تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-10-2018

نئے دوستوں کی تلاش

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے کہ جس کی نوعیت کا تعین بہت مشکل ہے۔ پاک امریکا تعلقات میں در آنے والی کشیدگی کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو میں فواد چودھری نے کہا کہ امریکا خطے میں نئے دوست تلاش کر رہا ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ شکوہ ہے ''انکشاف‘‘ ہے یا پھر اعترافِ شکست! 
دوسرے بہت سے خطوں کی طرح امریکا ہمارے خطے میں بھی جو کچھ کرتا آیا ہے اور کر رہا ہے‘ وہ نیا ہے ‘نہ حیرت انگیز۔ امریکی قیادت کا کئی عشروں سے یہی وتیرہ رہا ہے کہ جسے استعمال کرنا ہو ‘اُسے بانس پر چڑھادیا جائے اور جب کام نکل جائے تو ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا جائے اور امریکا ہی پر کیا موقوف ہے‘ روئے زمین پر مختلف ادوار میں ابھرنے والی عظیم طاقتیں اسی طور اپنی ''عظمت‘‘ کا نقش قائم کرتی آئی ہیں۔ 
خطوں کی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور عالمی سیاست کی بدلتی ہوئی زمینی حقیقتوں کے تناظر میں ہر ملک اپنی ضرورت‘ صلاحیت اور سکت کے مطابق پالیسیاں بناتا ہے۔ امریکا چونکہ واحد سپر پاور ہے اور بہت سے معاملات میں غیر معمولی فوائد بٹورنے کی پوزیشن میں ہے ‘اس لیے فوائد بٹور بھی رہا ہے۔ فواد چودھری نے یہ تو کہہ دیا کہ امریکا خطے میں نئے دوست تلاش کر رہا ہے‘ مگر ساتھ ہی انہیں یہ بھی کہنا چاہیے کہ جن پرانے دوستوں کو وہ ٹھڈے مار کر ایک طرف ہٹاکر ہٹا رہا ہے‘ اُنہیں بھی تھوڑی بہت غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے افکار و اعمال کی اصلاح پر متوجہ ہونا چاہیے۔ 
امریکا جو کچھ چاہتا ہے‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہر سپر پاور کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اُس کے افکار و اعمال میں کہیں تذبذب دکھائی نہیں دیتا۔ کسی کو نوازنا ہو تو کھل کر نوازتی ہے اور کسی کے خلاف جانا ہو تو کھل کر جاتی ہے۔ تذبذب کمزور اور حاشیہ بردار قسم کی ریاستوں کا بنیادی وتیرہ ہوا کرتا ہے۔ ہم اگر اس منزل میں اٹکے ہوئے ہیں‘ تو حیرت کیسی؟ امریکا کو خطے میں نئے دوستوں کی تلاش تھی نہ ہے۔ وہ اس پوزیشن میں ہے کہ نئے دوست خود بخود اس کی طرف کِھنچتے چلے آئیں۔ بھارت ہو یا کوئی اور ملک‘ جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی سیاسی حرکیات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ امریکا کو نئے دوست ملتے رہتے ہیں اور پُرانے دوستوں کو وہ خود ردی کی ٹوکری میں ڈالتا رہتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی چند پرانی اور گھسی پٹی عادات میں امریکا سے کیا جانے والا یہ شِکوہ بھی شامل ہے کہ وہ کام نکل جانے کے بعد دوستوں کو بھول جاتا ہے۔ یہ بات سراسر بے عقلی پر مبنی ہے۔ امریکا نے کبھی کسی دوست کو دھوکا نہیں دیا۔ ہمیں اگر بار بار دھوکا دیا گیا ہے‘ تو حیرت کیسی؟ ہم کب اُس کے دوست ہیں؟ امریکا اور یورپ کے معاملے میں ہم غلام ابن غلام رہے ہیں۔ جہاں معاملہ غلامانہ ذہنیت کارفرما ہو‘ وہاں دوستی اور اتحاد کی باتیں کیوں کی جائیں؟ امریکا نے ہمیں کب دوست سمجھا ہے؟ اور اُسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہمیں دوست کا درجہ دے؟ ہم کل بھی اُس کے لیے ضرورت پڑنے پر کام آنے والی چیز تھے اور آج بھی یہی معاملہ ہے۔ جب بھی حقیقی ضرورت سامنے آ کھڑی ہوتی ہے‘ امریکا ہمیں محض ''پارٹنر‘‘ کی حیثیت سے اپنے ساتھ رکھتا ہے‘ استعمال کرتا ہے اور کام نکل جانے کے بعد وہ ہم سے وہی سلوک کرتا ہے ‘جو کسی بھی استعمال شدہ چیز سے روا رکھا جاتا ہے‘ یعنی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ 
ہم امریکا کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ امریکا کو برا بھلا کہنا بالکل منطقی ہے۔ ٹھیک ہے‘ مگر یہ بھی سوچا جائے کہ امریکا جو کچھ ہم سے کرتا آتا ہے‘ وہ کب غیر منطقی ہے۔ امریکا زمینی حقیقتوں کے تناظر میں پالیسیاں بناتا ہے‘ اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتا ہے‘ کسی نہ کسی طور اپنے مفادات کی تکمیل یقینی بناتا ہے اور اس عمل کے دوران اگر کسی کا بڑا غرق ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ بین الریاستی تعلقات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ سب کو اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں؛ اگر ہمیں اپنے مفادات عزیز نہیں تو انتہائی شرمناک بات ہے۔ کوئی ہمارے لیے کیوں سوچے گا؟ 
بھرپور طاقت سے ہم کنار ہونے کے بعد امریکا اور یورپ نے وہی کیا جو منطقی طور پر انہیں کرنا چاہیے تھا۔ عملی زندگی میں خواہش اور توقعات کی اہمیت نہیں ہوتی۔ کسی بھی عمل کے لیے زمینی حقیقتوں کو ذہن نشین رکھا جاتا ہے۔ ہر ریاست اپنے مفادات کو تعین کرتے وقت زمینی حقیقتوں کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیت اور سکت دونوں کو بھی ذہن نشین رکھتی ہے اور یوں ایسی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں جو ہر موقع سے فائدہ اٹھانے میں معاون ثابت ہوں۔ بین الریاستی تعلقات میں سب سے بڑھ کر مفادات کی اہمیت ہوتی ہے۔ ہم اگر امریکا اور یورپ کو اپنے دوستوں میں شمار کرتے آئے ہیں‘ تو یہ ہماری سادگی یا حماقت کی انتہا ہے۔ امریکا اور یورپ نے ہمیں کبھی دوستوں کی درجہ بندی نہیں رکھا۔ رکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ انگریزی میں کہاوت ہے کہ بیگرز کانٹ بھی چُوزرز‘ یعنی بھکاریوں کو انتخاب کا حق نہیں ہوتا! ہم اس پوزیشن میں تھے ہی کب کہ امریکا ہمیں اپنا دوست سمجھے؟ اُس کے مقابلے میں ہم انتہائی کمزور ہیں۔ 
پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو امریکا اور یورپ دونوں نے ہمیشہ ترجیح دی ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب تو یہ ہے کہ بھارت ایک بڑی منڈی ہے۔ امریکا اور یورپ کی اشیاء و خدمات کی کھپت جتنی بھارت میں ممکن ہے‘ اُس کا عشر عشیر بھی پاکستان میں ممکن نہیں۔ ایسے میں ہمیں بھارت یا ایسے ہی کسی بڑے ملک پر کیوں ترجیح دی جائے گی؟ محل وقوع کی بنیاد پر پاکستان اہم ہے‘ مگر محض اس بنیاد پر ہمیں وہ سب کچھ نہیں مل سکتا‘ جو درکار ہے۔ بھارت نے اگر امریکا اور یورپ سے کچھ لیا ہے‘ تو اُنہیں کچھ دیا بھی ہے‘ ان کی ضرورت بھرپور انداز سے پوری کی ہے۔ ان دونوں خطوں میں بھارت کے لاکھوں نالج ورکرز غیر معمولی سطح پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بھارت اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ افرادی قوت درآمد کرنے والا بڑا ملک ہے۔ اس معاملے میں وہ چین کی ہمسری کرنے کی پوزیشن میں ہے اور پھر بھارت کے بزنس مین بھی مغربی دنیا میں خوب قدم جما رہے ہیں۔ ایسے میں ہمیں یہ خواب بھی کیوں دیکھنا چاہیے کہ امریکا اور یورپ ہمیں دوستوں کے درجے میں رکھ سکتے ہیں! کام نکل جانے کے بعد امریکا جو سلوک ہم سے روا رکھتا آیا ہے‘ اُس کے لیے اقبالؔ نے کہا تھا: ع 
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات 
ہم بار بار امریکا سے شِکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے معاملے میں طوطا چشمی کا مظاہرہ نہ کرے اور ہمیں وہ سب کچھ دے جس کے ہم مستحق ہیں۔ جواباً امریکی قیادت کہتی ہے ؎ 
کیسے بازار کا دستور تمہیں سمجھائیں 
بِک گیا جو وہ خریدار نہیں ہو سکتا! 
ریاست کی حیثیت سے ہمیں کب کیا کرنا ہے یہ بات ہمارے حکمران طبقے کی سمجھ میں اب تک نہیں آئی یا پھر یہ کہ معمولی ذاتی مفادات پر وسیع تر اجتماعی و قومی مفادات کو داؤ پر لگایا جاتا رہا ہے۔ صورتِ حال کے مطابق جو کرنا ہو ‘ہم اُس کے برعکس کر گزرتے ہیں۔ اقبالؔ ہی نے کہا تھا: ع 
یہ ناداں گرگئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا! 
سجدے کے وقت سجدہ اور قیام کے وقت قیام‘ یعنی قول و فعل میں تضاد ہو تو کسی اور سے احترام کی امید کیا رکھیں‘ ہم اپنی نظر میں بھی معتبر نہیں ٹھہر سکتے!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved