تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-10-2018

مکافاتِ عمل

مکافاتِ عمل، شریف خاندان رہ گزرِ سیلِ بے پناہ میں ہے۔ صرف تحریک انصاف اس کی مدد کر سکتی ہے، اگر وہ کسی بہت بڑی حماقت کا ارتکاب کر بیٹھے۔ مگر اب تک ایک ایک قدم پھونک پھونک کر وہ اٹھا رہی ہے۔ بلکہ کچھ ڈری ڈری سہمی سہمی سی۔
انسانوں کو یہ گمان کیسے ہو جاتا ہے کہ وہ تاریخ کی صورت گری کر سکتے ہیں۔ یہ سماجی، سیاسی اور تاریخی عوامل ہیں جو وقت کو سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد مغرب میں مزدور بے چارہ تھا۔ حالات کے رحم و کرم پہ تھا۔ اسی ماحول نے اشتراکی انقلاب کی فکری بنیادیں فراہم کیں؛ اگرچہ اندازوں کے برعکس، پہلے ان اقوام میں، جن پر یہ گمان کبھی نہ تھا۔ روس کے کسان غلاموں کی سی پست اور پسماندہ زندگی جی رہے تھے۔ زار کا شاہی خاندان رعایا سے بے نیاز، عیش و عشرت میں مگن تھا کہ لاوا پھوٹ پڑا۔ کبھی یہ خیال ہوتا ہے کہ کایا پلٹ میں روسی ادیبوں کا حصہ انقلابیوں سے شاید کم نہ تھا۔ آج بھی روسی ناول نگاروں کی تحریریں ایک گہری اداسی اور پھر دنیا کو بدل ڈالنے کی آرزو پیدا کرتی ہیں۔ دوستو فسکی کے ناول ''ذلتوں کے مارے لوگ‘‘ میں، قاری کی ملاقات ایک بے نوا یتیم بچی نیلی سے ہوتی ہے۔ وہ ترس کھا کر پناہ دینے والے، ایک فلاکت زدہ بڑے میاں کے ہاں پڑی ہے۔ ایک قیمتی پیالہ ٹوٹا تو اس کی جان پہ بن آئی۔ کچھ دیر بعد اسے بازار میں بھیک مانگتے دیکھا گیا کہ دوسرا پیالہ خرید سکے۔ مدتوں بعد ایک نقاد نے لکھا: روسی سماج کا سارا درد، بھیک کے لیے پھیلے ہوئے نیلی کے ہاتھ میں مجسّم ہو گیا ہے۔ 
اپنی عقل پہ آدمی کو کبھی ناز ہو جاتا ہے، بالخصوص کچھ کامیابیاں سمیٹ لینے والے عوامی رہنمائوں میں۔ اب وہ حماقت پہ اتر آتے ہیں۔ پاکستانی سیاست بعض عجیب و غریب جہالتوں کا شکار ہے۔ کبھی کوئی لیڈر خود دعویٰ کرتا ہے اور کبھی اس کے پیروکار کہ وہ قوم کی تقدیر بدل ڈالیں گے۔ انسانوں کی قسمت کے فیصلے انسان نہیں، ان کا پروردگار کرتا ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے ''ہر ذی روح کو خالق نے اس کے ماتھے سے تھام رکھا ہے‘‘۔ 
نیم خواندہ رانا مشہود جب یہ کہتے ہیں کہ ان کا انٹرویو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تو سننے والوں کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ اوّل تا آخر وہ کیمرے کے سامنے موجود رہے۔ بات چیت میں کچھ ڈالا گیا اور نہ نکالا گیا۔ جو بھی اس کا سیاق و سباق تھا، جگمگاتی روشنیوں کے سامنے تھا۔ دو روزہ بحث کے بعد، چند نکات پوری طرح واضح ہیں۔ 
مبصرین کی اکثریت کو یقین ہے کہ یہ شہباز شریف کا پڑھایا گیا آموختہ ہے۔ شریف خاندان کے اندر اقتدار کی کشمکش جاری ہے۔ شہباز شریف بھائی کے دستِ نگر ہیں مگر ایک زمانے سے وزارتِ عظمیٰ کی آرزو سینے میں پل رہی ہے۔ ایک بار آدمی جب اس خواہش میں مبتلا ہو جائے تو رہائی شاذ ہی نصیب ہوتی ہے۔ کسی ہزار پا آکٹوپس کی طرح ، دل و دماغ کو یہ آرزو جکڑ لیتی ہے۔ خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں تاج پہنے خود کو وہ حکم چلاتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اس عالم میں لذّت اور تسکین کا ایک عجیب مریضانہ احساس شکار آدمی کے رگ و پے میں دوڑتا ہے۔ انسان سے دیوتا بنا دیتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس کا وہ عادی ہو جاتا ہے۔ برسوں پہلے شہباز شریف تعویز کے لیے ایک نام نہاد ''روحانی پیشوا‘‘ کے پاس پہنچے تھے۔ مبلغ دس ہزار روپے جز رس آدمی نے بہروپیے کو پیش کئے تھے۔ 
تاریخ ساز شاعر ملٹن کی Paradise Lost کا وہ دل ہلا دینے والا منظر۔ ایک تاریک شب میں برق و باراں سے لرزتی کالی دھرتی۔ جنّت سے دھتکار کر نکالے گئے فرشتے اور ان سے ابلیس کا خطاب To reign is worth ambition though in Hell تمنائوں کی تسکین و تسلّی تخت ہی سے ممکن ہے، خواہ جہنم کے شعلوں میں بچھا ہو۔ 
شہباز شریف کی کم ہمّتی اسے بچا لے گئی ورنہ اقتدار کی تمنا ایسی ہولناک ہوتی ہے کہ اولاد کو باپ اور بھائی کو بھائی کا سر کاٹنے پہ آمادہ کر دے۔ تاریخ کے کتنے ہی باب اس پاگل پن سے رقم ہوئے، ایسے میں جو شہزادوں اور لشکروں پہ طاری ہو جاتا ہے۔ 683 عیسوی میں تاج شاہی پہننے والے معاویہ بن یزید سمیت، چند ہی ایسے حکمران تھے، جو تخت کو ٹھکرا سکے۔
شہباز شریف ایک سے زیادہ مخمصوں کا شکار ہیں۔ ایک طرف بڑے بھائی کا ڈرا دینے والا سایہ اعصاب پہ سوار رہتا ہے کہ وہی پارٹی کے اصل لیڈر ہیں۔ ووٹروں اور کارکنوں میں وہی مقبول ہیں۔ دوسری طرف اپنے اور اپنے شہزادوں کے احتساب کا خوف جان گداز کئے رکھتا ہے۔ حمزہ شہباز کا چرچا زیادہ ہے، چینی کمپنیوں سے لین دین کے زیادہ تر معاملات سلیمان شہباز نے طے کیے۔ از راہ مزاح کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ حمزہ پرچون فروش ہیں، تھوک کا کاروبار سلیمان نے کیا۔ اس مہارت کے ساتھ کہ جو جانتے ہیں داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ہندوستان کے عالی قدر شاعر ڈاکٹر کلیم عاجز کا ایک شعر ہے: 
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ 
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
تیسری طرف جنرلوں کو لبھانے اور ان کی منت سماجت جاری رکھنے کی ذمہ داری آنجناب کے کمزور کاندھوں پہ آ پڑی ہے۔ غالباً یہی وہ واحد میدان ہے، جس سے اب تک وہ انصاف کر سکے۔ باور کیا جاتا ہے کہ بڑے بھائی اور بھتیجی کی رہائی میں، ان کی پسِ پردہ کاوش کا بہت کچھ دخل ہے۔ فرمایا : تمام انسان اپنے اعمال کے قیدی ہیں۔
میاں محمد نواز شریف ہمیشہ کے لیے نا اہل ہو چکے۔ اقتدار میں واپسی کا اب سوال ہی نہیں۔ چیلنج اب محترمہ مریم نواز سے ہے۔ شہباز شریف جہاندیدہ ہیں‘ لیکن شخصیت میں مقبولیت عطا کرنے والے عوامل نہیں پائے جاتے۔ خیر سے چڑچڑے بھی خوب ہیں۔ ارکان اسمبلی اور گرد و پیش کے لوگ ہمیشہ ان سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ محترمہ مریم نواز مجمع جمع کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ مسئلہ ان کا یہ ہے کہ سیاسی حکمت عملی تشکیل نہیں دے سکتیں۔ نخوت اور نفرت کا مزاج میں غلبہ ہے۔ ارد گرد خوشامدیوں کا ہجوم رہتا ہے۔ جوڑ توڑ کا تجربہ نہیں لیکن اقتدار کی خواہش ایک جنون کی طرح باطن میں گھلی ہے۔ ظہیر کاشمیری نے کہا تھا:
میں ہوں وحشت میں گم‘ میں تیری دنیا میں نہیں رہتا
بگولہ رقص میں رہتا ہے، صحرا میں نہیں رہتا
باہمی اختلاف کے باعث بکھر جانے کے خوف نے شریف خاندان کو اب تک متحد رکھا ہے۔ آئندہ بھی شاید تھامے رکھے۔ کشمکش بہر حال جاری رہے گی۔ توانائی برباد کرتی رہے گی۔ شش و پنج میں ڈالے رکھے گی۔ سوچے سمجھے بغیر استعمال ہونے والا رانا مشہود ایک چھوٹا سا مہرہ ہے۔ ایک غیر ذمہ دار اور سطحی آدمی، جس کا کوئی پس منظر ہے اور نہ مستقبل۔ ایک دن ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح اسے فضا میں تحلیل ہو جانا ہے۔ مٹّی میں مل کر مٹّی ہو جانا ہے۔ قطعاً اسے اندازہ نہ تھا کہ آموختہ سنانے کا نتیجہ کیا ہو گا۔ خود شہباز شریف کو بھی ادراک نہ ہو سکا۔ خاص طور پر عسکری قیادت سے اس شدید ردِ عمل کا اندیشہ انہیں ہرگز نہ ہو گا۔ فوجی ترجمان کا بیان سخت ترین تنبیہہ ہے۔ کسی سیاستدان کو قومی استحکام میں خلل ڈالنے کا مرتکب ٹھہرانا بغاوت سے ذرا سا ہی کم سنگین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوراً ہی اپنا بیان موصوف کو واپس لینا پڑا۔ فوراً ہی جواب طلبی کا ڈرامہ رچایا گیا۔
مکافاتِ عمل، شریف خاندان رہ گزرِ سیلِ بے پناہ میں ہے۔ صرف تحریک انصاف اس کی مدد کر سکتی ہے، اگر وہ کسی بہت بڑی حماقت کا ارتکاب کر بیٹھے۔ مگر اب تک ایک ایک قدم پھونک پھونک کر وہ اٹھا رہی ہے۔ بلکہ کچھ ڈری ڈری سہمی سہمی سی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved