تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     06-10-2018

چین کا سفر… (3)

شنگھائی سے اگلی منزل چینڈو کا شہر تھا جو چین کے بڑے شہروں میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شہر کی آبادی سترہ ملین ہے۔ چینڈو سچوان Sichuan صوبے کا کیپٹل ہے۔ یہ صوبہ چین کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ گندم اور چاول کی پیداوار میں چین میں نمبر ون ہے۔ اسی وجہ سے سچوان کو Land of abundance یا خوشحالی کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے. لیکن یہ صوبہ صرف زراعت میں ہی نہیں بلکہ انڈسٹری میں بھی آگے ہے۔ دنیا کے 20 فیصد کمپیوٹر یہاں بنتے ہیں۔ JF-17 تھنڈر لڑاکا طیارے یہاں بنتے ہیں۔ یہاں دنیا کے بلند ترین پہاڑ بھی ہیں اور زرخیز میدان بھی۔ تبت کے پہاڑوں سے یہاں وافر مقدار میں پانی آتا ہے۔ ایشیا کا سب سے لمبا دریا Yang tze (یانگ سی) اسی صوبے سے گزرتا ہے۔ اس دریا کی لمبائی تقریباً چار ہزار میل ہے۔
چینڈو لاہور کا جڑواں شہر ہے۔ پاکستان نے 2007ء میں یہاں قونصلیٹ جنرل قائم کیا تھا۔ آج چینڈو میں سترہ ممالک کے قونصل خانے ہیں۔ پچھلے سال سچوان اقتصادی ترقی میں چین کے تمام صوبوں پر سبقت لے گیا تھا۔ دنیا جہاں کی بڑی بڑی کمپنیوں نے چینڈو میں دفتر کھول رکھے ہیں۔ بڑی بڑی انٹرنیشنل کار کمپنیاں چینڈو میں سالانہ دس لاکھ کاریں بنا رہی ہیں۔چینڈو ایئرپورٹ پر ہمارے قونصل جنرل مدثر ٹیپو استقبال کیلئے موجود تھے۔ ان کے ساتھ سچوان صوبے میں فارن آفس کا نمائندہ بھی تھا۔ چینڈو میں غیرملکی اہم شخصیات اور وفود آتے رہتے ہیں۔ اس صوبے کے سو سے زائد ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں۔ جس طرح لاہور اور چینڈو جڑواں شہر ہیں‘ اسی طرح فروری 2006ء کے معاہدے کے مطابق سچوان اور ہمارا پنجاب برادر صوبے قرار پائے تھے۔
18 ستمبر کو پروگرام کا آغاز سچوان یونیورسٹی کے پاکستان سٹڈی سنٹر میں سمپوزیم سے ہوا۔ ہمارے وفد کے لیڈر ایمبیسیڈر خالد محمود نے پاک چین تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس بات کا یقین دلایا کہ سی پیک کا پروجیکٹ پاکستان کے لئے ترجیحی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ منصوبہ صرف سڑکوں اور انرجی کے منصوبوں پر ہی مشتمل نہیں بلکہ اسے زراعت‘ تعلیم اور صحت کے شعبوں تک پھیلایا جا رہا ہے تاکہ عوام بھی سی پیک سے مستفید ہو سکیں۔ سپموزیم میں ایمبیسیڈر عارف ایوب نے افغانستان کے مسئلے پر پاکستانی پوزیشن بیان کی۔ ڈاکٹر اعجاز حسین نے پاک بھارت تعلقات پر روشنی ڈالی۔ ایمبیسیڈر سعید خالد نے پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے بات کی۔ یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ اس سنٹر میں پاکستان کے حوالے سے ریسرچ بھی ہو رہی ہے۔ ایک چینی ریسرچر کو جب یہ معلوم ہوا کہ میں اخبار میں کالم لکھتا ہوں تو وہ سیمینار کے بعد میرے پاس آیا اور اُس نے بتایا کہ وہ پاکستانی میڈیا کے حوالے سے کام کر رہا ہے۔ آخر میں ہمیں سنٹر کی لائبریری دکھائی گئی‘ جہاں پاکستان سے متعلق کافی کتابیں موجود ہیں۔
وائی ایم کے (YMK) چائنا کا بہت بڑا انڈسٹریل گروپ ہے جو کراکری سے لے کر روبوٹ تک بہت سارے پروڈکٹ تیار کرتا ہے۔ ہمیں ایک ایئرکنڈیشنر بنانے والی فیکٹری دکھائی گئی جہاں ویلڈنگ اور سولڈرنگ کا کام روبوٹ کر رہے تھے اور یہ روبوٹ بھی میڈ ان چائنا تھے۔ فیکٹری کے راؤنڈ کے بعد کمپنی کے سی ای او نے مفصل بریفنگ دی اور بتایا کہ چین کی تین بڑی ہائی ٹیک (High Teck) کمپنیوں میں وائی ایم کے بھی شامل ہے۔ ہم نے سوال کیا کہ آپ کے ہاں لیبر یونین موجود ہے‘ کیا آپ کی کسی فیکٹری میں کبھی سٹرائیک ہوئی ہے؟ اُس کا جواب نفی میں تھا۔ چینی قوم کے ڈسپلن کا جواب نہیں۔
وائی ایم کے سے ہم جنشا (Jinsha) میوزیم گئے۔ اس عجائب گھر کا نام دریائے جنشا سے ماخوذ ہے‘ جو میوزیم سے زیادہ دور نہیں۔ 2001ء میں یہاں کنسٹرکشن کیلئے کھدائی ہو رہی تھی کہ تین ہزار سال پرانی آبادی کے آثار دریافت ہوئے۔ میوزیم میں اُس زمانے کے برتن اور دیگر چیزیں سلیقے سے رکھی گئی ہیں۔ ان میں سب سے اہم سونے کا خول (Mask) ہے جو چہرے سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔میوزیم سے فارغ ہو کر ایک تیز رو ندی کے کنارے ریسٹورنٹ میں لنچ کیا۔ پھر وہی درجن بھر مختلف کھانے لیکن ان میں سے ایک دو میں خوب مرچیں تھیں‘ لہٰذا لنچ کا مزا دوبالا ہوگیا۔ اور اب ہم ایک ایسی جگہ گئے جسے دیکھنے کا ایک عرصے سے اشتیاق تھا۔ چینڈو سے تقریباً ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر پانڈا ریسرچ بیس ہے۔ اسے آپ Panda Zoo بھی کہہ سکتے ہیں۔ ریچھ نما یہ جانور سچوان صوبے کے پہاڑوں میں رہتا ہے۔ اسے ٹھنڈی آب و ہوا اور بانس کے جھنڈ درکار ہیں۔ اس وقت اس حیوان کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے لہٰذا اس ریسرچ سنٹر کا ایک مقصد پانڈا کی افزائش نسل بھی ہے۔ پانڈا کے دو ہی محبوب مشغلے ہیں۔ ایک بانس کی نرم ٹہنیاں کھانا اور کھاتے ہی چلے جانا۔ ایک اوسط سائز کا نَر پانڈا‘ جس کا اپنا وزن 110کلوگرام ہوتا ہے‘ دن میں تیس سے پینتیس کلو بانس کھا جاتا ہے۔ اس جانور کا دوسرا محبوب مشغلہ سونا ہے۔ کھانے سے فارغ ہو کر پانڈا سو جاتا ہے اور پھر اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ زیادہ کھانے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بانس کی شاخوں میں غذائیت کم ہوتی ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سست الوجود پانڈا اتنی زیادہ خوراک ہضم کیسے کرتا ہے؟ دوسری خصوصیت جو میں نے محسوس کی وہ یہ ہے کہ یہ حیوان طبعاً بہت شرمیلا ہے۔ انسانوں کے پاس آنا اُسے ذرا پسند نہیں۔
شام کو فارن آفس کی صوبائی برانچ کے ڈی جی مسٹر شین چاؤ نے پورے وفد کو ڈنر پر بلایا ہوا تھا۔ ڈنر کے ساتھ اگر بینکوئٹ (Banquet) کا لاحقہ لگ جائے تو سمجھ لیں کہ یہ نارمل ہے۔ سوٹ اور ٹائی پہننا ضروری ہو جاتا ہے اور تقریریں بھی ہوتی ہیں۔ کھانے کے متعدد کورس ہوتے ہیں۔ کھانا عام طور پر خواتین سرو کرتی ہیں۔ 
اگلے روز کا آغاز ہم نے ڈونگ فینگ الیکٹرک کارپوریشن (DEC) کے ہیڈ آفس کی نئی عمارت کو وزٹ کرکے کیا۔ کمپنی کے بڑے ہال میں دیواروں پر مختلف تصویریں لگا کر بجلی پیدا کرنے کے مختلف طریقے وضاحت سے دکھائے گئے ہیں۔ یہ کمپنی تھرمل سے لے کر نیوکلیئر تک بجلی گھر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور بجلی گھر ایکسپورٹ بھی کرتی ہے۔ ہمیں بریفنگ دینے والے صاحب غازی بروتھا پروجیکٹ پر کام کر چکے تھے اور پاکستان میں دس سال رہے تھے۔ اسی وجہ سے وہ پاک چین دوستی کے بارے میں خاصے پُرجوش نظر آ رہے تھے۔اس کے بعد ہم ایک نواحی قصبے میں گئے جہاں 2006ء میں زلزلے کی وجہ سے بھاری نقصان ہوا تھا۔ زلزلے کے نقصانات کو تصویری شکل میں محفوظ کرکے ایک میوزیم بنا دیا گیا ہے‘ جہاں اُن لوگوں کے کام کو بھی سپاس پیش گیا ہے‘ جنہوں نے متاثرہ آبادی کی بھرپور مدد کی۔ میوزیم سے ہم ایک سکول کی عمارت دیکھنے گئے‘ جو زلزلے سے تباہ ہو گیا تھا۔ اس تباہ شدہ چار منزلہ عمارت کو بغیر کسی مرمت کے زلزلے کے فوراً بعد والی حالت میں رکھا گیا ہے تاکہ دیکھنے والوں کو تباہی کا اندازہ ہو سکے۔ لنچ کے بعد ہم نے ایک قدیم آبپاشی کا پروجیکٹ دیکھا۔ آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے پہاڑوں کو کاٹ کر دریا کا رُخ میدانی علاقے کی طرف موڑا گیا تاکہ یہ پانی زراعت کے لئے استعمال ہو سکے۔ اُس زمانے میں ڈائنامائٹ نہیں ہوتا تھا۔ لہٰذا نمک کو سخت گرم کرکے چٹانوں میں ڈالا گیا اور اس طرح چٹانوں کو توڑنا آسان ہو گیا۔ اُسی شام ہمارے قونصل جنرل مدثر ٹیپو نے تمام وفد کیلئے پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا۔ کئی دنوں بعد پاکستانی کھانا کھایا اور وطن عزیز کی یاد تازہ ہو گئی۔
اگلی صبح ہم پھر سے عازم بیجنگ ہوئے۔ جاتے ہی ہوٹل میں لنچ کیا اور فارن منسٹری روانہ ہوئے۔ یہاں ہماری ملاقات ڈی جی ایشیا مسٹر ووجیانگ ہاؤ سے کرائی گئی۔ ہمارا ہوٹل مشہورِ عالم ٹیانامن سکوائر سے زیادہ دور نہ تھا۔ میں ڈاکٹر اعجاز حسین اور سجاد افضل چیمہ ایڈووکیٹ وہاں پیدل چلے گئے۔
جمعہ 21ستمبر ہمارا چین کے دورے کا آخری دن تھا۔ اُس روز China Institute for Contemporary Int. Studies میں سیمینار ہوا‘ جہاں پاک روس اور چین روس تعلقات بھی زیر بحث آئے۔ اس بار پھر مجھے چینی قوم کے ڈسپلن‘ صفائی کے معیار اور مقصد کی لگن نے بہت متاثر کیا۔ سات دن میں مجھے صرف ایک مکھی نظر آئی اور وہ بھی اب تک تلف ہو چکی ہوگی۔ یہاں کے لوگ فیملی پلاننگ سے لے کر سڑکوں کی صفائی تک حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہیں۔ ماضی کے گراں خواب چینی آج مکمل طور پر بیدار ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved