جن میں طاقت پائی نہ جاتی ہو یا کم ہو وہ اپنی کوئی بات منوا نہیں سکتے۔ معاملہ فرد کا ہو یا قوم کا‘ یہ اصول سب پر اطلاق پذیر ہے۔ دنیا کی ریت یہی ہے کہ جس میں طاقت ہے اُس کے آگے سب جھکتے ہیں۔ سلام چڑھتے سورج کو کیا جاتا ہے۔ ڈوبتے سورج کو خدا حافظ کہنے کی توفیق بھی کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔
ایک زمانے سے بحیثیت قوم ہمارا حال یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہم چاہتے ہیں ہوتا اُس کے برعکس ہے۔ جب پَلّے کچھ نہ ہو تو کوئی ہمیں خاطر میں کیوں لائے گا؟ ہم سے جو بھی سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ ہمارے اپنے فکر و عمل اور حیثیت کی بنیاد پر ہے۔ کوئی اگر مہربان ہے تو کسی نہ کسی مفاد کی خاطر۔ اور کوئی ہمیں نظر انداز کر رہا ہے تو کسی نہ کسی سبب کے تحت۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ جب کسی کا مفاد ہم سے وابستہ نہیں رہتا تو اُسے ہم میں کشش بھی دکھائی نہیں دیتی۔ کبھی کبھی ہمیں کسی کی طرف سے ''فرمائشی مخاصمت‘‘ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت کا ہم سے اب تک جو سلوک رہا ہے وہ بہت حد تک فرمائشی پروگرام کا درجہ رکھتا ہے۔ کچھ اندرونی فرمائشیں ہیں اور کچھ بیرونی۔ اندرونی اور بیرونی ہر دو طرح کی سیاست کا تقاضا ہے کہ نئی دہلی مستقل بنیاد پر اسلام آباد کو نشانے پر رکھے۔ اس بات پر ہمیں حیران ہونا ہے نہ دکھی۔ صرف سوچنا ہے اور اِس مستقل پریشانی سے بہ طریق احسن محفوظ رہنے کی تدبیر کرنی ہے۔
دو عشروں سے پاکستان کا یہ حال ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے اُس کے لیے مسائل کا انبار پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ اس کا آدھا وقت پچھلی حکومتوں کے جمع کیے ہوئے مسائل کو سمجھنے اور اُن سے بہتر طور پر نبرد آزما ہونے کی تدبیر میں کھپ جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے ہم بحیثیت قوم بہت کمزور ہیں۔ یہ کمزوری ہر شعبے میں نمایاں ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ع
ہر جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
جس میں طاقت نہ پائی جاتی ہو یا کم ہو اُسے سبھی دباتے ہیں۔ پاکستان کا یہی معاملہ ہے۔ ہم اگر کسی کو ڈھنگ سے منہ دینے کے قابل ہو پاتے ہیں تو اُس کی پشت پر کوئی نہ کوئی بڑی طاقت آ کھڑی ہوتی ہے اور چابی بھر دیتی ہے۔ اور یوں ہمیں کبھی بیک ٹریک اور کبھی یو ٹرن کی منزل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت میں تشکیل پانے والی حکومت نے ابھی رختِ سفر کھولا بھی نہ تھا کہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینے کی باتیں ہونے لگیں۔ یہ عجیب ضرور تھا مگر لازم بھی تھا۔ ملک جہاں کھڑا ہے وہاں بہت کچھ ہے جو ہمیں دبوچنے کے لیے بے تاب ہے۔ اگر کسی بڑے معاشی یا مالیاتی بحران سے بچنا ہے تو کسی نہ کسی بڑے عالمی ادارے کا سہارا لینا پڑے گا۔ یہی سبب ہے کہ حکومت ایک طرف آئی ایم ایف سے بات کر رہی ہے اور دوسری طرف سعودی عرب اور دیگر متمول دوستوں سے امداد کی خواہاں ہے۔ سعودی عرب سے تیل ادھار خریدنے کی بات ہو رہی ہے تاکہ معیشت کو کم از کم ششماہی نوعیت کا ریلیف تو ملے۔ حواس بحال ہوں گے تب ہی تو ہم کچھ کرسکیں گے۔ دوسری طرف امریکا نے واضح اشارے دیئے کہ وہ پاکستان کو کسی بھی طور بیل آؤٹ پیکیج لینے نہیں دے گا۔ امریکا نے پہلے تو دہشت گردی کے خلاف ناکافی اقدامات کا روایتی رونا روتے ہوئے پاکستان کے لیے عسکری امداد میں اچھی خاصی کٹوتی کردی۔ عسکری تربیت کے پروگرام اور دیگر معاملات کی مد میں کم و بیش 30 کروڑ ڈالر گھٹائے گئے ہیں۔ اب امریکا کے اشارے پر آئی ایم ایف نے بھی ''ڈو مور‘‘ کا ''مطالبہ‘‘ کردیا ہے۔ ہم نے مطالبہ واوین میں اِس لیے لکھا ہے کہ میڈیا کو یہی بتایا جاتا ہے۔ حقیقی یہی ہے کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے ہم سے کوئی مطالبہ نہیں کرتے ‘بلکہ حکم دیتے ہیں‘ فیصلہ سناتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ٹیم نے اسلام آباد میں مذاکرات کے دوران حکومت پر زور دیا ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں۔ ساتھ ہی ساتھ ٹیم نے نیپرا کا دورہ بھی کیا ہے۔ یعنی میڈیا کو بھی رہنما خطوط فراہم کیے گئے ہیں کہ ملک کو کنٹرول کیسے کرنا ہے!
ہمیں چند نکات ذہن نشین رکھنے ہیں۔ ایک بڑا نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہمیں کچھ بھی مفت نہیں ملتا یعنی جو کچھ بھی حاصل کرنا ہوتا ہے اس کے لیے کچھ نہ کچھ ادا کرنا ہی پڑتا ہے۔ کس شکل میں ادا کیا جائے گا‘ یہ الگ بحث ہے۔ بہر کیف‘ جب ہم قرضے یا امداد لیتے ہیں تو بہت کچھ داؤ پر لگتا ہے۔
حکومت اگر آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینا چاہتی ہے اور دوسری طرف سعودی عرب‘ ترکی اور دیگر دوستوں سے امداد یا ''انسان دوست‘‘ قرضوں کی شکل میں کچھ لینا ہے تو لازم ہے کہ کچھ دینے کے لیے بھی تیار رہا جائے۔ اور ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ جہاں کچھ دینا ہو‘ وہاں بہت کچھ دے بیٹھتے ہیں۔ اور جب ہوش آتا ہے تب صرف سَر پیٹنے کا آپشن رہ جاتا ہے۔
ہم جس دنیا کا حصہ ہیں اُس میں ہر سطح پر انتہائی درجے کی مسابقت درپیش ہے۔ یہ مسابقت انسان کو نچوڑ لیتی ہے۔ ہر شعبہ بہترین کارکردگی کا طالب ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے اقوام کو بھی ویسی ہی محنت کرنا پڑتی ہے جیسی انفرادی سطح پر کرنی ہوتی ہے۔ جس میں دم ہوتا ہے وہی میدان میں رہ پاتا ہے ؎
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دِیے میں جان ہوگی وہ دِیا رہ جائے گا
سفارت کاری میں قیامت خیز نوعیت کی مہارت درکار ہے۔ ہم ''گیمز‘‘ کے دور میں جی رہے ہیں۔ جہاں بھی چند ممالک کو گنجائش دکھائی دیتی ہے‘ کوئی نہ کوئی گیم شروع کردیا جاتا ہے۔ ایک طرف علاقائی نوعیت کے گیم ہیں اور دوسری عالمگیر انداز کے۔ ہمیں غیر ضروری طور پر کسی بھی گیم کا حصہ بننے سے محفوظ رہنا ہے۔ اب قدم قدم پر احتیاط کا دامن تھامے رہنا لازم ہوگیا ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے خوب سوچ سمجھ کر‘ پُرسکون رہتے ہوئے کرنا ہے۔ جذبات کی رَو میں بہتے ہوئے اٹھایا جانے والا ایک غلط قدم کسی بھی انسان‘ معاشرے یا قوم کو کئی قدم پیچھے لے جاتا ہے۔ اب دنیا کا نظام کچھ ایسا ہے کہ سبھی جُڑے ہوئے ہیں۔ کہیں بھی کوئی ہلچل ہوتی ہے تو دوسرے بہت سے ممالک بھی متاثر ہوتے ہیں۔ بحران سیاسی ہو یا مالیاتی‘ سبھی کو لپیٹ میں لیتا ہے۔ امریکا اور ترکی کے درمیان حالیہ کشیدگی اس کی ایک روشن مثال ہے۔ ترکی نے تو بحران کو منہ دے لیا مگر بھارت سمیت کئی ممالک اب تک الجھے ہوئے ہیں۔ آزمائش کی گھڑی صرف پاکستان کے لیے نہیں‘ سب کے لیے ہے۔ سبھی کو سنبھل سنبھل کر چلنا ہے۔ محتاط بھی رہنا ہے اور جرأت کا مظاہرہ بھی کرنا ہے۔
عالمی مالیاتی نظام کی نوعیت ایسی ہے کہ قرضوں کے بغیر گزارا مشکل ہے۔ اگر قرضے لینا ہی پڑیں تو اس طور لیے جائیں کہ بے قابو نہ ہوں‘ معیشت پر بوجھ نہ بنیں۔ مستحکم رہتے ہوئے زندہ رہنے کا یہی ایک معقول طریقہ ہے۔ قرضے صرف ناگزیر حالات میں لیے جانے چاہئیں۔ یہ ہر حال میں کوئی معقول اور قابلِ عمل آپشن نہیں۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستانی قوم سے اِتنا ٹیکس وصول کیا جائے کہ وہ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی فکر سے بلند نہ ہوسکے۔ گھما پھراکر یہ ہے اصل عالمی ایجنڈا۔ اب دیکھنا ہے کہ کپتان اور اُن کی ٹیم کو اس ایجنڈے کے خلاف کتنی کامیابی ملتی ہے۔