پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس اور بھارت میں اطالوی میرینز کے واقعات بظاہر دو الگ الگ تنازعات ہیں لیکن سفارتی نقطہ نظر سے ان میں مماثلت یہ ہے کہ دونوں ناٹو کے اہم رکن مغربی ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں نے نہ صرف جرم کا ارتکاب کیا بلکہ عدالتی کارروائی میں رخنہ ڈالنے کی بھی بھرپور کوشش کی اور اپنی مرضی کا فیصلہ کرانے کے لیے تمام ہتھکنڈے آزمائے تاہم دونوں واقعات میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں سر تسلیم خم کر لیا گیا لیکن بھارت نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے نہ صرف اطالوی میرینز کے خلاف مقدمہ درج کیا بلکہ جب انہوں نے عدالتی نظام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ضمانت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت واپس آنے اور عدالتی کارروائی کا سامنے کرنے سے انکار کیا تو بھارت نے سفارتی دبائو بڑھا کر انہیں واپس لوٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس واقعہ نے عالمی برادری میں بھارت کے سفارتی اثر و رسوخ کو اجاگر کیا۔ گھریلو محاذ پر بھی تمام پارٹیوں نے یک زبان ہو کر اٹلی کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کی تائید کی۔ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے پارلیمنٹ میں ایک سخت بیان دے کر اٹلی کو متنبہ کیا کہ اگر اطالوی میرینز واپس نہ بھیجے گئے تو اسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدالت عظمیٰ نے بھی اٹلی کے سفیر سے سفارتی مراعات واپس لے کر ان کے نقل و حمل پر پابندی لگا دی۔ یہ معاملہ اس لیے بھی کافی حساس تھا کہ حکمران اتحاد کی اہم جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کا تعلق اٹلی سے ہے اور اس سلسلے میں انہیں ماضی میں کافی طعنے برداشت کرنے پڑے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کے سخت موقف اختیار کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ انہیں سونیا گاندھی سے یہ ہدایت ملی تھی کہ اس معاملے میں کوئی نرمی نہ برتی جائے۔ کانگریس کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے سونیا گاندھی نے کہا کہ اٹلی کا رویّہ ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے عدالتی نظام کو دھوکہ دیا گیا جو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ بھارتی خارجہ سیکرٹری نے یورپی ممالک کے 27 سفارت کاروں کو واضح پیغام دیا کہ وہ اٹلی کی پشت پناہی نہ کریں بصورت دیگر ان ملکوں کے ساتھ اقتصادی رشتے متاثر ہو سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ اس وقت بھارت میں اٹلی کی سرمایہ کاری تقریباً 2.5 بلین یورو ہے اور مجموعی طور پر یورپی یونین اس وقت بھارت کی سب سے بڑی تجارتی پارٹنر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بھارت نے اپنی اقتصادی طاقت کا سہارا لے کر اٹلی سے اپنی بات تسلیم کرائی۔ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات میں کشیدگی اس درجہ بڑھ گئی تھی کہ بھارت نے اٹلی کے لیے اپنے نامزد سفیر بسنت گپتا کو چارج لینے کے لیے روم جانے سے روک دیا۔ دوسری طرف ان میرینز کو واپس بھیجنے پر اٹلی میں زبردست سیاسی ہنگامہ شروع ہو گیا۔ اطالوی وزیر خارجہ Giulio Terzi کو اپنے ملک میں سخت نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر انہیں اپنے عہدہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ دنیا بھر میں پیش آنے والے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں ٹانگ اڑانے والے امریکہ نے بھی اتنے اہم معاملہ سے پلّہ جھاڑ لیا۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان وکٹوریا نولینڈ سے جب اتنے اہم معاملے میں امریکہ کی طرف سے کوئی کوشش نہ ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اس معاملے میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں کیونکہ یہ بھارت اور اٹلی کا باہمی تنازع ہے۔ واضح رہے کہ بھارت اور اٹلی کے درمیان سفارتی تعلقات اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے جب بھارتی کوسٹ گارڈ کے اہلکاروں نے بحر ہند میں فائرنگ کے ایک واقعہ کے بعد اٹلی کے دو میرینز میسی ملانو لٹورے اور سلواٹورے گرونے کو گرفتا ر کر لیا تھا۔ فائرنگ کے اس واقعہ میں جنوبی بھارت کے دو ماہی گیر ہلاک ہو گئے تھے‘ ان پر مبینہ طورپر انہی دو اطالوی میرینز نے گولیاں چلائی تھیں۔ ان دونوں اطالوی میرینز کو105 دنوں تک عدالتی تحویل میں رکھنے کے بعد اس وقت ضمانت پر رہا کیا گیا جب اٹلی کے سفیر جیاکومو سین فلیسی نے کہا کہ ان دونوں کو اپنے ملک میں ووٹ ڈالنے کے لیے جانے کی اجازت دی جائے۔ اطالوی سفیر نے سپریم کورٹ کو حلفیہ یقین دہانی کرائی تھی کہ دونوں میرینز ووٹ ڈالنے کے بعد عدالتی کارروائی کا سامناکرنے کے لیے بھارت واپس آ جائیں گے لیکن صورتحال نے اس وقت سفارتی پیچیدگی اختیار کرلی، جب اٹلی کی حکومت نے11 مارچ کو اعلان کیا کہ دونوں اطالوی میرینز بھارت نہیں جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد بھارت نے نہ صرف سفارتی کوششیں تیز کر دیں بلکہ یہاں موجود اعلیٰ ترین سیاسی اداروں بشمول حکومت اور اپوزیشن نے پہلی مرتبہ ایک مغربی ملک کو اس حد تک مجبور کر دیا کہ وہ تیسری دنیا کے ایک ملک کے آگے جُھک گیا اور دونوں اطالوی میرینز کو 22 مارچ کو بھارت لوٹنا پڑا‘ حالانکہ یہ دونوں اطالوی میرینز بحرہند میں تعینات ناٹو کمان کا حصہ ہیں۔ یہ بات بھارت کے لیے طمانیت کا باعث ہے کہ ان دونوں اطالوی میرینز کو بھارت لوٹنا پڑا۔ اب عدالتی فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو۔ عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کی سماعت کے لیے ایک خصوصی بنچ قائم کر دیا ہے اور تفتیش بھی ایک مرکزی ایجنسی کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں 2011ء میں امریکی سفارت کار ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دن دیہاڑے ایک چوراہے پر فائرنگ کر کے دو پاکستانیوں کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ ایک تیسرا شخص اس کار کی زد میں آ کر جاں بحق ہو گیا تھا جو ڈیوس کو بچانے کے لئے آئی تھی۔ اس واقعہ نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات میں تلخی پیدا کر دی تھی۔ امریکہ کا دعویٰ تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی مراعات حاصل تھیں اور ویانا کنونشن کے تحت اس پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا۔ اس واقعہ کے ایک ماہ بعد ہی امریکی اہلکاروں نے انکشاف کیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس سی آئی اے کے لیے کنٹریکٹ پر کام کرتا تھا جبکہ لندن کے روزنامہ ٹیلی گراف کے مطابق وہ پاکستان میں سی آئی اے کا قائم مقام سربراہ تھا۔ اطالوی میرینز کے معاملے کے برعکس جہاں بھارت نے اٹلی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ،ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں امریکہ نے پاکستان کو اتنا مجبور کر دیا کہ امریکی وزارت خارجہ نے واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفارت خانے کے ساتھ تعلقات منقطع کر لیے اور کہا کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو بحفاظت امریکہ نہ بھیجا گیا تو دونوں ملکو ںکے درمیان دفاعی تعلقات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ بالآخر ریمنڈ ڈیوس کے خلاف عائد تمام الزامات واپس لے لیے گئے اور خون بہا لے کر اسے آزاد کر دیا گیا۔ ریمنڈ ڈیوس کو امریکی سفیر کیمرون منٹر نے ایک خصوصی جہا ز میں افغانستان میں بگرام امریکی ایئربیس پہنچایا۔یہ واقعات عالمی برادری میں دونوں ملکوں کے سفارتی اثرورسوخ‘ سیاسی اور اقتصادی خود اعتمادی‘ قومی معاملات میں تمام سیاسی پارٹیوں میں اتفاق رائے کے فرق کو اجاگر کرتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved