تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     03-10-2018

بدلتی دنیا …… (آخری قسط)

'' توقع کی جا سکتی ہے‘ سینٹرل امریکہ کی ریاستیں بیرون ملک کام کرنے والوں کی اپنے ملک ترسیلاتِ زر‘ معاشی امداد اور تجارتی بہائو کے حوالے سے اپنی شمالی ہمسائے پر بہت حد تک انحصار کرتی ہیں۔ وسطی امریکہ کو مستحکم رکھنے میں امریکہ کے کچھ براہ راست مفادات بھی ہیں۔ اس طرح وہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد کے ذریعے لوگوں کے امریکہ میں داخلے کے عمل کو روک سکتا ہے اور منشیات کی بر آمد کو بھی۔ لیکن ان میں سے بہت سی معاشی طور پر کمزور ریاستیں ایسی بھی ہیںجن کو چین نے انفراسٹرکچر پروجیکٹس اور امداد کی بڑی پیشکشیں کر رکھی ہیں۔ یہ ریاستیں چین کی اس پیشکش سے متاثر ہیں‘ خصوصی طور پر اس اس حوالے سے انہیںدر پردہ بھی فنڈز حاصل کرنے کا موقع میسر ہے۔ چین یہ ساری سہولتیں بہت تھوڑی قیمت پر فراہم کرنے کی پیشکش کر رہا ہے‘ جبکہ تائیوان اس وقت ایک عجیب مخمصے کا شکار نظر آتا ہے کیونکہ امریکہ اس کے وسطی امریکہ کی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے سخت شکایات کر رہا ہے اور شرائط عائد کر رہا ہے۔ جیسے بد عنوانی‘ گروہی ہنگامہ آرائی و تشدد‘ اور انسانی حقوق۔ اور ایک ایسے موقعہ پر جب امریکہ‘ وسطی امریکہ کے لئے اپنی امداد میں کمی کر رہا ہے اور اپنے ملک میں رہنے والے باشندوں سے سیاسی پناہ کا سٹیٹس واپس لے رہا ہے‘ بیجنگ اپنے لئے سنہرا موقع پا رہا ہے کہ انکل سام اور اس کے جنوبی پڑوسیوں کے درمیان شگاف پیدا کرے۔ پاناما اور ڈومینیک ری پبلک نے جس کی اس پیشکش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بالترتیب گزشتہ برس جون میں اور امسال مئی میں تائیوان سے اپنا تعلق منقطع کر لیا۔ اگست میں ایل سلواڈور چینی ٹیم میں شامل ہونے والا اب تک آخری ملک ہے۔ اس سے یہ رپورٹیں ملی ہیں کہ چین نے بندرگاہ اور ایک خصوصی اکنامک زون قائم کرنے کیلئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ اس نصف کرہ پر ہونے والی اس سفارتی ادلہ بدلی پر ماضی کے ردعمل کے برعکس ‘ٹرمپ انتظامیہ نے نہ صرف ایل سلواڈور بلکہ پاناما اور ڈومینیک ری پبلک سے بھی اپنے سفرا کو واپس واشنگٹن بلا بھیجا ۔ سان سلوا ڈور (دارالحکومت ایل سلواڈور) کے لئے بدشگونی کی بات یہ ہے کہ ترجمان وائٹ ہائوس نے کہا کہ اس کے دور رس اثرات برآمد ہوں گے کیونکہ امریکہ‘ ایل سلواڈور حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے گا۔ 
اس صورتحال نے تائیوان کے باقی اتحادیوں گوئٹے مالا‘ ہنڈروس اور نکاراگواکو بیجنگ اور واشنگٹن‘ دونوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ مذکورہ تینوں ریاستوں میں سے ہر ایک کو امریکہ سے شکایات ہیں۔ کیونکہ امریکہ کی جانب ان تینوں ریاستوں کو جو امداد ملتی تھی‘ 2016ء سے اب تک اس میں ایک تہائی سے زیادہ کمی کر دی گئی ہے۔ وائٹ ہائوس وسطی امریکہ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں باشندوں کی عارضی طور پر تحفظ اور پناہ حاصل کرنے کی حیثیت ختم کرتا جا رہا ہے۔علاوہ ازیں تینوں کی ہی یہ خواہش ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ان کے داخلی مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کرے۔ یہ داخلی مسائل کیا ہیں؟ گوئٹے مالا کا صدرجمی موریلز اس کوشش میں ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں چلنے والی تحقیقات کسی طرح ختم ہو جائیں‘ اس سے پہلے اپنے پیش رو کی طرح انہیں بھی اقتدار سے الگ نہ ہونا پڑے۔ ہنڈروس کے صدر جوان اورلینڈو ہرنینڈس کی خواہش ہے کہ امریکہ کی ہی نگرانی میں چلنے والی ایک اور اینٹی کرپشن باڈی کسی طرح بے اثر ہو جائے جبکہ نکاراگوا کے صدر ڈینیئل اورٹیگا حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر تشدد کے دوران ہی امریکہ کی جانب سے لگائے گئے انسانی حقوق کے حوالے سے الزامات کی تردید میں مصروف ہیں۔ 
یہی وہ مقام ہے جہاں امریکہ کے تائیوان کے حوالے سے تقاضے‘ اسرائیل کے حوالے سے اس کی سوچ سے الگ نظر آتے ہیں۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ یہ ریاستیں تائیوان کے ساتھ رہیں ۔ اس کے علاوہ امریکہ کا تقاضا ہے کہ یہی ریاستیں اس کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے معاملے میں اس کی پیروی کریں۔ یہ اشارہ ہے کہ جھگڑوں کا ایک نیا رائونڈ شروع ہونے والا ہے۔ مثال کے طور پر گوئٹے مالا نے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرکے ٹرمپ کا ساتھ دیا اور اس طرح اپنے حق میں پوائنٹ سکور کر لیا ہے۔ علاوہ ازیں اس نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کی مخالفت میں ووٹ ڈالا‘ جس میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن ‘یروشلم کو تسلیم کرنے کا اپنا فیصلہ واپس لے جبکہ گوئٹے مالا نے ‘ فی الحال یہ کہا ہے کہ وہ تائیوان کا ساتھ دے گا(حالانکہ اس پر داخلی سطح پر کاروباری طبقوں کی جانب سے شدید دبائو ہے کہ وہ بیجنگ کا ساتھ دے ) وائٹ ہائوس ان اقدامات سے مطمئن نظر آتا ہے اور اسی وجہ سے گوئٹے مالا کے صدر کو یہ موقع مل گیا کہ وہ 31 اگست کو انٹرنیشنل کمیشن اگینسٹ انپیونٹی ان گوئٹے مالا (سی آئی سی آئی جی) کے ہیڈکوارٹرز کا امریکہ کی عطا کردہ فوجی گاڑیوں کے ذریعے محاصرہ کر سکیں۔ اس کے کمیشنر کو ملک بددر کر دیا گیا اور سرکاری طور پراقوام متحدہ کا سپانسرڈ اینٹی کرپشن کمیشن بھی ختم کر دیا گیا۔ اس کے ردعمل میں امریکہ نے بھی مروت دکھائی اور امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ''ہم منشیات کے خاتمے اور سکیورٹی کے حوالے سے گوئٹے مالا کی کوششوں کی تعریف کرتے ہیں ‘‘۔ 
ہنڈروس ایل سلواڈور اور گوئٹے مالا کی جانب سے کئے گئے اقدامات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے تاکہ یہ اندازہ لگا سکے کہ اس کا اگلا اقدام کیا ہونا چاہئے؟ ٹیگوسی گالپا(ہنڈروس کا دارالحکومت) نے بھی یروشلم کے معاملے میں اقوام متحدہ کی قرارداد کی مخالفت کی اور اس طرح امریکہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اس سلسلے میں وہ اس کے ساتھ ہے‘ لیکن اس کی حکومت مسلسل یہ واضح کر رہی ہے کہ تائیوان کے ساتھ جڑنے رہنے کے لئے مزید تحریکات اور ترغیبات کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی اورلینڈو ہرنینڈس کی جانب سے امریکہ کو اس حوالے سے پیغام دیا گیا کہ ہنڈروس کے لئے اس کی امداد میں کمی آئی ہے اور یہ کہ چین کی جانب سے اس خطے کی جانب بڑھنا ایک بہترین موقع سے کم نہیں ہے جو دوسرے ممالک‘ کو ایل سلواڈور کے نقش قدم پر چلنے کا باعث بن سکتا ہے۔ نکاراگوا کے وائٹ ہائوس کے ساتھ تعلقات زود رنجی والے ہیں۔ ایران اور ویینزویلا کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے نکاراگوا‘ امریکہ کے راڈار پر رہتا ہے (حالانکہ اس نے گزشتہ برس اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر لئے تھے)۔ تائیوان کے ساتھ نکاراگوا کے تعلقات کا خاصا انحصار ایل سلواڈور پر ہو گا کہ وہ کیا اقدام کرتا ہے؟پیراگوئے اس خطے کا وہ واحد ملک ہے‘ جو تائیوان کا وفادار رہا اور اب بھی ہے۔ 
تائیوان کے حوالے سے سفارتی لہر واضح طور پر چین کے حق میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب جبکہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان طاقت کا کھیل شروع ہو رہا ہے تو تائیوان کو سفارتی محاذ پر جس نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ امریکہ اسے روکنے کے قابل ہو سکے گا؟ یا کبھی اس کا ازالہ ممکن ہو سکے گا؟یہ وقت ہی بتائے گا کہ وسطی امریکہ کے ممالک کے خلاف امریکہ جو اقدامات کر رہاہے‘ اور جنہوں نے تائیوان کو ایک گہری کھائی میں لا پھینکا ہے‘ وہ امداد میں کمی‘ ترسیلات زر میں تخفیف ' تجارت اور دوسرے اہم تعلقات کے بارے میں زبانی اعلانات سے آگے بڑھ سکیں گے یا نہیں۔ جب بڑی طاقتوں کے مابین مسابقت کی دوڑ شروع ہو جائے تو اس میں چھوٹی طاقتوں کیلئے بڑے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔ تائیوان اور وسطی امریکہ کی ریاستوں کے لئے ایسی ہی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ تائیوان کو ایک ایسے وقت پر امریکہ کی جانب سے مدد مل رہی ہے جب وہ سفارتی لحاظ سے 'نو مینز لینڈ‘ میں گرنے جا رہا ہے جبکہ اکثر نظر انداز ہونے والی وسطی ایشیا کی ریاستوں کے لئے وہ نادر موقع پیدا ہو رہا ہے‘جس میں وہ اپنے عظیم پڑوسی پر دبائو بڑھا سکتی ہیں اور اس طرح زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ یہ سارے معاملات‘ ہو سکتا ہے کہ ایسی رپورٹوں کا سبب نہ بنیں‘ جو شہ سرخیوں کی صورت میں میڈیا کی زینت بنتی ہیں‘ لیکن یہ بالکل بے آواز اور بے حد زیادہ اخراجات والی سفارتی لڑائیاں عظیم طاقتوں کے لئے اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہیں‘‘۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved