ہم ''ڈومینو ایفیکٹ‘‘ کے دور میں جی رہے ہیں۔ تمام چیزیں‘ تمام معاملات آپس میں یوں جڑے ہوئے ہیں کہ کسی ایک معاملے کو بگاڑیے تو بہت کچھ بگڑ جاتا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے تو کئی معاشرے زد میں آتے ہیں۔ کوئی ریاست کمزور پڑتی ہے تو پورا خطہ کمزوری کی لپیٹ میں آئے بغیر نہیں رہتا۔ سیاست‘ معیشت اور معاشرت‘ ہر حوالے سے تمام معاملات ایک دوسرے میں یوں پیوست ہیں کہ بہت کوشش کرنے پر بھی اصلاح کی صورت آسانی سے نہیں نکل پاتی۔
جنوبی ایشیا پر بڑی طاقتوں کی ہمیشہ نظر رہی ہے۔ ہر بڑی طاقت اچھی طرح جانتی ہے کہ اس خطے کا مضبوط ہونا‘ عالمی سیاست و معیشت میں ابھرنا ا ن کے مفادات کے لیے کس حد تک خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ اور یورپ نے ملک کر پاکستان اور بھارت کو خاص طور control سے زیادہ contain کرنے کی کوشش کی ہے۔ معاملات کو اصلاح یا درستی کی طرف جانے ہی نہیں دیا جاتا۔ افغانستان میں سابق سویت یونین کی لشکر کشی ایک بہانہ بنی اور امریکہ و یورپ نے پورے خطے کو مستقل بنیاد پر عدم استحکام سے دوچار رکھنے کی جامع‘ وسیع البنیاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کرلی۔ سرد جنگ کے نقطۂ عروج کے زمانے میں بھی معاملات یونہی بگاڑ کر رکھے جاتے تھے۔ سوویت یونین جب شکست و ریخت کے مرحلے میں داخل ہوا تب تو معاملات کو بگاڑنا اور بھی آسان ہوگیا۔ جنوبی ایشیا میں استحکام اور ترقی کی کلید اگر کسی کے پاس ہے تو وہ بھارت ہے۔ نئی دہلی اگر چاہے تو اپنی پالیسیوں میں توازن‘ تعقل اور استحکام پیدا کرکے اسلام آباد‘ ڈھاکہ‘ کولمبو اور کابل ‘ سبھی کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔ مگر شاید بھارتی پالیسی میکرز اب تک اِس امید پر جی رہے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی مدد سے وہ پورے خطے کو دبوچ کر وہ بھارت کو ایک بڑی طاقت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس سوچ میں جو خامی اور کمزوری پنہاں ہے وہ کسی سے پوشیدہ بھی نہیں‘ مگر اس کے باوجود سوچ کا سانچہ تبدیل کرنے کے بارے میں نہیں سوچا جارہا۔ لگی بندھی پالیسیاں اب تک اپنائی جارہی ہیں۔ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور نیپال کے حوالے سے بھارت کی جو سوچ چار پانچ دہائی پہلے تھی وہی اب بھی ہے۔ خطے کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ناطے اُسے تمام ممالک کو متوازن اور مستحکم رکھنے میں جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ کردار ادا کرنا اُس کی ترجیحات میں اب بھی بہت پیچھے ہے۔
بھارتی قیادت حتمی علاقائی بالا دستی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی فکر میں ہے اور اس کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگانے کو بھی تیار رہتی ہے۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ پاکستان سے زیادہ مسلمان تو خود بھارتی سرزمین پر بستے ہیں‘ مگر نئی دہلی کے پالیسی میکرز اس حقیقت کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں اور ان کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ اتنی بڑی اقلیت کو کسی نہ کسی حوالے سے پریشان اور تشویش میں مبتلا ہی رکھا جائے۔ انتہا پسند ہندو اب تک ریاستی پالیسیوں پر بُری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی نے ثابت کیا۔ ہے کہ وہ مسلمانوں کے حوالے سے معاندانہ رویہ ترک کرنے اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں۔ مودی سرکار کے ساڑھے چار سالہ دور میں بھارت کے مسلمان خاص طور پر پریشان رہے ہیں‘ اُن کی عمومی اجتماعی فکر کا انتشار بڑھا ہے۔ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے اواخر میں دنیا کہیں کی کہیں پہنچ چکی ہے اور بھارت کے انتہا پسند ہندو اب تک گائے کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر نفرت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف جانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ ڈیڑھ دو سال میں مسلمانوں پر گائے کے گوشت کی ترسیل یا گایوں کو ذبح کے لیے لے جانے کا بہانہ بناکر اجتماعی تشدد کا رجحان خطرناک حد تک پروان چڑھایا گیا ہے۔ کئی واقعات میں نہتے مسلمانوں کو شہید بھی کیا گیا ہے۔ رہی سہی کسر طارق فتح جیسے بے ضمیر انسانوں نے پوری کردی ہے جو انتہا پسند ہندوؤں کی ایما پر بھارتی معاشرے کو مزید تقسیم کرنے کے درپے ہیں اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ طارق فتح کو زی ٹی وی پر ''فتح کا فتوٰی‘‘ کے زیر عنوان پروگرام دیا گیا ہے جس میں گڑے مردے اکھاڑے جاتے ہیں تاکہ اعتدال کی راہ پر گامزن ہندوؤں کے جذبات بھی بھڑک اٹھیں اور وہ مسلمانوں کے لیے اپنے دلوں میں واضح مخاصمت محسوس کریں۔ یہ سب کچھ ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے اور ایسے میں اعتدال پسند اور روشن خیال ہندوؤں کی باتیں نقار خانے میں طوطی کی آواز کا درجہ حاصل کرتی جارہی ہیں۔
آج کے بھارتی معاشرے میں ایک طرف انتہا پسند ہندو اور طارق فتح جیسے نام نہاد روشن خیال مسلم ''دانشور‘‘ ہیں تو دوسری طرف رام پنیانی جیسے اہلِ ظرف و ضمیر بھی ہیں جو کسی بھی نوع کے خطرے کی پروا کیے بغیر حق بیانی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ رام پنیانی اُن دانشوروں میں سے ہیں جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی باتوں کو مسترد کرنے میں تاخیر سے بھی کام نہیں لیتے اور کسی بھی نوع کے ردعمل کی پروا بھی نہیں کرتے۔ انہوں نے بھارتی مسلمانوں پر آبادی میں بے تحاشا اضافے کے الزام کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیا ہے کہ یہ سب کچھ محض پروپیگنڈا ہے۔ اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بناکر انتہا پسند ہندو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کا ووٹ بینک سلامت رہے اور عام ہندو کبھی حقیقت کی جڑ تک پہنچ ہی نہ سکے۔ رام پنیانی کہتے ہیں کہ 1947ء میں بھارت کی مجموعی آبادی میں مسلمان 12 فیصد تھے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی آبادی میں مسلمان 14 فیصد ہیں! یعنی انتہا پسند‘ مسلمانوںکے تناسب میں صرف 2 فیصد اضافے پر ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ ذات کے اور پڑھے لکھے ہندوؤں میں آبادی کا تناسب گھٹا ہے مگر نچلی ذات کے ہندوؤں کی آبادی میں اضافے کی رفتار مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی رفتار سے زیادہ ہے!
یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ مسلمانوں کو ملی ہوئی چار شادیوں کی اجازت پر بھی بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آبادی میں اضافے کا تعلق دو‘ تین یا چار شادیوں سے نہیں بلکہ خواتین کی تعداد سے ہے۔ کسی مسلمان کی چار بیویاں ہوں یا یہ چاروں عورتیں الگ الگ مردوں کی بیویاں ہوں‘ آبادی میں اضافہ اوسط شرحِ پیدائش کے مطابق ہی ہوگا۔ رام پنیانی نے مسلمانوں کے حوالے سے بے بنیاد پروپیگنڈے کے جواب میں کہا ہے کہ 1961ء سے 1989ء تک کے باضابطہ تسلیم شدہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہر ہزار میں صرف پانچ مسلمان دو بیویوں والے ہیں‘ جبکہ ہر ہزار ہندوؤں میں دو بیویاں رکھنے والوں کی تعداد 6 ہے!
انتہا پسند ہندو مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کا رونا روتے رہتے ہیں جبکہ سرکار کی بنائی ہوئی سَچّر کمیٹی نے تو اپنی رپورٹ میں یہ کہا تھا کہ بھارتی مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کا موجودہ رجحان برقرار رہا تو چالیس پچاس سال بعد اُن کی آبادی میں اضافے کی رفتار جامد ہو جائے گی‘ یا یوں کہیے کہ ملکی آبادی میں اُن کا تناسب ایک مقام پر ٹھہرجائے جو 14 یا 15 فیصد ہوسکتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ انتہا پسند ہندو اپنے گریبان میں جھانکیں‘ محض سیاسی دکان چلانے کے لیے نفرت کی دکان چلانا بند کریں اور حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن ہوتے ہوئے ملک کو معاشرتی اور ثقافتی اعتبار سے مستحکم ہونے دیں‘ تاکہ پورے خطے میں استحکام یقینی بنانے میں مدد ملے۔ بھارت میں اعتدال پسند ہندوؤں کو نفرت کی دکان چلانے والے ''سنگھ پریوار‘‘ کے خلاف اٹھنا ہوگا۔