تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-10-2018

بتوں سے تجھ کو امیدیں

ان گنوار چرواہوں کو لوگ لیڈر سمجھتے ہیں۔ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ان سے امیدیں باندھتے ہیں۔ ان کی وکالت کرتے ہیں۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
رانا مشہود کا بیان اسی پسماندہ ذہنیت کامظہر ہے‘ عشروں سے جوچلی آتی ہے ۔ ایک امید بندھی تھی مگر عمران خان نے ایک ریوڑ کے ریوڑ کو قبول کر لیا۔ مان لیا کہ جس مثالی طرز عمل کے مدتوں وہ علمبردار رہے‘ اب اس سے دستبردار ہوتے ہیں؛ اگرچہ نتیجہ برعکس نکلا۔مرغانِ بادنما میں سے اکثر ہار گئے۔ خاص طور پر وسطی پنجاب میں جہاں بڑی تعداد نے خاک چاٹی۔ پارٹی نے امیدواروں کے انتخاب کا اگر کوئی طریقِ کار وضع کیا ہوتا تو یہ دن اسے نہ دیکھنا پڑتا۔
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
سیاسی جماعت ایک تنظیم اور نصب العین کا نام ہوتی ہے۔ نصب العین پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ تنظیم مقصد کے حصول کا بنیادی ذریعہ ہوتی ہے۔ لیکن جب اقتدار ہی پہلی اور آخری ترجیح ہو تو کہاں کا نصب العین اور کیسی تنظیم۔
رانا مشہود نے بتا دیا کہ نون لیگ اب تک سول بالادستی کے جس بیانیے پہ مصرتھی‘ وہ محض پراپیگنڈے کا ایک ہتھیار ہے۔ان کا یہ ارشاد کہ اسٹیبلشمنٹ سے ان کی بات طے پا چکی‘اس امر کا اعلان ہے کہ وہ اب بھی انہی حربوں پہ یقین رکھتی ہے‘ تین عشرے قبل جو اس کی بنیاد بنے۔
فوج اور ایجنسیوں کی گود میں میاں محمد نواز شریف نے پرورش پائی۔اسی نے انہیں وزارت بخشی‘وزیراعلیٰ بنایا اور 1990ء میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کیا۔عسکری قیادت سے ان کی کشمکش انا پروری کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔1999ء میں برطرفی کے بعد سول بالادستی کے لئے بظاہر ان کے موقف میں سختی آتی گئی۔ 2007ء سے 2013ء تک شہباز شریف اور ان کے ہمدمِ دیرینہ چودھری نثار علی خان‘ مگرراتوں کی تاریکی میں جی ایچ کیو کا طواف بھی کرتے رہے۔
رانا مشہود فرماتے ہیں کہ دو ماہ میں ان کی پارٹی پھر سے برسر اقتدار آ سکتی ہے۔سادہ الفاظ میں یہ کہ اسٹیبلشمنٹ سے مل کر وہ پی ٹی آئی کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ انہی کے بقول سرکردہ لوگوں سے بات طے ہو چکی۔ان لوگوں نے جان لیا ہے کہ ان کا واسطہ گھوڑے نہیں خچر سے ہے۔رانا صاحب کی بات درست مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شہباز شریف یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں نون لیگ زیادہ خوبی اور کمال سے اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد پورے کر سکتی ہے۔ اس بیان کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ عوامی ووٹوں سے‘ عمران خان نہیں جیتے بلکہ طاقتوروں کی سرپرستی کے طفیل۔ اسی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خود ان کی جماعت نے بھی یہی راستہ اختیار کرنے کا تہیہ کر لیا ہے... تو پھر سلطانیِٔ جمہورکا فریب کیا ہے؟ دستور اور سول کی بالادستی کیا ہے؟ جمہوریت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا مطلب کیا ہے؟ گویا یہ فرمایاکہ خود نون لیگ کے لئے بھی‘ اقتدار ہی سب کچھ ہے۔اب تک جو نعرہ بازی وہ فرما رہے تھے ‘ وہ محض شعبدہ بازی تھی‘ فقط فریب دہی۔
تجزیہ کاروں کی اکثریت کا خیال یہ ہے کہ رانا صاحب کے یہ ارشادات‘ شہباز شریف کے ایما پر ہیں۔ مقصد اس کا یہ ہے کہ امید برقرار رکھی جا سکے۔ پارٹی کو شکست و ریخت سے بچایا جا سکے۔اسٹیبلشمنٹ کیا پاگل ہے کہ ان پر اعتبار کرے جو ہر بار ملک کی جان کو آتے ہیں‘ لوٹ مار مچاتے ہیں۔
عدالت کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہے۔ ججوں کی نیت پہ شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن رانا صاحب کے بیان کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ نواز شریف اور ان کی دخترِ نیک اختر مریم نواز کی رہائی سودے بازی سے انجام پائی۔کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس مقصد کے لئے نیب کو استعمال کیا گیا۔ اس کے وکلاء اور تفتیش کاروں نے ٹھیک وہی سہولت شریف خاندان کو فراہم کی‘ ماضی میں جس سے زرداری صاحب فائدہ اٹھاتے رہے؟ پیہم مقدمات لٹکا کر‘ ایک کے بعد نیب کے دوسرے تفتیش کار کو خرید کر رہائی پاتے رہے؟اس لئے بھی شبہے کو تقویت ملے گی کہ رہائی کے بعد سے میاں نواز شریف اور ان کی آتش زیر پا صاحبزادی نے پراسرار خاموشی سی اختیار کر رکھی ہے۔ اب وہ آگ نہیں اگل رہے۔ ملک میں ضمنی الیکشن کا معرکہ برپا ہے مگر وہ منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔کوئی اعلان نہ بیانیہ‘ کوئی خطاب نہ جلسہ۔ بہانہ یہ ہے کہ وہ محترمہ کلثوم نواز کا سوگ منا رہے ہیں۔ اس سے پہلے توکبھی اس طرح سوگ نہ منایا۔ ہوتا بھی تین دن کا ہے۔ جدائی کا غم بجا کہ فطری ہے مگر مرنے والوں کے ساتھ کوئی مر نہیں جاتا۔ کاروبارِ حیات جاری رہتا ہے۔ کسی حال میں بھی زندگی کے فرائض ترک نہیں کئے جاتے۔
غمِ ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
ظاہر ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کو زیر کرنے کے لئے نواز شریف کا نسخہ ناکام ہونے کے بعد‘کیا شہباز شریف کو انہوں نے اجازت دی کہ وہ اپنا طریقہ آزمائیں؟اپنے انداز سے راستہ کشادہ کرنے کی کوشش کریں۔اگر یہی کرنا تھا۔ سپر ہی ڈالنی تھی تو تماشا رچانے کی ضرورت کیا تھی۔ 
نومبر2016ء میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے عنان سنبھالی۔ اسی ہنگام چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی۔ محترمہ مریم نواز نے پیغام دیا کہ کالے بادل چھٹ گئے۔ راوی اب چین ہی چین لکھتا ہے۔ مغل سلطنت کی طرح‘ صدیوں نہیں تو عشروں تک ضرور شریف خاندان کا علم لہراتا رہے گا۔عسکری اور سول قیادت کے مراسم مثالی تھے۔ایسا نظر آتا تھا کہ افواجِ پاکستان وزیراعظم کے ایجنڈے سے پوری طرح متفق ہیں۔ نہ صرف داخلی محاذ بلکہ خارجہ پالیسی کے میدان میں بھی ان سے تعاون کر رہی ہیں۔ وزیراعظم کے طے کردہ اسلوب میں افغانستان اور بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی سعی۔
پھر کیا ہوا؟ پراپرٹی ڈیلر نے عدالت کیخلاف اعلان جنگ کیا تو ملک کے سب سے بڑے پبلشر سے پوچھا: اس آدمی کو کیا ہوا؟ ان کا جواب تھا: طاقت حد سے بڑھتی ہے تو دیوانگی طاری ہو جاتی ہے۔ اس میں خدائی کے تیور پیدا ہونے لگتے ہیں۔ خودپہ آدمی کو قابو نہیں رہتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ گلشن کا سب کاروبار اسکی مرضی کے مرہون منت ہو۔ وہی بات جو اس نادر روزگار شاعر نے کہی تھی۔
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
خود یاس یگانہ چنگیزی کی داستاں کا ایک رخ بھی یہی ہے۔ فراقؔ گورکھ پوری جس طرح اقبالؔ کو دشنام دیا کرتے‘ غالبؔ کو یگانہؔ اپنا حریف سمجھتے تھے۔حریف کیا برگد کا ایک لامتناہی درخت جس سے وہ اندیشہ پالتے۔ آخر کو تھک گئے اور یہ کہا:
صلح کر لو یگانہؔ غالبؔ سے
وہ بھی استاد تم بھی اک استاد
زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی‘ آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔طاقت کے نشے میں اندھے ہو جانے والے نیم خواندہ سیاستدانوں کو مگر یہ بات کون سمجھائے۔بار بار جھک مارنے اور خاک چاٹنے والوں کو کون سمجھائے کہ خدا کی کائنات میں ہرچیز کا ایک قرینہ ہے۔ اور قدرت کے قوانین سے انحراف ہمیشہ تباہ کن۔ سیاسی جماعت کو سیاسی جماعت ہونا چاہئے۔ کسی چرواہے کا ریوڑ نہیں۔زندگی کے حقائق پہ غور تو وہ کریں‘ اپنے آپ سے جنہیں فرصت نصیب ہو۔ جن کے تخیل کی پرواز غسل خانوں میں سونے کی ٹونٹیاں نصب کرنے تک محدود ہو؟
زیاں بہت ہے۔خدا کی اس کائنات میں زیاں بہت ہے۔بیشتر زندگیاں اپنے آپ میں بسر ہو جاتی ہیں۔ خود ہی سے نجات نہیں پا سکتیں۔اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ان گنوار چرواہوں کو لوگ لیڈر سمجھتے ہیں۔ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ان سے امیدیں باندھتے ہیں۔ ان کی وکالت کرتے ہیں۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved