دستورِ پاکستان کی دفعات 62 اور 63 نے محترمہ عاصمہ جہانگیر کو ایک عرصے سے اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے، وہ وقتاً فوقتاً غم و غصے کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ اُن کا بس چلے تو ان دونوں کو فوراً سے پیشتر دستور سے نکال باہر کریں۔ وہ اور اُن کے ہمنوا اُنہیں جنرل ضیاء الحق کے ’تجاوزات‘ قرار دیتے ہیں اور اس خواہش میں مبتلا ہیں کہ جب تک ان پر باقاعدہ خطِ تنسیخ نہیں پھیرا جاتا، اس وقت تک ان کو اِسی طرح خواب آور گولیاں کھلائی جاتی رہیں گی جیسی ان دفعات کو کھلائی جا چکی ہیں، جن کا تعلق اُردو کو سرکاری زبان بنانے یا مقامی حکومت کے اداروں کو فروغ دینے سے ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی آئینی دفعات کی مثال دی جا سکتی ہے جن کو خواب گاہ سے نکلنا تو کجا بسترِ خواب سے اُٹھنے کی اجازت بھی نہیں ہے لیکن یہ معاملہ کسی اور وقت پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ ہمارے فیشنی بھائیوں اور بہنوں کے دُکھ میں اب بعض باریش دوست بھی برابر کے شریک ہو گئے ہیں، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ ان کے نالے زیادہ بلند ہو رہے ہیں۔ وہ بھی ان لوگوں کے غم میں گھلے جا رہے ہیں، جنہیں شوق تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مجلسِ قانون ساز میں تشریف فرما ہونے کا ہے لیکن قرآن کے سیپارے ان کے نزدیک 32 ہیں، یا نماز کے اوقات پانچ نہیں چھ یا سات ہیں یا دس،20 ہزار روپے کی آمدنی کے ساتھ تین عدد بیویوں کی پرورش کا شوق پورا کر رہے ہیں اور دستِ غیب کی نشاندہی کرنے کو ذاتی معاملات میں مداخلت سمجھتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک نامور وکیل نے جو ہمارے مرحوم دوست واصف علی واصف (جن کا مزار مزنگ چونگی کے قریب آباد ہے) کے خوشہ چین ہیں، مختلف ریٹرننگ افسروں کے سوالات کا سبب بے روح نظام تعلیم کو قرار دیا ہے اور ریٹرننگ افسروں پر پوری دانش سمیت برسے ہیں۔ کئی دوسرے قانون دان بھی ان سے پیچھے نہیں، دو بلکہ سو قدم آگے ہیں۔ میڈیا کے اینکر اور اخبارات کے کالم نگار بھی الیکشن کمیشن پر برس رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ نظریہ ٔ پاکستان اور اسلامی شعائر کے حوالے سے امیدواروں کو سوال کرنے والے ریٹرننگ افسر دراصل دہشت گردی کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں، گویا اسی طرح کے سوالات سے تنگ آ کر بہت سے لوگوں نے بندوق اُٹھا رکھی ہے۔ کراچی، بلوچستان اور فاٹا کے ’’ٹارگٹ کلرز‘‘ جو خون پینے کے مرض میں مبتلا ہوئے ہیں تو اِسی لیے کہ اُن سے کسی ریٹرننگ افسر یا اس سے ملتے جلتے کسی شخص نے کلمہ ٔ شہادت سنانے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ ان اینکر بھائیوں نے یہ البتہ نہیں بتایا کہ اُن کے الفاظ اور لہجے جو کشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں، اس کا سبب بھی کسی مولوی نما ریٹرننگ افسر کی کوئی حرکت ہے یا کوئی اور معاملہ۔ ایک حادثہ یہ بھی ہے کہ ہمارے باریش بھائی سلیم صافی بھی اس جنگ میں کود پڑے ہیں۔ ان کی فہم و فراست اور کردار و گفتار کا ہر وہ شخص معترف ہے جو ان کو جانتا یا (کم از کم) سنتا ہے۔ اُن کا شمار ذہین ترین اخبار نویسوں میں کیا جا سکتا ہے لیکن62، 63 کو تماشہ قرار دے کر انہوں نے یوں غم و غصے کا اظہار فرمایا ہے: ’’آرٹیکل62 اور 63 کے وکیلوں اور صحافی مفتیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر مستقبل میں سیاسی قیادت یک جا ہو کر سیاست اور شریعت کو الگ کرنے کا مطالبہ کرے گی تو اس کے ذمہ دار یہی لوگ قرار پائیں گے جو جنرل ضیاء الحق جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے نعوذ باللہ وہ اللہ کے بنائے ہوئے قوانین ہوں‘‘۔ مزید ارشاد ہوتا ہے: ’’عدلیہ اور الیکشن کمشنر کی نیت اور صلاحیت پر شک نہیں لیکن یہ یاد رہنا چاہئے کہ 62، 63 کی آڑ میں جمہوریت کو کوئی نقصان پہنچا تو تاریخ میں موجودہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن ہی کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا‘‘۔ آگے چل کر اطلاع دی جاتی ہے: ’’اس ملک کی بقا کا راستہ یہ ہے کہ لوگ یہاں کی عدلیہ کی بھی عزت کریں، فوج کی بھی اور سیاسی قیادت کی بھی۔ ہم کسی بھی ادارے کے لوگوں کو بے توقیر کریں گے تو تباہی ہو گی‘‘۔ پیارے بھائی صاحب کا یہ فرمانا تو بجا ہے کہ کسی بھی ادارے کی بے توقیری نہیں ہونی چاہیے لیکن اگر آئین کی دو دفعات کو جنرل ضیاء الحق کے کھاتے میں ڈال کر مسترد کر کے آئینی مہارت کا خراج طلب کیا جائے تو وہ بقائمی ٔ ہوش و حواس کون ادا کرے گا؟ پاکستانی سیاست کی الف، بے سے واقف لوگوں کو بھی یہ معلوم ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جو آئینی ترامیم کی گئیں، ان کو 1985ء میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی اور سینٹ کی دوتہائی اکثریت نے آئین کا حصہ بنا دیا تھا۔ آٹھویں ترمیم کے بل سے جنرل ضیاء الحق کی کئی خواہشات کا اخراج کیا گیا لیکن قانون ساز اداروں کی اہلیت اور نااہلیت کے لیے طے کردہ معیار کو موضوع گفتگو نہیں بنایا گیا۔ ان دفعات کو ضیاء الحق کی ایجاد قرار دے کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا انکار آئین پاکستان کا انکار ہے۔ اس کے بعد بھی کئی اسمبلیاں منتخب ہوئیں، آئین میں متعدد ترامیم کی گئیں لیکن مذکورہ دفعات پر اتفاق رائے موجود رہا۔2008ء کے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلی اور سینٹ کی ایک کل جماعتی کمیٹی مہینوں دستور پر غور و خوض کرتی رہی، اس نے اتفاق رائے سے اٹھارہویں ترمیم کا مسودہ منظور کیا۔ متعدد دفعات کو بدلا اور متعدد کا اضافہ کیا لیکن ان دفعات سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ ان کا اخراج کسی کا مطالبہ نہیں تھا۔ 62 (ایف) میں ایک فقرے کا اضافہ البتہ کیا گیا جس کا مطلب تھا کہ اس شق میں درج کی جانے والی خصوصیات کا انکار عدالتی فیصلے کے تابع ہو گا۔ ’’سمجھداری، پارسائی، امانت داری، فہم و فراست اور فسق‘‘ کے حوالے سے قائم کی جانے والی رائے عدالتی فیصلے کی پابند ہو گی، یعنی کسی شخص کے خلاف عدالت کا کوئی فیصلہ ہی اس کو ’’ڈس کوالیفائی‘‘ کرنے کی بنیاد بن سکے گا۔ اس طرح یہ شق ریٹرننگ افسر یا الیکشن کمیشن کی دسترس سے نکل آئی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے اگر چاہتے تو 62 کی دوسری شقوں میں بھی تبدیلی، کمی یا اضافہ کر سکتے تھے، ایسا نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ہر امیدوار ’’اچھے کردار کا حامل ہو، اس کی شہرت عام یہ نہ ہو کہ وہ اسلام کے مقرر کردہ فرائض کی ادائیگی نہیں کرتا اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب نہیں کرتا‘‘۔ مزید یہ کہ ’’وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہے‘‘… (دفعہ 62کی ذیلی دفعات ڈی اور ای یہی کہتی ہیں)۔ یہ الفاظ جو دستور کے اندر موجود ہیں، پارلیمنٹ ان کی توضیح کر سکتی تھی، لیکن اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ یہ معاملہ اگر ریٹرننگ افسروں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے تو اب یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ اس سے سیاسی قیادت کی بے توقیری کا پہلو کہاں سے نکل آیا، دین اور سیاست کی یک جائی ختم کرنے کا جواز کیسے گھڑ لیا گیا؟ یہ درست ہے کہ ریٹرننگ افسروںکو مضحکہ خیز سوالات نہیں پوچھنے چاہئیں، لیکن کلمہ ٔ طیبہ اِس لیے ترک نہیں کیا جا سکتا کہ ضیاء الحق اِس کا ورد کرتے تھے۔ مطالبہ یہ کیا جانا چاہیے کہ الیکشن کمیشن ’’اسلامی علم‘‘ کے حوالے سے سوالات کا ایک مجموعہ تیار کر دے تاکہ ہر امیدوارکو معلوم ہو کہ اس سے یہ کچھ پوچھا جا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے عوامی نمائندوں اور عہدہ داروں کی ذمہ داریوں کو ان کا مرکزی خیال ہونا چاہیے۔ اس طرح ہر امیدوار اپنے فرائض کے بارے میں معلومات کو بھی تازہ کر لے گا اور دستور کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں گے۔ ہر شخص کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بھی مملکت کے بنیادی نظریے اور اس کے تقاضوں سے عدم واقفیت رکھنے والوں کو اس کے قانون ساز اداروں میں بیٹھنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے آئین کا مذاق اڑانے والے دراصل اپنے مبلغ علم کا مذاق اڑا رہے ہیں، انہیں قرطاس و قلم کے ’’صوفی محمد‘‘ کیوں نہ قرار دیا جائے؟ (یہ کالم روزنامہ ’’دُنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved