تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     02-10-2018

سحر کی اذاں ہو گئی اب تو جاگ

بانگ درا کے بعد علامہ اقبال نے بال جبریل کے نام سے اپنے کلام کا دوسرا حصہ مرتب کیاتو نظم نمبر158 میں پنجاب کے دہقان سے مخاطب ہوئے۔ کل اشعار سات ہیں۔ میں صرف دونقل کروں گا۔ 
بتا کیا تری زندگی کا ہے راز
ہزاروں برس سے ہے تو خاک باز
اسی خاک میں دب گئی تیری آگ
سحر کی اذاں ہوگئی اب تو جاگ
دوسرے شعر کا دوسرا مصرع آج کے کالم کا عنوان بنا۔ اقبال نے یقینا خواب کے عالم میں سحر کی اذاں سنی ہوگی۔ تقریباً سو برس گزر چکے ہیں‘ پنجاب کے دہقان (یعنی کاشتکار یا کسان) نے تو ابھی تک نہ اذاں سنی اور نہ وہ گہری نیند سے جاگا۔ اقبال نے دیہاتیوں اور کاشتکاروں سے اُمید باندھی کہ وہ قبیلہ کے بت (یعنی ذاتوں سے اتنی گہری وابستگی کہ اپنی پہچان اور شناخت بنا لیا جائے) کو توڑ ڈالیں گے۔ نہ صرف ذاتوں کی بنیاد پر بنی ہوئی برادریوں کے بتوں کو بلکہ پرانی‘ فرسودہ اور گلی سڑی رسموں کی زنجیروں کو بھی۔ مگر اقبال کو یہ لکھتے ہوئے یاد نہ رہا کہ وہ لاہور جیسے بڑے اور تعلیم یافتہ شہر میں الیکشن میں کھڑے ہوئے تو محض اس وجہ سے ناکام ہوئے کہ مخالف امیدوار کی ارائیں برادری ان کی برادری (کشمیری) سے تعداد میں بڑی اور سیاسی طور پر زیادہ طاقتور تھی۔ گزشتہ ڈیڑھ صدی میں ہماری جدید تاریخ میں پانچ بارسحر کی اذاں سنی گئی۔ موذن کون تھے؟ سب سے پہلے سرسید احمد خان‘ پھر مولانا عبیداللہ سندھی اور پھرخود اقبال‘ پھر قائداعظم اور ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو۔ ہر بار لوگ نیند سے جاگے مگر بدقسمتی سے پھر سو گئے۔ خود بھٹو صاحب اس وقت ابدی نیند سو گئے جب ہمیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی اور ذہنی بیداری کی کوئی ایسی جاندار تحریک نہیں چلی جو کئی صدیوں تک زندہ و تابندہ رہتی ہے وہ بھی (بقول ِاقبال): 
جو قلب کو گرما دے جو رُوح کو تڑپا دے
اس کے باوجود کہ مسلمانوں کے سینوں میں دل راکھ کے ڈھیر بن چکے تھے‘ مگر پھر بھی اقبال کا حوصلہ پست نہ ہوا اور انہوں نے دعا مانگی کہ یا رب! دل مسلم کو زندہ تمنا دے۔ اس دعا کی قبولیت کا وقت نہ جانے کب آئے گا؟ ہندوستان میں مسلمان قومیت کی تحریک تقریباً دس برس چلی اور تحریک پاکستان صرف ایک برس۔ ایک بڑے ہجوم کی بھرپور اور پرُ جوش حمایت نے اپنا ملک تو بنا لیا مگر وہ جن اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لئے بنایا گیا تھا ‘ان کی عمارت صرف فلاحی مملکت کے ستونوں پر تعمیر کی جا سکتی تھی۔مگر نہ ستون بنے اور نہ عمارت۔ وطن عزیز میں اربوں ڈالر کی چوری کا سراغ لگانے کے لئے ہمیں موجودہ ادارۂ احتساب سے کہیں بڑا ادارہ بنانا ہوگا۔ کرپشن‘ رشوت ستانی‘لوٹ مار‘ استحصال اور منی لانڈرنگ اپنے عروج پر ہوں تو فلاحی ریاست کیسے بن سکتی ہے۔ پاناما‘ دبئی ‘ جنیوا اور لندن میں چوری کے مال کو اس سلیقہ سے چھپایا گیا کہ آصف علی زرداری کو گیارہ برس جیل میں رکھا گیا‘ یقینا اس لمبے عرصہ میں ان پر مقدمات بھی چلائے گئے‘ مگر انہیں ایک مقدمہ میں کبھی مالی بدعنوانی کی سزا نہ دی جاسکی۔ یہ کالم نگارچھ ہزار میل کے فاصلہ پر اس کھلی حقیقت کو جانتا ہے‘ مگر اعتزاز احسن جیسا اچھاوکیل ابھی تک اس سچائی سے بے خبر ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کا جو عالم ہے اُس کے بارے یہی کہا جا سکتا ہے کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ جناب عمران خان کو جن زبانوں پر عبور ہے ان میں فارسی بھی شامل ہوتی تو وہ فارسی کا یہ مقولہ صبح و شام دُہراتے دہراتے : تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک حکیم صاحب کے پاس مریض لایا گیا جس کا سارا جسم آگ میں جھلس گیا تھا۔ سارے جسم پر پھپھولے اُبھر آئے تھے۔ حکیم صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور سوچنے لگے کہ میں زخموں پر مرہم لگانے کے لئے روئی کہاں کہاں رکھوں۔
اگر جناب عمران خان اگلے تین ماہ میں یہ چھ کام کر کے دکھا دیں تو ہمارے زخموں کے مندمل ہونے کے آثار پیدا ہونے لگیں گے۔ اوّل یہ کہ اندرون ملک اور بیرون ملک چوری کے اربوں ڈالر کی بازیابی ۔ دوم‘ ٹیکس کا نظام بالکل بدل دیا جائے‘ زمینوں ‘ مکانوں اور جائیدادوں کی خرید و فروخت‘ سٹاک ایکسچینج میں حصص کی خرید و فروخت اور کاشتکاری کے بڑے رقبوں کی آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے۔ ان دنوں صرف آٹھ لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں‘ اس تعداد کو جلد از جلد دس گنا بڑھایا جائے۔ ہمیں ہر سال (ٹیکسوں کی صورت میں) ایک ہزار ارب روپے وصول ہونے چاہئیں ۔وزیر مالیات اسد عمر صاحب کو چاہئے کہ ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی کی سربراہی میں ماہرین معیشت کی ٹاسک فورس بنائیں‘ جس میں ڈاکٹر شاہدہ وزارت‘ ڈاکٹر اکمل حسین‘ڈاکٹر قیصر بنگالی اور ان جیسے عوام دوست اور روشن دماغ لوگ شامل ہوں۔ حکومت ان کے بے حد اچھے مشوروں پر عمل کرے گی تو موسم خزاں بہار میں بدل جائے گا۔ سوم‘ لاکھوں ایکڑ قابل کاشت زمین بے حد آسان قسطوں پر بے زمین کاشتکاروں میں تقسیم کر دی جائے۔ اس سے زرعی پیداوار کئی گنا بڑھ جائے گی۔اسی طرح کارخانوں میں مزدوروں کو حصہ دار بنایا جائے گا تو صنعتی پیداوار بڑھے گی۔ کراچی سٹیل مل کے مزدوروں کو ہی سٹیل مل کی ملکیت دے دی جائے تو وہ منافع بخش ہو جائے گی۔ چہارم‘ روزنامہ دُنیا کے کالم نگار جناب منیر احمد بلوچ کے دیئے گئے مشورہ کے مطابق پوٹھوہار میں درجنوں چھوٹے ڈیم بنائے جائیں‘ جس سے توانائی کا مسئلہ حل ہو۔ پنجم‘ ایسا قانون بنایا جائے اور سختی سے نافذ کیا جائے کہ ہماری درآمدات کسی صورت بھی برآمدات سے ایک روپیہ زیادہ نہ ہوں۔ ششم‘ ہمارے قومی خزانہ پر جو دو بوجھ سب سے زیادہ بڑے ہیں‘ وہ ہیں دفاعی اخراجات (1190 ارب روپے سالانہ) اور غیر ملکی قرضوںپر سود کی ادائیگی۔ اگر بجٹ کا خسارہ(1620 ارب روپے سالانہ) ایک مستقل پرابلم نہ رہے اور ہمارے اوپر ہر سال نیا قرض مانگنے کا دبائو نہ ہو تو ہم پچھلے قرضوں کی ادائیگی کواچھا وقت آنے تک موخر کر سکیں گے۔ کافی سالوں تک ایٹمی ہتھیاروں کی ڈھال بنانے میں یقینا اربوں روپے خرچ ہوئے ہوں گے۔ ان کی حفاظت پر بھی کروڑوں روپے ضرور خرچ ہوتے ہوں گے۔ کالم نگار جان کی امان مانگتے ہوئے یہ گزارش کرنے کی جسارت کر رہا ہے کہ ہمارے دفاعی ماہرین کوئی ایسا طریقہ سوچیں کہ قومی دفاع کو نذر انداز کئے بغیرہم اپنے دفاعی بجٹ میں کمی کریں ۔
جب ہماری سیاست اور خارجہ تعلقات بگڑیں تو ہماری معاشی حالت بھی بگڑنے لگتی ہے۔ جو ملک میں شمسی توانائی اور پن بجلی کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہو‘ مگر وہ تیل درآمد کر کے دنیا کی مہنگی ترین بجلی پیدا کرنے کی بدترین روش پر چلنے پر مصر ہو‘ اس بدنصیب قوم کے حکمرانوں کی عقل پر سوائے ماتم کے اور کیا کیا جا سکتا ہے؟ لیکن محض ماتم کرنے سے تو کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ کتنی اچھی بات ہے کہ قوم نے جناب عمران خان کی اپیل پر تحریک انصاف کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنے اصلاحی پروگرام کو عملی شکل دے۔ پہلی ناعاقبت اندیش حکومتوں کی طرح وہ نہ دھڑا دھڑ نوٹ چھاپے اور نہ غیر ملکی قرضے لے ۔ نہ افراطِ زر پیدا کرے اور نہ معیشت کو ناقابل ادائیگی قرضوں کے بوجھ تلے اس طرح دبائے کہ اس کی کمر ٹوٹ جائے اور وہ اُٹھ نہ سکے۔ وہ عام لوگوں کی عام ضرورتوں کو پورا کرنے والی چیزوں (مثلاً گیس اور بجلی اور پٹرول) پر مزید ٹیکس لگائے گی تو اسد عمراور اسحاق ڈار میں فرق مٹ جائے گا۔ہماری معاشی حالت مفلوج ہوتے ہوتے دیوالیہ پن کی دہلیز تک جا پہنچی ہے۔ جب تک اس کا بگاڑ ختم نہ ہوگا‘ ہم بے روزگاری اور مہنگائی کی دلدل سے نہ نکل سکیں گے۔ کیا بدقسمتی سے سیاسی تعصب بڑھتے بڑھتے ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو چکا ہے؟ کیا تحریک انصاف کے اُمیدواروں کے مخالفین کو ووٹ ڈالنے والوں کی سماعت اس حد تک بہرہ پن کا شکار ہو چکی ہے کہ وہ نہ سحر کی اذان سن سکتے ہیں اور نہ جاگ سکتے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved