تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     08-10-2018

یہ کون ہو سکتا ہے ؟

یہ غالباً 1989ء کی بات ہے ‘وزیر اعظم ہائوس میں پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے ایک اہم وفاقی عہدے پر تعینات شخصیت ‘اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو توانائی کے ایک منصوبے پر بریفنگ دیتے ہوئے اچانک بولے: ''میڈم پرائم منسٹر! اگر آپ چاہتی ہیں کہ آئی پی پی والا منصوبہ کامیاب ہو تو آپ کو کالا باغ ڈیم کی مخالفت شروع کرنی ہو گی ‘اس سے سندھ کی چابی مکمل طور پر آپ کے ہاتھوں میں آ جائے گی ‘‘ جس پر زرداری صاحب بولے: ''میری رائے ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے انٹرنیشنل پرائیویٹ پاور پلانٹس کے معاہدوں پر دستخط کرنے سے پہلے کالا باغ ڈیم کو جس قدر ہو سکے متنازعہ بنا دینا چاہئے‘ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا ‘تو پھر ہمیں انٹرنیشنل پاور پلانٹس پر پنجاب اور خاص طور پر جی ایچ کیو کی جانب سے سخت مخالفت شروع کر دی جائے گی کہ ان آئی پی پیز کی بجائے کالا باغ ڈیم پر کام کیا جائے‘ جو سستا بھی ہے اور بجلی بھی سستی ملے گی اور کسان کو پانی بھی ہر وقت اور وافر ملے گا ۔
پھر کیا ہوا؟ اگلے ہی ہفتے ‘ان صاحب کی جانب سے کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں بے بنیاد قسم کے الزامات پر مشتمل مواد‘ جس میں سندھ کاپانی ختم‘ سمندری حیات کا خاتمہ اور کے پی کے میں نوشہرہ ڈوبنے اور مردان سمیت ڈیرہ اسماعیل جیسے علا قوں کی تباہی کے خود ساختہ منا ظر سندھ کی ترقی پسند اور علیحدگی کی تحریک چلانے والوں کے علاوہ ولی خان اینڈ گروپ کے حوالے کر دیئے گئے اور انہیں ہر طرح سے مدد بھی مہیا کر دی گئی‘ تاکہ یہ لوگ جلسے جلوس اور ریلیاں کرنے کے علا وہ وسیع پیمانے پر علا قائی زبانوں میں تشہیری مہم شروع کر دیں اور دوسری جانب کچھ ایسے ذرائع اختیار کئے گئے‘ جن سے کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں دیئے جانے والے ہر قسم کے بیانات اور جلسے ریلیوں کو میڈیا میں وسیع کوریج مل سکے‘یوں اس حمام میں بہت سے لکھا ری بھی غوطے لگانے لگے۔ اس طرح پاکستانی قوم کو زراعت اور صنعت کیلئے خوشیوں کا پیغام بننے والے پانی اور بجلی کے اس ہائیڈل پاور سٹیشن کو متنازعہ بناتے ہوئے دو فریقوں کے طور پر ایک دوسرے کے مقابل لا کر کھڑا کر دیا گیا۔
آج ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے گزارش ہے کہ کیا‘ وہ اس شخصیت کا کھوج لگاتے ہوئے ‘اس کا نام ملک اور قوم کے سامنے لانے کا نیک کام انجام دیں گے؟کیونکہ اس شخص کو ملک میں نفرت کا بیج بونے اور ملکی خزانوں کو تباہ و برباد کرنے کی اس تجویز کے صلے میں غیر قانونی طریقے سے فیڈرل سیکرٹری مقرر کر دیا گیا تھا‘جس کی ملکی تاریخ میں ایک بھی مثال نہیں ملتی۔آج یہ شخص سنا ہے کہ حکومت پاکستان کے خزانے سے‘ جسے اس نے تباہ و برباد کیا‘ لاکھوں روپے پنشن وصول کررہا ہے۔
وہ گردشی قرضے اور آئی پی پیز جن سے میرے وطن عزیز پاکستان کی بد قسمتی اس طرح شروع ہوتی ہے کہ ہر چھ ماہ بعد اربوں روپے کے گردشی قرضے اور مہنگائی کے دن بدن مسلسل بڑھنے والے اس طوفان نے اپنا تیز رفتار سفر شروع کر دیا‘ جس نے ہر غریب اور متوسط طبقے کو ایک طرف تو ملک کے ہر صنعتی اور تجارتی ادارے کے علا وہ کمرشل سمجھی جانے والی ہر دُکان اور چھوٹی بڑی ہر ورکشاپ تک کو آہنی جبڑے میں جکڑ رکھا ہے۔یہ آہنی جبڑاوہ آئی پی پیز ہے‘جن کے گردشی قرضے میاں نواز شریف نے2013ء جون میں بطور وزیر اعظم اقتدار سنبھالنے کے چھے ماہ بعد480 ارب روپے ادا کئے اور جب نواز لیگ کی2018ء مئی میں حکومتی مدت پوری ہوئی‘ تو جاتے ہوئے 1180 ارب روپے گردشی قرضوں کی صورت میں عمران خان کی نئی حکومت کی گردن پر لاد کر چلتی بنی۔ ظلم کی انتہاء دیکھئے کہ نواز لیگ کی حکومت نے اپنی حکومت کے صرف آخری سال میں 473 ارب روپے کاگردشی قرضہ ملک کی کمزور معیشت پر لاد دیا صرف یہ بتانے کیلئے انہوں نے ملک میں لوڈ شیڈنگ ختم کر دی ہے‘کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اگلا انتخاب جیت کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے ‘اس لئے جو بھی بوجھ ڈالنا ہے ‘نئی حکومت پر ڈال دیا جائے۔ ذہن نشین رہے کہ بھاشا ڈیم بنانے کیلئے پاکستان کو چودہ سوارب روپے کی ضرورت ہے اور اگر میاں نوازشریف کا آئی پی پیز کا لادا ہوا گیارہ سو اسی روپے کا یہ گردشی قرضہ پاکستان پر نہ لادا جاتا‘ تو بھاشا ڈیم کیلئے ہمیں کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ انٹرنیشنل پاور پلانٹس نے اس ملک کا اس طرح حشر نشر کیا کہ انہیں سب سے پہلے مہنگے ترین فرنس آئل سے چلایا جانے لگا اور اب کچھ سال سے اس ملک کے غریب عوام کے استعمال میں آنے والی قدرتی گیس کے آدھے سے زائد حصے کو ان پاور پلانٹس کے حوالے کر دیا گیا ہے اور میری طرح شاید پاکستانی قوم بھی اس سے بے خبر ہو گی کہ ان پاور پلانٹس میں مبینہ طور پر امریکہ کے ایک سابق صدر کی اہلیہ اور برطانیہ کے ایک سابق وزیر اعظم کی کمپنی بھی حصہ دار تھی اورمیاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں‘ جب واپڈا کے اربوں روپے کے واجب الادا بلوں کی ادائیگیوں کیلئے فوج کو واپڈا کی مدد کیلئے بلایا گیا‘ تو اس وقت انہی دو شخصیات کی کمپنیوں کے بھاری بقایا جات ادا کرنے کیلئے نواز شریف نے فوج کو بجلی کے میٹروں کے گرد کھڑا کر کے جگہ جگہ ذلیل کیا‘ قوم بھولی نہیں ہو گی کہ ایک ہزار سے زائد کے بقایا جات ا دا نہ کرنے والوں کے میٹر کاٹنے کے بعد ان کو گرفتار کیا جا رہا تھا‘ جس پر اس وقت راقم نے ان دو غیر ملکی سربراہان کی مبینہ حصے داری پر ایک تفصیلی کالم ایک قومی روزنامے میں لکھتے ہوئے اس ملی بھگت کا راز فاش کیا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے آئی پی پیز سے وارے نیارے کرانے والی یہ شخصیت جلد ہی محترمہ کے اس قدر قریب ہو گئی کہ بڑے بڑے افسران اپنی تعیناتیوں اور بزنس مین‘ صنعت کار اور بینک کے سربراہان ان کے گرد گھومنا شروع ہو گئے۔ با خبر ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطا بق‘ جب بھارت دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم بنانے لگا تو کہا جاتا رہاکہ یہی شخصیت اس ٹیم کی سربراہ تھی‘ جو اسے روکنے کیلئے عالمی عدالت میں پاکستان کا مقدمہ تیار کر رہی تھی‘لیکن اس شخصیت نے اسے تیار کرنے میں تین سال لگا دیئے اور بھارت نے ان تین برس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بگلیہار ڈیم کا60 فیصد حصہ مکمل کر لیا اور یوں پاکستان یہ کیس ہار نے کی وجہ سے بھارت کے بگلیہار ڈیم کو نہ روک سکا۔ ان صاحب نے پاکستان پر اس طرح وار کیا کہ بگلیہار ڈیم کی تعمیر کے خلاف سماعت کے دوران عالمی عدالت پر مشتمل جیوری کے ایک غیر جانبدار رکن کے ساتھ نا مناسب اور غیر اخلاقی رویہ اختیار کرتے ہوئے تمام اراکین کو ناراض کر دیا۔
کوئی تو آگے بڑھ کر ڈھونڈ نکالے گا کہ یہ شخصیت کون ہے ؟مجھے یقین ہے کہ یہ شخصیت جو بھی ہو گی‘ اسے کٹہرے میں لاتے ہوئے وہ سزا دی جائے کہ پھر کسی کو اس ملک سے کھلواڑ کرنا تو ایک طرف‘ اس قسم کی حرکت سوچنے کی بھی ہمت نہ ہو۔ جب یہ کالم لکھ رہا تھا‘ تو قومی اسمبلی میں ضمنی بجٹ کی منظوری کے موقع پر ایوان میں کی جانے والی تقاریر میں نیلم جہلم کا بھی ذکر سننے کو ملا ‘لیکن ایوان میں موجود اور سابقہ حکومتوں کے سربراہان نے یہ نہیں بتا یا کہ وہ کون تھا‘ جس نے نیلم جہلم کا پی سی ون جان بوجھ کر اس وقت تک‘ جب پاکستان معاشی طور پر اس پراجیکٹ کو مکمل کرنے کی پوزیشن تھا‘ تو اسے روکے رکھنے کی ہدایت جاری کی تھیں ؟آخر یہ کون ہو سکتا ہے؟
( نوٹ:یہ مضمون مکمل ہوا تو خبر آئی کہ مہاتیر محمد کے حکم سے ملائشیا کے سابق وزیر اعظم کی اہلیہ کو کھربوں روپے کرپشن میں گرفتار کرلیا گیا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved