ایک چیز ہوتی ہے عمر اور ایک چیز ہوتی ہے اعتماد۔ اعتماد عمر سے مطابقت رکھتا ہے‘ یعنی انسان جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے‘ اس میں اعتماد بڑھتا جاتا ہے۔ اعتماد اور عمر کا تعلق اس لیے لازم ہے کہ انسان ہوتے ہوتے تجربہ کار ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا تسلیم شدہ کلیہ ہے‘ تاہم چند ایک مستثنیات بھی ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں ‘جو خاصی چھوٹی عمر میں غیر معمولی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور اُنہیں دیکھ کر لوگ حیران ہوئے بغیر نہیں رہتے۔
عزیزم ریاض عاجزؔ نے ایک قصہ سنایا۔ کچھ برس پہلے انہوں نے ایک پرانی کار خریدی تھی۔ کار کیا تھی‘ خرابیوں کا مجموعہ تھی۔ پرانی گاڑی میں کام نکلتا رہی رہتا ہے۔ دو تین دن ٹھیک چلتی ہے اور پھرمکینک کے پاس لے جانا پڑتا ہے۔ ریاض کا بھی یہی معاملہ تھا۔ کار باقاعدگی سے خراب ہوتی رہتی تھی اور کسی نہ کسی مکینک سے قلبی تعلق پیدا کرنے کی تحریک دیتی تھی!
ریاض کے گھر کے نزدیک‘ سڑک کے کنارے ایک مکینک ہوا کرتا تھا۔ ریاض نے وہاں مکینک کا سامان تو دیکھا تھا‘ مکینک کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہاں ایک لڑکا دکھائی دیتا تھا۔ ایک دن گاڑی خراب ہوئی‘ تو ریاض کسی نہ کسی طور اُسے مذکورہ ''ورکشاپ‘‘ تک لے گئے۔ وہاں جب مکینک کو نہ پایا تو ریاض نے پوچھا: استاد کہاں ہے؟ ''چھوٹے‘‘ نے جواب دیا ''وہ تو کام سے گئے ہیں۔ پتا نہیں کب آئیں گے۔ آپ کہیں تو میں گاڑی دیکھ لوں؟‘‘ ریاض نے سوچا جمعہ جمعہ آٹھ دن کا چھوکرا بھلا کیا دیکھے گا‘ مگر پھر دل توڑنا مناسب نہ جانا اور گاڑی کو چیک کرنے کی اجازت دے دی۔ ''چھوٹے‘‘ نے ''چیک اپ‘‘ شروع کیا اور چار پانچ منٹ میں کوئی تکڑم لگاکر گاڑی سٹارٹ کردی! ریاض کو بس اتنا ہی تو درکار تھا۔ استاد کا انتظار کیے بغیر چھوٹے کو پیسے دے کر گاڑی کے ساتھ ریاض نے اپنی راہ لی۔
کچھ دن بعد گاڑی پھر خراب ہوئی۔ پھر وہی معاملہ ہوا۔ ریاض نے اُس دن بھی ورکشاپ میں استاد کو نہ پایا۔ پھر چھوٹے نے مدد کی پیشکش کی جو ریاض نے‘ ظاہر ہے‘ قبول کی۔ کوئی اور آپشن نہیں تھا۔
پھر گاڑی چیک کی گئی اور درست بھی کردی گئی۔ چھوٹے نے معمولی سے چارجز لیے اور ریاض نے گاڑی کے ساتھ پھر اپنی راہ لی۔
کچھ دن بعد پھر یہی ہوا۔ اس بار ریاض اور چھوٹا دونوں ہی ''ہیٹ ٹرک‘‘ پر تھے! ریاض نے گاڑی کی خرابی دور کروانے کے بعد چھوٹے سے پوچھا ''ابے یہ بتا‘ تیرا استاد کہاں غائب رہتا ہے؟‘‘
چھوٹے نے رازدارانہ لہجے میں جواب دیا ''بھائی صاحب‘ میں ہی تو اُستاد ہوں!‘‘ مزید استفسار کیا کہ جو استاد ہے ہی نہیں‘ اُس کا ذکر کیوں کیا جاتا ہے‘ تو جواب ملا کہ لوگ کم عمر دیکھ کر بھروسہ نہیں کرتے۔ انہیں یقین ہی نہیں آتا کہ کوئی لڑکا بند گاڑی کو سٹارٹ کرسکتا ہے! ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں‘ جس میں ہر معاملے‘ ہر صلاحیت اور ہر مہارت کو عمر سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ طے کرلیا گیا ہے کہ جس کی عمر بیس تا پچیس سال ہوگی ‘وہی عملی زندگی شروع کرنے کی پوزیشن میں ہوگا اور اس کی اہلیت بھی رکھتا ہوگا؛اگر کوئی چھوٹی عمر میں ڈھنگ سے کام کرتا ہوا پایا جائے‘ تو لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔ اپنی ہی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔
ماسٹر مدن کا بھی یہی کیس تھا۔ 28 دسمبر 1927ء کو پیداہوئے اور 5 جون 1942ء کو چل بسے۔ صرف ساڑھے چودہ سال کی عمر میں انہوں نے گلوکار کی حیثیت سے ایسا نام کمایا کہ دنیا آج بھی انہیں جانتی ہے۔ بہت چھوٹی عمر سے گانا شروع کیا اور بارہ سال کے ہوتے ہوتے اُن کی ریکارڈنگز بھی شروع ہوگئیں۔ تب ریکارڈنگ خاصا بڑا جھنجھٹ تھا۔ کم ہی گانے والوں کو مائیکروفون کے سامنے کھڑے ہونے کا موقع مل پاتا تھا۔ ماسٹر مدن کے آٹھ آئٹم دستیاب ہیں۔ یہ آٹھ آئٹم انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی گائی ہوئی ایک غزل ؎
حیرت سے تک رہا ہے جہانِ وفا مجھے
تو نے بنا دیا ہے محبت میں کیا مجھے
غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار ہوئی۔ ماسٹر مدن نے ٹھمری بھی گائی اور دو پنجابی گانے بھی ان کے حساب میں ہیں۔ تب بھی لوگوں کو یقین نہیں آیا تھا کہ کوئی بچہ اتنی پختگی سے گا سکتا ہے۔ آج بھی لوگوں کو سُن کر حیرت ہوتی ہے کہ محض گیارہ بارہ سال کی عمر میں جس نے یہ آئٹم ریکارڈ کرائے‘ اُس کی صلاحیتوں کا عالم کیا ہوگا۔ ماسٹر مدن کا انتقال بہت چھوٹی عمر میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ کسی حاسد نے گلا بٹھانے کے لیے انہیں کھانے کی کسی چیز میں سِندور دے دیا تھا!
خیر‘ بات یہ ہو رہی ہے کہ ہم ایک ایسے ماحول میں جی رہے ہیں‘ جس میں لیاقت کو عمر اور تجربے سے ماپا اور تولا جاتا ہے۔ کسی میں چھوٹی عمر ہی سے غیر معمولی لیاقت پائی جاتی ہو تو اُسے حیرت سے دیکھا جاتا ہے اور بالعموم قبول نہیں کیا جاتا۔ بہت سے بچے پڑھنے میں ایسے تیز ہوتے ہیں کہ تیزی سے تمام مراحل سے گزرتے ہوئے خاصی چھوٹی عمر میں پڑھانے پر مامور ہو جاتے ہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں ٹیچر کا تصور یہ ہے کہ وہ تیس اور چالیس سال کے درمیان کی عمر کا ہو اور ٹیچر دکھائی بھی دیتا ہو؛ اگر کوئی بیس بائیس سال کی عمر میں کالج کی سطح پر پڑھاتا دکھائی دے تو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ نوجوان پڑھا بھی سکتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ''ڈیمو‘‘ دیکھ کر بھی عام آدمی کا ذہن اس حقیقت کو بہت مشکل سے تسلیم اور قبول کرتا ہے۔
یہ معاملہ جنریشن گیپ کا ہے‘ جس کے باعث ہمارے ہاں اچھا خاصا ٹیلنٹ ضائع ہو جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک بنیادی پیراڈائم یہ ہے کہ کسی کو اگر قبول کرنا ہے تو چند مخصوص مراحل سے گزرنے پر ہی قبول کرنا ہے؛ اگر کسی کو پڑھانے کے لیے کلاس روم میں کھڑا کرنا ہے ‘تو ایک خاص مرحلے سے گزار کر‘ ایک مخصوص SOP کے تحت ہی کھڑا کرنا ہے۔ بہت سے لڑکے کھیلوں میں انتہائی قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہیں ‘مگر سلیکشن کا طریق کار ایسا ہے کہ براہِ راست منتخب نہیں کیا جاسکتا؛ اگر کسی کو قومی کرکٹ ٹیم میں آنا ہے‘ تو نچلے درجے سے شروع ہوکر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے ہوئے آنا پڑے گا۔ بات تو ٹھیک ہے‘ ہر معاملے کا ایک طریق کار ہونا ہی چاہیے‘ مگر یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بعض کیسز خاص ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ غیر معمولی صلاحیت کے ساتھ اس دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور بہت چھوٹی عمر سے صلاحیت کا اظہار شروع کردیتے ہیں۔
زمانے کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ نئی نسل بہت کچھ حاصل کرتی جارہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ نئی نسل کے ذہنوں میں داخل ہونے والا بیشتر مواد منفی نوعیت کا ہے‘ مگر یہ بھی تو ماننا پڑے گا کہ بعض بچے بہت تیزی سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں اور مختلف شعبوں میں ہمیں خاصی چھوٹی عمر کے پروفیشنلز دکھائی دے رہے ہیں۔ معاشرہ اب تک ''چھوٹوں‘‘ کو ڈھنگ سے قبول نہیں کر پارہا اور ''استادوں‘‘ کے انتظار میں ہے۔ جہاں چھوٹے ہی سب کچھ کر رہے ہوں سمجھ لیجیے کہ وہاں کوئی استاد نہیں۔ چھوٹے ہی استاد ہیں۔ چھوٹی عمر ہی میں دکھائی دے جانے والی صلاحیت کو قبول کرنے والی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کو اس طرف آنا ہی پڑے گا‘ تاکہ ہماری نئی نسل حوصلہ پاکر کچھ نہیں‘ بلکہ بہت کچھ کرنے کے قابل ہوسکے۔