تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     04-10-2018

ہندو پانی‘ مسلم پانی …(پہلی قسط)

برصغیر میںہندو اور مسلم صدیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے باوجود‘ کبھی ایک برتن میں کھانا نہیں کھا سکے۔ لباس مختلف پہنتے۔ کھانا علیحدہ کھاتے۔پاکستان میںجو مودی نواز حکمران ‘ بھارت اور پاکستان کو ایک دوسرے کے لئے ناگزیر قرا ر دیتے چلے آ رہے تھے‘ وہ بھی ہندو متعصبانہ رویے کا شکار دکھائی دئیے اورعلیحدہ برتنوں میں کھاتے پیتے رہے۔جن مسلمانوں کو ہندو معاشرے میں رہنے کا تجربہ ہے‘ وہ ہندو کی منافرت کے اسباب کو اچھی طرح سمجھتے ہوں گے۔جب انسان اپنے منصوبوں میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پاتا‘ لیکن وہ نیت اورارادے مثبت اور مخلوق خدا کی طرف‘ زیادہ بہتری کے ارادے باندھتا ہے‘ تو ایک نامعلوم سی چیز‘ اس کی زندگی پر اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ہم اسے خوش نصیبی کہہ لیں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر و برکت کا نزول۔میں اللہ تعالیٰ سے ایسی ہی نعمتوں کے نزول کی توقعات رکھتا ہوں۔ اس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی۔یہی کوئی نو دس برس۔بہت ہی غریب گھرانہ۔ ابا جی انتہائی درویش منش انسان تھے۔ ہر لمحہ اللہ تعالیٰ سے سکون قلب کی امیدیں لگائے رکھتے۔ان میں کسی ذاتی خواہش کا شائبہ تک نہ ہوتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تحریک پاکستان کا نعرہ ابھرنے لگا تو مسلم قوم کا نظریہ زور پکڑنے لگا۔ہندوئوں کے نعرے منفی خواہشات اور توقعات پر مبنی تھے‘ جبکہ مسلمان‘ اللہ تعالیٰ سے اپنے عقیدے کے تحت‘ ساری خلق خدا کے لئے سلامتی اور خیر خواہی کی دعائیں کیا کرتے۔ اس کے برعکس متعصب ہندو‘عجیب و غریب قوم تھی جو خلق خدا کے لئے کسی بھی طور سے خیر کے ارادے ظاہر نہ کرتے۔مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیسی قوم ہے؟ جو خلق خدا کے لئے خیر و برکت کی دعا نہیں مانگتی ۔ ان کی ''غیبی مخلوقات‘‘ ہر طرح سے بدی اور برائی کی دعائیں کرتی اور ہر وہ دوسرا انسان‘ جو کسی نیکی اورپاک بازی کی طرف راغب نظر آتا‘ اس کے خلاف ایک سے ایک بڑھ کے جادو ٹونے کئے جاتے۔
کیا یہ تعجب کا مقام نہیں؟ کہ جغرافیائی شناختوں ‘ عقیدوں اور نسلوں کی بنیاد وں پرہر دوسرا گروہ‘ ہندوئوں کی سیاہ کاریوں کا ہدف بنتا۔ کبھی آپ غور سے جائزہ لے کر دیکھئے‘دنیا میں کہیں بھی ہندو‘ دوسری قوموں کے ساتھ یک جہتی کا سلوک کرتے نظر نہیں آتے تھے۔آپ کسی بھی موسم‘ ارضی تغیرات‘ رنگ‘ نسل اور کلچر‘ غرض یہ کہ بھانت بھانت کے انسانی گروہوں کو ہندو کے ساتھ ملتے جلتے نہیں دیکھتے ۔ ہندو اتنا متعصب ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کی تہذیب‘ کلچر اور عقیدوں کوقبول نہیں کرتا۔ اس کی تہذیب‘ کلچر‘لباس اور کھانوں‘ غرض یہ کسی بھی معاشرے‘ مذہب‘ جغرافیے کے طور اطوار کے حوالے سے جانچ کر دیکھ لیں‘ ہندو آپ کو کبھی اپنے ریت رواج اور عقائد کی بنا پر‘ اپنے جیسا ماننے کو تیار نہ ہوتا۔ میں نے بچپن میں ہی ہندو کے رہن سہن‘ طور طریقوں اور میل جول کوقریب سے دیکھا ہے۔ میں نے اپنی معصومیت کا زمانہ ہندو معاشرے میں دیکھا ہے۔ ہم ہندو دکاندار سے کھانے پینے کے لئے‘ کوئی بھی چیز خریدتے تو وہ اپنے ہاتھ کو ہمارے ہاتھ سے لگنے نہیں دیتا تھا۔ پتے یا کاغذ پر چیز رکھ دیتا اور اپنے ہاتھ کو ہمارے ہاتھ سے چھونے کی اجازت نہیں دیتا تھااور اگر دکانداربرہمن ہوتا تو مسلمان سے چھو جانے کی بنا پر‘ اپنے جسم کا وہ حصہ بار بار دھوتا‘ جو ہمارے ہاتھ کو چھو جاتا۔آج جب میں بڑھاپے میں داخل ہو چکا ہوں‘ ہندو کے ساتھ میل جول میں بڑی سبکی محسوس کرتا ہوں۔ تقسیم ہند کے دوران‘ قائداعظمؒ محمد علی جناح کو ہندوئوں کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت پڑتی رہتی تھی۔قائداعظمؒ جب ہندو لیڈروں کی ضیافت پرا ن کے گھر جاتے‘ تو وہ نئی کراکری بطور خاص علیحدگی سے میز پر رکھ دی جاتی اور جب کھانا ختم ہوتا تو تمام برتنوں کو احتیاط سے ہاتھ لگائے بغیر‘ اٹھا کے باہر پھینک دیا جاتا۔ قائد اعظمؒ نے خود یہ واقعہ اپنے ایک دوست کو سنایا تھا ۔
امریکہ میں مختلف رنگ ‘نسل اور خدوخال کے لوگ رہتے ہیں۔ وہاں پر گورے اور کالے بھی آپس میں شادیاں کر لیتے ہیں۔ یہی حال دیگر اقوام کا بھی ہے۔چینی قوم بہت زیادہ عادات و اطوار میں دوسروں سے مختلف ہوتی ہے ‘لیکن وہ بھی ہر قوم اور عقیدے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملنے جلنے میں اجتناب نہیںکرتی ۔ برصغیر کے مسلمانوں نے ہندوئوں کا جو طرز عمل دیکھا‘ وہ دنیا میں کہیں نہیں پایا جاتا۔پاکستان اور بھارت میں کئی قومیں ہندو کے ساتھ رہتی ہیں‘ لیکن دوسرا کوئی بھی شخص‘ ہندو کی حقارت سے محفوظ نہیں رہتا۔ چھوٹی ذات کے ہندو اور صفائی کرنے والے اچھوت‘ کتوں سے بھی زیادہ ناپاک قرار دئیے جاتے ہیں۔ آج بھی بھارت کے دیہات میںکوئی اچھوت عورت یا مرد ‘ ہندوئوں کے علاقے سے گزرتاتو اس کی کمر کے ساتھ جھاڑوباندھ دیا جاتا‘ تاکہ اس کے پیروں کے نشان‘ جھاڑو مٹاتاجائے۔ ہندو پانی‘ مسلم پانی ریلوے اسٹیشنوں اور بسوں کے اڈوں پر آپ کو جابجا یہ مناظر دکھائی دیں گے‘ جہاں ہندو‘ مسلم مسافروں کو پانی پلاتے ہیں‘ تواوپر ہی سے پانی ‘ شربت یا کوئی اور مشروب کو اوک (دونوں ہاتھوں کو پیالہ نما شکل میں جوڑ کر پانی پینا) بنا کر پلا یا جاتا ہے ۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved