تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     04-10-2018

بے گھر افراد کو گھر کیسے مل سکتا ہے؟

بے گھر انسان کون ہے؟ دنیا کے مختلف ممالک اور ثقافتوں میں ایک بے گھر انسان کی تعریف مختلف ہے۔ مغربی کلچر کے اندر بھی بے گھر شخص کی تعریف میں فرق ہے۔ ویسے جسے ہم مغربی کلچر کہتے ہیں، وہ کوئی سو فیصد ایک جیسا نہیں ہے۔ مغربی کلچر کئی ملکوں اور بر اعظموں پر پھیلا ہوا ہے۔ چنانچہ اس میں بھی ایک ملک سے دوسرے میں تھوڑا بہت فرق ہے۔ اس فرق کی وجہ کہیں تو مختلف سیاسی و سماجی نظریات ہیں اور کہیں معاشی نظام ہے۔ کسی کلچر میں قدامت پرستی نمایاں ہے، کہیں آزاد خیالی زیادہ ہے، اور کہیں ترقی پسندانہ رجحانات کا غلبہ ہے۔ 
امریکہ میں ایک بے گھر شخص کی جو تعریف متعین ہے وہ ناروے سے مختلف ہے۔ ناروے میں ایک بے گھر فرد کی سرکاری مقصد کے لیے جو تعریف ہے‘ اس کے مطابق ایک ایسا شخص جس کے پاس اپنا ذاتی گھر نہیں ہے، یا جس کے پاس کرائے کی کوئی رہائش گاہ نہیں ہے۔ اس کے پاس رہائش کا کوئی سرکاری یا فلاحی مدد سے عارضی بندوبست ہے، یا پھر وہ عارضی طور پر کسی رشتہ دار یا عزیز کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ 
عام طور پر بے گھر افراد کے نام سے ہمارے ذہنوں میں جو تصویر آتی ہے وہ پل کے نیچے سویا ہوا یا کسی ریلوے سٹیشن کے بنچ پر اونگھتا ہوا کوئی شخص ہوتا ہے۔ ناروے جیسے ملکوں میں اول تو ایسے لوگ ہوتے ہی نہیں، اگر ہوں بھی تو ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ یہ عموماً دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو نشے کے عادی ہوتے ہیں۔ اور دوسرے ذہنی طور پر بیمار لوگ۔ چنانچہ یہ لوگ ناروے کی تعریف کے مطابق بے گھر نہیں بلکہ بیمار ہیں، جن کو طبی اور نفسیاتی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوںکے لیے ناروے میں نشے کی عادت چھڑانے یا نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لیے بہت اعلیٰ معیار کے مراکز قائم ہیں، جن تک ہر شہری کی رسائی ہے۔ ظاہر ہے ناروے کی متعین کردہ تعریف کو پاکستان جیسے مشرقی اور قدیم یوٹوپیائی خاندانی نظام کے حامل ممالک میں نہیں اپنایا جا سکتا۔ پاکستان میں تو آبادی کی بھاری اکثریت ایسی ہے، جس کے پاس ذاتی مکان یا کرائے کی رہائش نہیں ہوتی، مگر ان کے پاس رہنے کے لیے جگہ ہے، کیونکہ وہ والدین یا دیگر قریبی رشتہ داروں کے ساتھ رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے ذہن میں ایک دن اپنا ذاتی مکان بنانے یا کرائے پر گھر لینے کا خیال ضرور ہوتا ہے، مگر ایسا ہونے تک وہ جس مکان میں بھی رہتے ہیں اسے اپنا ہی گھر سمجھتے ہیں، اس لیے ان کو ناروے کی بے گھر افراد کی تعریف میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ اور جب سے پاکستان میں اثاثے ظاہر کرنے اور احتساب کا عمل شروع ہوا ہے، تب سے بڑے بڑے سیاست دانوں کی اکثریت ناروے کی تعریف کے مطابق بے گھر افراد میں ہی شمار ہوتی ہے۔ 
اس وقت پاکستان، بھارت اور چین میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے پاس رہنے کے لیے مناسب جگہ نہیں ہے۔ اور اس، مناسب جگہ، کی تعریف اقوام متحدہ کے چارٹر سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کے آئین میں با قاعدہ متعین ہے۔ پاکستان جیسے سماجی و معاشی پسماندگی کے شکار ممالک میں اس طرح کے موضوعات پر عموماً قابل بھروسہ اعداد و شمار جمع نہیں کیے جاتے، اگر ایسے اعداد و شمار سامنے لائے جائیں تو کئی لوگوں کے لیے یہ حیرت اور صدمے کی بات ہو گی۔ بے گھر افراد کی ایک بڑی تعداد کے باوجود پاکستان ان چند ایک ممالک میں شامل ہے، جہاں سوشل ہائوسنگ یا پبلک ہائوسنگ کا کوئی واضح تصور ہی موجود نہیں۔ فلاحی یا خیراتی نقطہ نظر سے تو گاہے اس پر بات ہوتی رہتی ہے، مگر کسی بھی حکومت نے آج تک اس پر کسی سنجیدہ نظرئیے کی روشنی میں غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ماضی کے حکمرانوں میں ذوالفقار علی بھٹو واحد حکمران تھے، جو مکان کے نعرے کو روٹی اور کپڑے کے ساتھ ملا کر ایک بنیادی انسانی ضرورت کے طور پر سامنے لائے۔ بھٹو ایک نابغہ روزگار اور انتہائی ذہین و فطین شخص تھے، مگر ان کے نعرے میں کوئی اوریجنل بات نہیں تھی۔ یہ نعرہ سوشلسٹ تحریکوں سے مستعار لیا گیا تھا۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں دنیا بھر کے سوشلسٹوں، سوشل ڈیموکریٹس‘ یہاں تک کہ کہیں کہیں قدامت پرستوں کے لیے بھی مجبوراً سوشل ہائوسنگ ایک ناگزیر مسئلہ تھا، جسے کسی نہ کسی شکل میں زیر بحث آنا ہی ہوتا تھا۔ اس تناظر میں سوشل ہائوسنگ کا تصور ابھرا اور دنیا بھر میں ہزاروں کی تعداد میں سوشل ہائوسنگ کمپلیکس تعمیر ہوئے۔ ان ہائوسنگ کمپلیکسز میں بے گھر اور کم آمدنی والے افراد کو مفت، کم از کم کرائے یا پھر حکومت کی سبسڈی سے رہائش دی گئی۔ مشرقی اور مغربی یورپ کے ممالک میں یہ تجربہ بہت بڑے پیمانے پر کیا گیا۔ سوشلسٹ بلاک میں یعنی سوویت یونین سے لے کر مشرقی جرمنی، ہنگری، بلغاریہ، چیکو سلواکیہ اور پولینڈ وغیرہ سمیت تقریباً پورے مشرقی یورپ میں یہ تجربہ بڑی حد کامیاب رہا‘ جہاں شہریوں کو رہائش مہیا کرنے کی ذمہ داری ریاست نے اپنے ذمہ لی اور سوشلسٹ نظام کے خاتمے تک بڑی حد تک پوری کی۔ دوسری طرف مغربی یورپ میں کچھ جگہوں میں سوشل ڈیموکریٹس نے بھی اس میدان میں نا قابل یقین کارنامے سر انجام دئیے۔ ماضی کی ایک عظیم سلطنت کا ایک بڑا شہر ویانا اس کی ایک اہم مثال ہے۔ یہ شہر ایمپائر کے خاتمے پر دنیا بھر میں بے گھر لوگوں کی ایک عبرت ناک مثال تھا۔ یہاں ایک کمرے کے گھر میں بیس بیس لوگ شفٹوں میں سونے پر مجبور ہو گئے تھے۔ لیکن بادشاہت کے خاتمے کے بعد ایک طویل جہدوجہد کے بعد سوشل ڈیموکریٹس نے یہاں سوشل ہائوسنگ کے ایسے شہکار بنائے جو آج بھی موجود ہیں۔ ویانا کے پاس سوشل ہائوسنگ کی اسی سالہ تاریخ ہے، جہاں آج بھی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کسی نہ کسی شکل میں حکومتی امداد سے رہائش پذیر ہے۔ اس سے قدرے مختلف مگر بہت ہی کامیاب ماڈل سنگاپور کا بھی ہے۔ اس ماڈل کے تحت اس ملک کے اسی فیصد لوگ اپنے گھر کے مالک ہیں۔ 
بے گھر افراد کا یہ قصہ ہم نے پاکستان میں نئی حکومت کی طرف سے اس باب میں کی جانے والی کوششوں کے تناظر میں بیان کیا ہے۔ یہاں بے گھر افراد کی بہت بڑی تعداد ہے۔ پاکستان میں آبادی کا بڑا حصہ دیہاتوں میں آباد ہے، جہاں کی رہائشیں معیاری رہائش کی تعریف پر پورا نہیں اترتیں۔ شہروں میں بھی معدودے چند علاقوں کے علاوہ صورت حال خاصی مخدوش ہے؛ چنانچہ پاکستان میں یہ ایک گمبھیر مسئلہ ہے، جو حکومت کی طرف سے صرف پچاس لاکھ یا سو لاکھ گھر بنانے سے حل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ریاست کی زیادہ بڑے پیمانے پر وابستگی اور متحرک شمولیت ضروری ہے۔ اس مقصدکے لیے ہمارے وقت میں تین کامیاب ماڈل موجود ہیں۔ یہ کامیاب ماڈل ناروے، سنگا پور اور کیوبا ہیں۔ یہ تینوں ممالک اپنے شہریوں کو بین الاقومی معیار کی رہائش فراہم کرنے میں کامیاب رہے ہیں، جس کو اقوام متحدہ اور دنیا کے کئی غیر جانب دار اداروں نے تسلیم کیا ہے۔ حکومت اگر رہائش کا مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے ان میں سے کسی ایک ماڈل کا انتخاب کرنا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے سماجی و معاشی حالات کے پیشِ نظر کون سا ماڈل مناسب ہو گا؟ یہ فیصلہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ جہاں وسائل کم ہوں، وہاں ان کو زیادہ سے زیادہ منصفانہ طریقے سے بانٹ برت کر کھانا ہی باعثِ برکت اور واحد قابل عمل راستہ ہوتا ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ رہائش ایک قدیم انسانی مسئلہ ہے۔ گزشتہ ایک سو سال کے دوران دنیا بھر میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہر قسم کا تجربہ ہو چکا ہے۔ اس کے لیے ہر نظام اور نظریہ آزمایا جا چکا ہے؛ چنانچہ اس باب میں ہمارے پاس پہلے سے کافی علم اور تجربہ ہے‘ مگر پھر بھی کوئی نیا تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کیوبا سے معاشی مساوات، ناروے سے انسانی حقوق اور شہری آزادیاں اور سنگا پور سے نظم و ضبط کا سبق لے کر ایک نئے مقامی تجربے کے ذریعے کم خوش نصیب اور غریب لوگوں کی با عزت رہائش کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved