وہ لوگ جو اب چالیس کے پیٹے میں ہیں انہیں ایلومینیم کی بنی پستول یاد ہو گی جس کی نال کے آگے لکڑی کا بارود بھرا پٹاخہ رکھ کر چلایا جاتا تھا۔ ذرا کم عمروں کو پلاسٹک کے دستے اور لوہے کی چھوٹی سی نال والی پستول بھی یاد ہو گی جس کے درمیان میں کاغذ پر لگے بارود کا پٹاخہ رکھ کر بچے چلاتے پھرتے تھے۔ لکڑی کا لٹو اور ڈوری بھی یادداشت کے خانے میں کہیں پڑے ہوں گے۔ پلاسٹک کی عینکیں، سرکنڈے سے بنے سانپ، مٹی کے پہیوں والی گاڑی جس کے ساتھ دھاگہ باندھ کر بچے کھینچتے تو اس میں سے ٹک ٹک کی آواز آتی رہتی تھی۔ وہ چھوٹا سا پانی کا جہاز جس کے نیچے سرسوں کا تیل ڈال کر آگ لگاتے اور کڑاہی میں پانی ڈال کر اس میں تیرنے کے لیے چھوڑ دیتے۔ خواتین کو وہ گڑیا بھی یاد ہو گی جس کی گردن، بازو اور ٹانگیں الگ الگ ہو جایا کرتی تھیں۔ یہ سب یاد دلانے کا مقصد بچپن کو آواز دینا نہیں، بلکہ صرف اتنا بتانا ہے کہ وہ کھلونے جن سے ایک نسل کھیل کر جوان ہوئی سب پاکستان میں ہی بنا کرتے تھے۔ وہ سائیکل جو ہم سب نے بڑے شوق سے چلائی لاہور میں ہی بنا کرتی تھی، بلکہ یہاں کی سماجی زندگی میں پیکو سائیکل فیکٹری اور سہراب سائیکل فیکٹری میں کام کرنے والے کاریگر کئی پنجابی لطیفوں کے کرداروں کے طور پر سامنے آتے تھے۔ چلیے یہ کچھ پرانی باتیں ہیں، لیکن یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ پاکستان کے ہر شہر میں جوتا سازی کی صنعت عام مشاہدے کا حصہ تھی۔ چھری کانٹے، دھات کے برتن، پھر شیشے کے بنے برتن، سیرامکس کا سامان اور نجانے کیا کیا تھا جس کے کارخانے ملک کے شہرشہر میں قائم تھے۔ کچھ کارخانے ایسے تھے جہاں دو چار لوگ ہی کام کرتے تھے اور ایسے بھی تھے جہاں سینکڑوں لوگ مزدوری کر کے عزت سے اپنا گھر چلا لیتے تھے۔ انیس سو پچانوے کے بعد یہ ساری صنعتیں سسکنا شروع ہوئیں۔ مالی طور پر کمزور مالکان سب سے پہلے اپنی فیکٹریوں کو تالے ڈال کر گھر بیٹھے گئے۔ کچھ مستحکم لوگ حالات سے لڑتے رہے لیکن دو ہزار ایک کے بعد یہ بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مزدوری ڈھونڈنے لگے۔ وہ جو رہی سہی کسر تھی دو ہزار چھ میں پوری ہو گئی کیونکہ پاکستان کی صنعتوں کو ہمارا گہرا دوست چین لے کر بیٹھ گیا۔ چین کو بھی کیا الزام دینا، اصل بات یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے چین کے ساتھ آزادانہ تجارت کا ایسا معاہدہ کر لیا جس کے مطابق ہمارا دوست جو چاہتا یہاں بھیج دیتا اور ہم لوہے کو سونا بھی بنا لیتے تو چین کو اجازت تھی کہ اس پر ڈیوٹیاں لگا کر اسے اپنے ہاں آنے سے روک دے۔ جب اس معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے تو پاکستان کی طرف سے چین کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی مصنوعات بھیجی جاتی تھیں اور چین سے پاکستان کو ساڑھے چار ارب ڈالر کی۔ اس معاہدے کے دس برس بعد صورتحال یہ تھی کہ پاکستان تو چین کو بدستور ڈیڑھ ارب ڈالر کی برآمدات کر رہا تھا لیکن چین پاکستان کو پندرہ ارب ڈالر کا سامان بھیج رہا تھا۔ اس معاہدے کے بعد صنعت کے نام پر جو کچھ بچا تھا وہ پاکستان میں بجلی کی کمی اور اس کی قیمتوں میں اضافے کی نذر ہو گیا۔ یہ معاہدہ اگرچہ اپنی عمر پوری کر چکا ہے اور تجدید کا منتظر ہے لیکن اس کے نتائج جو ہمیں بھگتنا پڑے وہ یہ ہیں کہ پاکستان کے ہر شہر میں درجنوں کارخانے ہیں جو گزشتہ دس برسوں میں بند ہوئے اور ہزاروں لوگ ہیں جو بے روزگار ہوئے۔ ان کارخانوں کی زمینیں اب رہائشی کالونیوں کی صورت میں بک رہی ہے اور کل تک جو ان میں کام کرتے تھے‘ اس معاہدے سے پیدا ہونے والی بھوک بھگت رہے ہیں۔
چین کی صنعتی ترقی اور اپنی حکومتوں کی بے وقوفیوں کو صرف ہم ہی نہیں بھگت رہے۔ ملائیشیا میں مہاتیر محمد نے اقتدار سنبھالنے کے بعد تجارت کے نام پر اس معاشی قتل عام کے خلاف کھل کر بات کی ہے۔ انڈونیشیا نے چین کے ساتھ فاصلے بڑھانا شروع کر دیے ہیں۔ تھائی لینڈ جیسے ملک نے چین کے ساتھ معاہدے آگے بڑھانے سے انکار کر دیا ہے کہ ان معاہدوں پر عملدرآمد سے وہ معاشی بحران میں مبتلا ہو جائے گا۔ اور تو اور افریقہ کے ممالک بھی چین کے ساتھ تجارت پر کھل کر کچھ نہیں کہہ سکتے تو ان کے سفارت کار دوست ملکوں کے سامنے ضرور گلے شکوے کرتے ہیں۔ سری لنکا کے تجربے نے تو کئی ملکوں کی آنکھیں کھول دیں۔ وہاں معاملہ یہ ہوا کہ پہلے چین نے کھل کر سری لنکا کو قرض دیا، جب سری لنکا کے لیے قرض ادا کرنا مشکل ہو گیا تو پچھلے سال ہیمبن ٹوٹا کی بندرگاہ اور اس کے ساتھ پندرہ سو ایکٹر زمین ننانوے سال کے لیے اپنے نام کرا لی۔ جن دنوں سری لنکا میں یہ سب ہو رہا تھا انہی دنوں پاکستان کو بھی دوستانہ پیشکش کی گئی کہ دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے چودہ ارب ڈالر لے لیں۔ نجانے وہ کون سی مبارک ساعت تھی اور نجانے کون ایسا نیک بخت تھا جس نے یہ فیصلہ کروا لیا کہ یہ قرض نہیں لیا جائے گا۔ اس انکار کا کریڈٹ پاکستان مسلم لیگ ن کو تو ہرگز نہیں دیا جا سکتا کہ یہ تو خود سپردگی کے عالم میں سب کچھ کرنے کے لیے تیار تھی۔
میں نے بطور صحافی اکنامک کاریڈور کی اصطلاح پہلی بار شوکت عزیز سے سنی تھی‘ جب وہ جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں وزیرِ خزانہ تھے۔ ایک بار کراچی آئے تو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ''چین اور پاکستان کے درمیان سڑک اور ریل کے رابطے مضبوط کرنے کے لیے کام ہو رہا ہے اور پاکستان‘ دنیا اور چین کے درمیان ایک راہداری بن جائے گا‘‘۔ پاکستان اس معاملے میں خود تو کچھ کر نہیں پا رہا تھا البتہ چین میں اس تصور پر کبھی آہستہ کبھی تیز کام ہوتا رہا۔ دو ہزار تیرہ میں جب شی پنگ چین کے صدر بنے تو انہوں نے اس منصوبے پر کام تیزی کیا اور اسے ''ون بیلٹ، ون روڈ‘‘ کا نام بھی مل گیا۔ دو ہزار تیرہ میں ہی پاکستا ن میں مسلم لیگ ن کی حکومت آئی اور اس منصوبے کو سی پیک کا نام دے کر‘ اپنا منصوبہ قرار دے کر آگے بڑھنا شروع کیا۔ گمان ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کچھ ٹھیک ہوتے تو شاید چین کے ساتھ سی پیک کے معاملے پر ہمارے مذاکرات کسی اور انداز میں ہوتے۔ مالی مجبوریوں کی وجہ سے ہم چینی دوستوں کی معمولی سی ناراضی بھی مول لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ہم نے خوشامدانہ انداز میں جو کچھ منوایا جا سکتا تھا، منوا لیا اور اپنا آپ چین کے حوالے کر دیا۔ آج سے ایک سال پہلے پاکستان میں یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ یہ خود سپردگی کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ سی پیک جو دو ریاستوں کے درمیان کا منصوبہ تھا چین کی کمپنیوں اور پاکستانی ریاست کے مابین بجلی اور سڑکوں کے منصوبوں کا معاملہ ہو گیا۔ ہم نے بجلی کے کارخانے لگوائے مگر اس میں ایک آنے کی رعایت ہمیں نہیں ملی۔ پچھلے سال ریلوے لائن کی تعمیر نو کی بات ہوئی تو پاکستان نے چاہا کہ اس معاملے میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے پوچھ لیا جائے کہ وہ یہ کام کیسے کریں گے۔ اس پر چینی دوست برا مان گئے اور ہم نے ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے رابطہ ختم کر دیا۔ اس تسلیم و رضا کا نتیجہ ہے کہ سی پیک‘ جو اصل میں چین کی بڑی ضرورت ہے، ہمارے اوپر ایک احسان کی طرح لاد دیا گیا۔ اس کا اب تک واحد فائدہ یہ ہے کہ ہمیں بجلی ملنے لگی ہے مگر اتنی مہنگی ہے کہ اتنے نرخوں پر ہماری صنعتیں انڈیا اور بنگلہ دیش سے بھی مقابلہ نہیں کر پا رہیں۔
چین اور پاکستان اپنے اپنے دعووں کے مطابق ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور فولادی دوستی وغیرہ کے رشتے میں بندھے ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ جب یہ دوستی کاروبار میں ڈھلتی ہے تو اس کا ہر فائدہ چین کو ہوتا ہے۔ آزادانہ تجارت کا معاہدہ ہوا تو چین کو تین گنا فائدہ ہوا اور ہماری صنعتیں بند ہو گئیں۔ کھلونے، سائیکلیں اور جوتے تک ہم اب نہیں بنا پا رہے۔ سی پیک کا معاملہ شروع ہوا تو عین مین انہی شرائط پر جو ہر ساہوکار کو منظور ہوتی ہیں، یعنی یقینی منافع، منافع ڈالروں میں باہر لے جانے کی اجازت اور معاہدے کی ذرا سی خلاف ورزی کی صورت میں ریاست کی دی ہوئی ضمانت بھنوا لی جائے۔ ان شرائط پر کاروبار کو بھی کوئی دوستی کہنے پر کوئی اگر مصر ہو تو پھر وہ اس وقت کا انتظار کرے جب پاکستان کے ہر کارخانے کے دروازے پر ایک تالا پڑجائے اور اس پر Made in China لکھا ہو۔