اکتوبر 2007ء میں‘ میں نے ایک انگریزی اخبار میں خبر دی کہ جنرل مشرف اور شوکت عزیز کے پانچ سالوں میں ساٹھ ارب روپے کے قرضے بشمول اصل زر معاف کر دیے گئے تھے۔ یہ رپورٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تھی جو میرے ہاتھ لگ گئی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سووموٹو ایکشن لے لیا۔ درمیان میں عدالت برطرف ہو گئی۔ ڈوگر صاحب نے اس کیس کو دبا دیا کیونکہ اس میں بڑے بڑے لوگوں کے نام تھے۔ جج واپس لوٹے تو پتہ چلا کہ 1971ء سے اب تک کل ڈھائی سو ارب روپے کا قرضہ معاف ہو چکا ہے۔ ریکارڈ میں ہزاروں نام پڑے ہیں جنہوں نے قرضے معاف کرائے۔ سپریم کورٹ نے ایک عدالتی کمشن بھی بنایا جس نے پتہ لگایا کہ 1971ء سے لے کر 1999ء تک کل دو ارب تیس کروڑ روپے معاف ہوئے جبکہ 1992ء سے 2009ء تک چوراسی ارب روپے معاف کیے گئے۔ لوٹ مار اس وقت شروع ہوئی جب سیاستدانوں نے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی۔ انہوں نے پہلے بھاری قرضے لیے اور پھر انہیں معاف کرا لیا۔ ابھی ستمبر 2012ء میں ایک رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ پی پی پی کے دور حکومت میں ایک سو پچیس ارب روپے معاف کیے گئے اور قرضے معاف کرانے والوں میں بیگم یوسف رضا گیلانی اور سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا بھی شامل تھیں۔ فہمیدہ مرزا نے مرزا شوگر ملز کے ذمے واجب الادا کروڑوں روپے معاف کرائے۔ بڑے گھرانوں کی امیر پاکستانی خواتین‘ جو صنعتی یونٹس کی مالکان ہیں، نے بھی چوبیس ارب روپے بنکوں سے ان چار سالوں میں معاف کرائے اور یوں مردوں کے شانہ بشانہ چل پڑیں۔ اس دوران یہ بھی پتہ چلا کہ چھپن ہزار کے قریب صنعتی یونٹس کے مالکان نے دو سو پندرہ ارب روپے واپس نہیں کیے۔ شوکت عزیز اور جنرل مشرف کے دور میں سٹیٹ بنک نے ایک سرکلر 29 جاری کیا تھا جس کے بعد لوٹ سیل لگ گئی اور سب نے کھل کر لوٹا۔ ایک سِک یونٹس کمیٹی بنی جس کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ صنعتی یونٹس کے قرض معافی کیسوں کا جائزہ لے۔ اس کمیٹی کے ارکان نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اور کھل کر پارٹیوں کے قرضے معاف ہوئے۔ سب کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے پر چل پڑے۔ مارک اپ کے علاوہ اربوں کے اصل زر بھی معاف ہوئے۔ میں نے2003ء میں ایک خبر بریک کی تھی کہ اٹھارہ ارب روپے کے قرضے معاف کرانے والوں میں گجرات کے چودھری بھی شامل ہیں۔ چودھری شجاعت نے مجھے بلا کر خود بتایا (حوالہ میری کتاب ’ایک سیاست کئی کہانیاں‘) کہ جنرل مشرف کے آنے کے بعد انہیں ایک مالی ادارے کے سربراہ نے اپنے گھر بلا کر کہا کہ یا تو کاروبار کر لو یا سیاست۔ چودھری صاحب نے اس ادارے کا قرضہ دینا تھا۔ چودھری صاحب سمجھدار نکلے اور سوچا کہ اگر ایک افسر کے ہاتھوں ہی خراب ہونا ہے تو بہتر ہے جنرل مشرف سے ہاتھ ملا لیا جائے۔ اس کے بعد انہوں نے تین بنکوں سے بارہ کروڑ روپے معاف کرائے اور قرض معاف کرانے کے بعد وہ شوگر مل ہی بیچ دی جس کے نام پر قرضہ حاصل کیا گیا تھا۔ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ 20دسمبر 2009ء کو میں نے ایک اور خبر بریک کی کہ نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور دیگر فیملی ممبران نے 1998ء سے اب تک نو بنکوں کا تین ارب روپے کا قرضہ واپس نہیں کیا جو اتفاق فائونڈری کے نام پر تھا۔ شریف فیملی نے ڈیڑھ ارب روپے نیشنل بنک، حبیب بنک 71کروڑ، یو بی ایل 34 کروڑ، ایم سی بی 23 کروڑ، فرسٹ پنجاب مضاربہ 11کروڑ روپے، بنک آف پنجاب 6 کروڑ، زرعی ترقیاتی بنک5 کروڑ 80 لاکھ، پی آئی سی آئی سی ایک کروڑ 70 لاکھ روپے اور آئی سی پی کے 80 لاکھ روپے ادا کرنے تھے۔ نواز شریف نے وزیر اعظم بننے کے بعد قوم سے جذباتی تقریر کرتے ہوئے ’قرض اتارو ملک سنوارو‘ کے نام پر اتفاق فائونڈری کا سکریپ نو بنکوں کے حوالے کر دیا کہ وہ سب مل کر اسے بیچ کر اپنے پیسے پورے کر لیں۔ جونہی نو بنک اس سکریپ جائیداد کا قبضہ لینے پہنچے تو شریف فیملی کے ایک رشتہ دار‘ جو اتفاق کے بورڈ کے ممبر تھے‘ نے لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ کر دیا کہ یہ متنازعہ جائیداد ہے اور اسے بنکوں کو نہیں بیچا جا سکتا۔ یوں پندرہ سال سے یہ کیس عدالت میں زیر التوا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں‘ جنرل مشرف نے اس کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کرایا۔ لوگ بھول جاتے ہیں‘ ڈیل کے تحت انہوں نے نواز شریف کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھانا تھا۔ چلیں مشرف نے قدم نہیں اٹھایا تو سوال یہ ہے کہ پھر پانچ سالوں میں اس کا فیصلہ کیوں نہیں ہو سکا؟ کہتے ہیں سٹیٹ بنک نے کلین چٹ دے دی ہے۔ پتہ چلا ہے کہ سیاستدانوں نے نیا کھیل کھیلا ہے۔ اب سٹیٹ بنک پانچ سالوں سے پرانے قرضوں کا حساب کتاب نہیں رکھتا لہٰذا جو قرضے پہلے معاف ہوئے ہیں یا زیر التوا ہیں انہیں قرضہ معافی میں شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ اس خبر کے چھپنے کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے گوادر بندرگاہ میں این ایف سی تقریب میں اسلام آباد سے گئے ہوئے صحافیوں میں سے مجھے اپنے پاس بُلا کر اپنی پوزیشن واضح کی تھی۔ یہ کہا تھا کہ ان کے رشتہ داروں نے کیس کیا ہوا تھا کہ یہ جائیداد بنک کو نہیں دی جا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ جائیداد واپس مل جائے تو وہ دس ارب روپے کی ہے۔ (اگر شریف خاندان مزید دس سال قرضہ بنک کو واپس نہ کرے تو شاید بیس ارب روپے کی ہو جائے)۔ لہٰذا شہباز شریف صاحب کے بقول یہ کہنا درست نہیں کہ انہوں نے قرضہ معاف کرایا تھا یا ادا نہیں کیا۔ جیسے انصاف تاخیر سے ملنے کا مطلب بھی انصاف سے انکار سمجھا جاتا ہے، ویسے ہی پندرہ سال سے نو بنکوں کو ان کا تین ارب روپیہ نہ ملنا بھی قرضہ معافی کے مترادف ہی ہے۔ دوسرے نواز شریف نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے کیوں ایک متنازعہ جائیداد بنکوں کے حوالے کی تھی جسے وہ نو بنک مل کر‘ کروڑں روپے وکیلوں کی فیسوں کے طور پر ادا کر کے اور عدالتوں میں دھکے کھانے کے باوجود واپس نہیں لے سکے۔لوگ کہتے ہیں بنکوں نے متنازعہ جائیداد کیوں لی تھی اور اس پر قرضہ کیوں دیا تھا۔ نواز شریف وزیر اعظم تھے اور کس میں جرأت تھی کہ وہ یہ متنازعہ جائیداد لینے سے انکار کرتا۔ بنک کا سربراہ کیسے اپنے وزیر اعظم کو ’ناں‘ کرتا جس نے ڈیڑھ ارب روپے ادا کرنے تھے؟ یہ درست ہے کہ شریف فیملی نے قرضہ معاف نہیں کرایا لیکن یہ بھی درست ہے کہ تین ارب روپے کا قرضہ اور اس پر پانچ ارب روپے کے قریب سود بھی واپس نہیں کیا اور بنک پندرہ سال سے یہ کیس عدالت میں لڑ رہے ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے ان کوششوں پر جو ریٹرننگ افسر اچھے مسلمان ہمارے اوپر حکمرانی کے لیے ڈھونڈ نے کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ انہوں نے اب تک ایک امیداوار سے بھی نہیں پوچھا کہ آیا آپ نے بنکوں سے کوئی قرضہ معاف تو نہیں کرایا کیونکہ آرٹیکل 62-63 کے تحت قرضے معاف کرانے والے یا نادہندہ بھی نااہل ہوتے ہیں۔ اگر اچھے مسلمان حکمران ڈھونڈنے ہیں اور قرضے معافی کے ثبوت درکار ہیں تو سپریم کورٹ کے پاس ہزاروں دستاویزات بنکوں نے جمع کرا رکھی ہیں کہ کس نے کیا معاف کرایا۔ الیکشن کمشن ایک فون کال پر یہ دستاویزات حاصل کر سکتا ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved