ فورسزسکولز‘ کیڈٹ کالجز‘ دانش سکولز وغیرہ غیرہ۔ یوں تعلیم ‘جس کاایک مقصدمعاشرے میں معاشی اور معاشرتی امتیازات کوکم کرنا ہے ‘دراصل ان امتیازات کواورگہرا کررہی ہے۔
ان سارے امتیازات میں سب سے اہم فرق مالی وسائل کی دستیابی یا عدم دستیابی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سکول کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکے۔ وزیراعظم عمران خان کی پہلی تقریر کا مرکزی نکتہ بھی تعلیم تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میںغیرمعمولی طورپر تعلیم کا اکاون بار ذکر کیا‘ جس سے تعلیم کے حوالے سے ان کی دلچسپی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ اسی تقریر میں انہوںنے چار مختلف مقامات پران اڑھائی کروڑ بچوں کاذکرکیا جن کے قدم سکول کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکے۔ ان اڑھائی کروڑ بچوں کا کیاقصور تھا؟ کیاوہ اہلیت میںدوسروں سے کم تھے؟ کیاوہ ذہانت کی دولت سے محروم تھے؟ وہ ذہین بھی تھے اوراہل بھی۔ ان کاواحد قصور یہ تھا کہ وہ غریب والدین کے گھرپیدا ہوئے تھے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد جوکسی بھی ملک کے لیے ایک نعمت (Blessing)سے کم نہیں ہوتی ہم انہیں تعلیم کی دولت سے محروم رکھ کر نعمت کی بجائے ایک Liabilityمیں بدل رہے ہیں ۔ان اڑھائی کروڑ بچوں میں کچھ تو چائلڈ لیبر کی چکی میں پس جاتے ہیں۔ کچھ مصروف شاہراہوں پرپھول بیچتے یا گاڑیوں کی ونڈسکرین دھوتے نظرآتے ہیں۔ کچھ بھکاری بن جاتے ہیں‘کچھ منفی سرگرمیوں کاشکار ہوجاتے ہیں اورکچھ دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کاچارہ بن جاتے ہیں۔
باثروت لوگوں کے بچوں کے سکول مختلف ہوتے ہیں ‘جہاں تمام ضروری سہولتیں میسرہوتی ہیں۔ اس کے برعکس عوام کے سکولوں کی حالت زار دیدنی ہے؛ کہیں چاردیواری نہیں‘کہیں پینے کا صاف پانی نہیں‘ کہیں واش رومزنہیں اورکہیں استاد نہیں۔ انگریزی جو بدقسمتی سے اچھی نوکری لینے کا معیارٹھہرا ہے‘ عام سکولوں میں اس کی تدریس پر وہ اساتذہ مامورہوتے ہیں‘جوخود بھی انگریزی بولنے اور سمجھنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ان امتیازات اورتعلیمی عدم مساوات کے ساتھ معاشرے میں اچھی نوکری حاصل کرنے کے مواقع بھی مختلف ہوتے ہیں۔ مختلف اداروں سے ایک ہی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود الیٹ تعلیمی اداروں کے طلباء کوعام تعلیمی اداروں کے طلباء پر فوقیت ہوتی ہے۔
ماضی قریب میں پاکستان کے چیف جسٹس محترم ثاقب نثارصاحب نے ایک کیس پر نوٹس لیا ‘جوسکولوں میں سہولتوں کے فقدان سے متعلق تھا۔ دراصل اس کیس کی ابتداء اس وقت ہوئی تھی جب2012ء امریکہ سے پروفیسر ڈاکٹر گلزارنیازی نے اس وقت کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کوخط لکھا۔ اس خط کے ساتھ انہوںنے ایک تصویربھی منسلک کی ‘جو ایک موقر انگریزی روزنامے کی 20اپریل 2012ء کی اشاعت کاحصہ تھی۔اس تصویرمیںگوجرنوالہ کے ایک سرکاری سکول کی بچیاں ایک قبرستان میں بیٹھی پڑھ رہی ہیں۔ اسی قبرستان میں ان کی روزانہ کلاس ہوتی ہے۔ بقول پروفیسرڈاکٹرنیازی ایک طرف توکروڑوں روپے کے لیپ ٹاپس بانٹے جارہے ہیں اوردوسری طرف سرکاری سکول عمارت کی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔ 
سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں تمام سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کویقینی بنانے کاحکم دیا‘ لیکن اس حکم پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عزت مآب محترم ثاقب نثار صاحب نے اس فیصلے کو سنجیدگی سے لیاہے ۔ان کاکہناہے کہ آئین کے آرٹیکل25-Aجو لازمی اورمفت تعلیم کو یقینی بناتاہے‘ پرعملدرآمد سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔اگر25-A پرسنجیدگی سے عملدرآمد ہوتا‘ توپاکستان کے25کروڑ بچے سکولوں سے باہرنہ ہوتے‘ بلکہ دوسرے بچوں کے شانہ بشانہ تعلیم کے عمل میں شریک ہوتے۔
اس وقت پاکستان میں شرحِ خواندگی58 فی صدہے‘ جوجنوبی ایشیا کے ممالک میں کم ترین سطح پرہے ۔سوائے افغانستان کے باقی سارے ممالک خواندگی کی دوڑمیں ہم سے آگے ہیں۔ ایک ایسا دور جہاں مضبوط معیشت کامطلبKnowledge Economyہے۔ ہمارے اڑھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ جوبچے سکول پہنچ جاتے ہیں‘ان میں سے 35فیصد بچے آٹھویںجماعت تک پہنچتے پہنچتے سکول چھوڑ دیتے ہیں ۔یوں(Dropout)بچوں کی اتنی کثیرتعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا بھرمیں دوسرے نمبر پرہے۔سکول چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ مالی وسائل کی کمی ہے۔
جناب چیف جسٹس نے25-A کے حوالے سے ٹھوس تجاویز کے حوالے سے وفاقی محتسب کی زیرصدارت ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندے اورماہرین شریک تھے۔ مجھے بھی اس کمیٹی کے ایک رکن کے طورپر مختلف میٹنگز میں شریک ہونے کاموقع ملا۔ متعددمیٹنگز کے نتیجے میں ٹھوس تجاویز پرمبنی رپورٹ جلد ہی جناب چیف جسٹس کی خدمت میں پیش کردی جائے گی۔ یہ رپورٹ نئی حکومت کے لیے بھی ایک اہم دستاویزہوگی جوآئوٹ آف سکول اڑھائی کروڑ بچوں کو سکولوں کے مرکزی دھارے میں لانے کاارادہ رکھتی ہے ۔ کاش ہم سب بحیثیت قوم اس خواب کی تعبیرکے لیے کوشاں ہوجائیں ‘جوہماری قومی ترقی کاضامن ہے۔

 

تعلیم کے مقاصدمیں جہاں معاشرے میں تبدیلی ‘ ڈیویلپمنٹ‘ آزادیٔ افکار‘ آزادیٔ اظہار اورآزادیٔ انتخاب شامل ہیں‘ وہیں تعلیم کاایک اہم مقصد معاشرے میں معاشی اورمعاشرتی امتیازات کوکم کرنا ہے۔پاکستانی تعلیمی نظام میں بھی مختلف طرح کےInbuiltامتیازات ہیں‘ جس میں مدارس‘ اردو میڈیم سکولز‘ انگلش میڈیم الیٹ سکولز‘ انگلش میڈیم نان الیٹ سکولز ‘ فورسزسکولز‘ کیڈٹ کالجز‘ دانش سکولز وغیرہ غیرہ۔ یوں تعلیم ‘جس کاایک مقصد معاشرے میں معاشی اورمعاشرتی امتیازات کوکم کرنا ہے ‘دراصل ان امتیازات کواورگہرا کررہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved