تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     05-10-2018

تبدیلی کے اشارے

دنیا میں ہونے والی ہر چھوٹی سے چھوٹی حرکت ایک پیغام ہوتی ہے ۔انسانی جذبات انسان کی اندرونی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں ۔انسانی حرکات وسکنات بذاتِ خود صاف اور اونچی زبان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حرکات وسکنات بذاتِ خود سب کچھ بیان کر رہی ہوتی ہیں۔ 
تمام اشیاء اور ان کی ایک مخصوص جگہ کی ایک اپنی کہانی ہوتی ہے ۔آپ جب کسی کے گھر جاتے ہیں‘ تو آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ ہر گھر میں لگی تصویریں اور کمرے ‘اُس گھر کی کہانی سناتے ہیں۔تبدیلی و ہ عامل ہے ‘جو مستقبل میں ہونے والی مثبت اور منفی اثرات کی نشان دہی کرتی ہے۔ اشاروں کی زبان بذاتِ خود ایک بہت بڑی طاقت ہے ۔ان عوامل اور تبدیلی کی اُمیدمیں لوگ انہیں بھانپتے ہوئے مستقبل کالا ئحہ عمل طے کرتے ہیں ۔
لفظ تبدیلی سب سے زیادہ بولا جانے والا‘ مگر سب سے زیادہ کم عمل کیا جانے والا لفظ ہے۔ جیسا کہ دانا شخص کہتے ہیںکہ ہر شخص دنیا کو تو بدلنا چاہتا ہیں‘ مگر کوئی بھی شخص خود کو بدلنے کو تیار نہیں ہے ۔تبدیلی وہ منزل ہے‘ جیسے پاناتو سب چاہتے ہیں‘ مگربہت کم اس تک پہنچ پاتے ہیں ۔ نفسیات دانوں کا ایک اصول ہے کہ تبدیلی کے عمل کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ اس اصول پر غور کیا جائے ‘تو بظاہر سادہ نظر آنے والا یہ اصول دراصل انسانی تجربات کا نچوڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نفسیات دان اسے ترجیحی اعتبار سے سب سے پہلا اصول قرار دیتے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔اپنی ذات میں غور کیجیے، کتنے ارتقائی عوامل سے گزر کر ہم یہاں تک پہنچے ہیں ۔ثبات بس اک تغیر کو ہے ‘زمانے میں سکوں محال ہے‘ قدرت کے کارخانے میں آج کے اس دور میں تو تبدیلی کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ اصل مسئلہ اُن کے ساتھ ہے‘ نہ کے زمانے میں؛ اگر وہ یہ بات مان بھی لیں‘ تو پھر بھی خود کو بدلنے کا طریقہ اور تجربہ بہت کٹھن ہے ۔بہت سے ادارے کئی ماہرین کو صرف اس وجہ سے بھرتی کرتے ہیں‘ تاکہ وہ ادارے میں آنے والی تبدیلیوں سے ملازمین روشناس کروا سکیں۔اگر ذاتی اور ادارتی سطح پر تبدیلی لانا اس قدر مشکل ہے‘ تو سوچیں معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی لانا کتنا مشکل ہوگا ؟ کسی بھی ملک میں تبدیلی ایک سست ‘مگر تیز رفتار عمل ہے۔ 
کچھ تبدیلیاںتو فوری ہوتی ہیں اور کچھ دیرپا ہوتی ہیں ۔مکمل تبدیلی کا عمل ایک طویل اور صبر آزمامرحلہ ہوتا ہے‘ مگر کچھ ظاہری حالات واقعات عوام کو تبدیلی کی نوید سنا سکتے ہیں۔ یہ اشارے بہت چھوٹے چھوٹے ہو سکتے ہیں ‘جسے کسی سے ملنا یا قطار میں کھڑے ہونا‘ مگر ان کا پیغام بہت واضح ہواہے ۔پاکستان کی موجودہ حکومت کے پاس تبدیلی کا ایجنڈا ہے اور اس سے بھی زیادہ تبدیلی کی خواہش ان لوگوں کی ہے‘ جنہوںنے ووٹ دیکر اس حکومت کو کام کرنے کا موقع فراہم کیا۔ انہوں نے لوگوں کی اُمیدوں کو اور بڑھادیا ہے۔ سب سے زیادہ توجہ کفایت شعاری پر ہے ‘تاکہ لوگوں کا پیسہ بچایا جا سکے ۔یہ اقدامات اب اپوزیشن اور میڈیا کی طرف سے چیلنج کیے جا رہے ہیں ۔اپوزیشن پاکستان کے بے پناہ قرضے کی وجہ سے یہ بات کرتی ہے کہ ایسے چھوٹے چھوٹے اقدامات کر کے اور عوام سے چندہ اکٹھا کر کے کس طرح کھرب روپے کا قرض ادا کیا جا سکتا ہے؟ ۔ 
اگرہیلی کاپٹر کے تناظر میں دیکھیں‘ تو 12,800روپے روزانہ ایک موٹرکیڈ کے خرچ سے بہت زیادہ نظر آتا ہے‘اسی طرح وزیر اعظم ہائوس کا استعمال ترک کر کے ایک ارب روپیہ سالانہ کی بچت کس طرح 94کھرب روپے کے قرض کو ادا کر سکتا ہے ‘مگر گو یہ بچت کافی نہیں ہے‘ مگر یہ تبدیلی کے اشارے اور بچت کی علامتیں ہیں‘ جن کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس میں بہت سے لوگوں کیلئے پیغام بھی ہے۔ کفایت شعاری کا عمل اُوپر سے شروع ہوا ہے ‘اگر وزیر اعظم 524ملازموں والا محل نماوزیر اعظم ہائوس چھوڈ کر دو بیڈ روم کے چھوٹے گھر میں منتقل ہوتا ہے ‘تو اس سے دو سمتوں میں پیغام جاتا ہے :ایک وزیر اعظم ہائوس کے عملے کیلئے اور دوسرا عام عوام کیلئے ۔وزیر اعظم ہائوس کے عملے کوبھی اب اس بات کا ادراک ہوگا کہ وہ سرکاری ذرائع کو ذاتی مفاد کیلئے استعمال نہیں کر سکتے ۔ایک دفعہ پھر بچت کے لحاظ سے بہت معمولی عمل ہے‘ مگر علامتی لحاظ سے یہ ایک طاقتور پیغام ہے کہ عوام کا ایک ایک روپیہ قیمتی اور محفوظ ہے ۔
دو ایسے بہت اہم عوامل ہیں‘جن کی وجہ سے ایک عام شہری تبدیلی کو قبول کرنے سے انکاری ہے ۔ان میں پہلا یہ کہ عوام کو ہر سابق حکمران نے بچت کا درس تو دیا‘ مگر خود اس کے الٹ کیا اور اپنے اہل وعیال و دوستوں کیلئے خزانے کے منہ کھول دئیے اور دوسری وجہ عوام میں شعور کی کمی ہے۔ اس لئے لوگ جمہوریت کی اصل روح سے ناواقف ہیں۔لوگوں کیلئے اپنے حقوق کیلئے کھڑے ہونا اور جواب طلبی جیسی روایات کی عادت میں نہیں‘ کیونکہ یہ لوگ مائٹ از رائٹ والی ذہنیت کے عادی ہو چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب ایک عام بندہ یہ سنتا ہے کہ حکومتی عمارات کے دیگر استعمال کی صرف اس وجہ سے ممانعت ہے‘ کیونکہ یہ حکومت کی ملکیت ہے اور ان پر حکومت کا پیسہ خرچ ہوا ہے‘ تو وہ اس بات کو یہ حقیقت جانے بغیر ہی مان لیتا ہے کہ حکومت کا تو اپنا پیسہ ہی نہیں ہوتا‘ حکومت یا تو قرض لیتی ہے یا پھر عوام سے ٹیکسوں کی شکل میںریونیواکھٹا کرتی ہے ۔
حال ہی میں انٹرنیٹ پر دو ویڈیوز کا بہت چرچا رہا۔ ایک میںکروشیا کی صدر خود اپنے گھر کو پینٹ کر رہی ہیں اور دوسری میں ہالینڈ کے وزیر اعظم خود فرش پر گری ہوئی کافی صاف کر رہے ہیں۔ ان حرکات کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لوگ اپنے اختیارات استعمال کر کے ان کاموں کیلئے کوئی بندہ نہیں رکھ سکتے یا ان کے ایسا کرنے سے اربوں ڈالر کی بچت ہوگی‘ بلکہ ان کا علامتی مطلب صرف یہ ہے کہ وہ بھی عام لوگوں جیسے ہیں اور وہ ہر گز VIPنہیں ہے اور وہ ایسے کام کرنے میں ہر گز شرم محسوس نہیں کرتے ۔یہ علامتی کام اتنے طاقتوار ہیں کہ اب بہت سے لوگ ان کی تقلید کریں گے ۔اس کی ایک حالیہ مثال ایوان صدر میں ہونے والی وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری ہے‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ تقریب ہر لحاظ سے سادہ ہو اور شرکا ء کی تواضع صرف چائے اور بسکٹ سے کی جائے ۔اس عمل پر بھی اپوزیشن نے بھرپور تنقید کی ‘لیکن آپ اخراجات پر بحث کر سکتے ہیں‘ مگر پیغام کو نظر انداز ہر گز نہیں کر سکتے ۔یہ پیغام اس قدر جاندار تھا کہ سند ھ حکومت نے بھی تقریب حلف برداری میںروائتی مینوسے ہٹ کر شرکا ء کی تواضع کی ہے ۔
قائد اعظم نے جب انگریزی سوٹ کی بجائے شلوار قمیص کو ترجیح دی‘ تو اس کا مطلب بچت نہیں تھا‘ بلکہ یہ قومیت ‘ثقافت اور سادگی کا علامتی پیغام تھا ۔تبدیلی ہمیشہ علامتی طور پر شروع ہو کر میڈیا ‘اخبارات اور حکومتی اقدامات کے ذریعے عام عوام تک جاتی ہے ۔کیا کفایت شعاری کی یہ پالیسی ایک وقتی شعلہ ثابت ہو گا‘ جو چند لمحات کے بعد بج جائے یا پھر یہ ایک ایسا دیر پا عمل ہوگا جو وقت کے ساتھ ساتھ کارکردگی دکھاتے ہوئے مفید نتائج دے گا؟ ۔نئی حکومت کے تبدیلی اور کفایت شعاری کے ایجنڈے نے ملک میں اس کے نفع اور نقصان پر بحث کا آغازتو کر دیا ہے‘ مگر دیر پا تبدیلی لانے کی اہلیت صرف اور صرف پہلے100دنوں ‘ایک سال اور روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے احتساب پر منحصر ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved