تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     09-10-2018

استحکام یا انتقام؟

شہبازشریف کی گرفتاری محض ایک واقعہ نہیں ‘مستقبل کی خبرہے‘ جو شدید اندیشوں میں گھرا ہوا ہے۔وزرا جس واقعے کے سیا ق و سباق پرگفتگو کریں اور پیش گوئی بھی‘اس کا انتساب حکومت ہی کی طرف ہوگا‘چاہے سرِ محضرمہرکسی اور کی ہو۔
حکومت نے ‘معلوم یہ ہو تا ہے کہ انتقام کے راستے کا انتخاب کر لیا ہے‘جسے احتساب کا عنوان دیا جا رہا ہے۔انتقام کے خمیر میںخیر نہیں ہے۔یہ فرد ہو یاجماعت ‘ جو اس کے راستے پر چلے گا‘یہ اس کو بر باد کر دے گا۔انقلابی قوتوں نے انسانیت کو فساد کے سوا کچھ نہیں دیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب انتقام کی نفسیات سے جنم لیتا اور انتقام ہی کوجنم دیتا ہے۔
معاشی اعتبار سے کمزور اور سیاسی حوالے سے منقسم ایک قوم کا اصل مسئلہ احتساب نہیں ‘ استحکام ہو تا ہے۔استحکام ہی کے لیے ریاست قائم ہوتی ہے اور حکومت بھی۔پاکستان آج جس عدم استحکام کا شکارہے‘کسی صاحبِ بصیرت کے لیے یہ ممکن نہیںکہ وہ اس کے علاوہ کسی دوسری بات کے بارے میں سوچے۔مجھے حیرت ہوگی کہ حکمران سارا زور انتقام پر صرف کردیں اور ملک کو نئے فساد کی راہ پر ڈال دیں۔کاش ان لوگوں نے تاریخ کو پڑھا ہوتا۔کاش !یہ علم سیاسیات وعمرانیات کے مبادیات ہی سے واقف ہوتے ۔
ایک عالمی مسلم ریاست کو کس بات نے انتشارکے راستے پر ڈالا؟کیا ہم جانتے ہیں کہ یہ اختلاف کیا تھا؟یہ اختلاف تھا؛استحکام یا انتقام؟اس اختلاف کے نتائج اتنے سنگین ہوئے کہ مسلمان اس کے بعد‘آج تک ایک مصلے پر نماز نہیں پڑھ سکے۔سیدنا عثمان ؓ کی پیش گوئی پوری ہوئی‘ جو انہوں نے اپنی شہادت سے پہلے کی تھی۔
بلوائیوں نے خلیفہ وقت کو شہید کر دیا اورمدینے میں فساد پھیل گیا۔عملاً حکومت کا کہیں وجودنہیں تھا۔کوئی ریاست حکومت کے بغیر تادیر قائم نہیں رہ سکتی۔اہلِ مدینہ کو فوری فیصلہ کرنا تھا۔انہوں نے اپنے درمیان موجود سب سے بڑے اور معتبرآدمی سیدنا علیؓکا انتخاب کر لیا۔سیدنا عثمانؓ کی شہادت کی خبر سیدنامعاویہؓ تک پہنچی ‘تووہ انتقامِ عثمانؓ کا عَلم لے کر کھڑے ہوگئے۔ان کا موقف تھا کہ پہلے حضرت عثمانؓ کا انتقام لیا جا ئے اور پھر کوئی نظمِ حکومت قائم ہو۔اس کے برخلاف سید نا علیؓ کا کہناتھا کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی استحکام اور معاشرے کو مزیدفساد سے بچانا ہے۔حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو سزا دی جا ئے گی‘ مگراس سے پہلے استحکام ضروری ہے۔ ان کی بات نہیں مانی گئی۔انتقام پر اصرا رکیا گیا۔استحکام یا انتقام‘ اس اختلاف کا نتیجہ دو جنگوں کی صورت میں نکلا۔ہزاروں افرادمارے گئے۔ایک الم ناک تاریخ رقم ہوئی۔مسلمان اس کے نتیجے میں آج تک فرقہ واریت کے عذاب میں مبتلاہیں۔سیاسی استحکام ایسا رخصت ہوا کہ آج تک واپس نہ آیا۔انتقام کی اسی تاریخ کو سانحہ کربلا کے بعد دھرایا گیا۔اہلِ بیت کے انتقام کے نام پر مختار ثقفی کی قیادت میں تحریک اٹھی اور بنو امیہ کو نشانہ بنا یا گیا۔یہی انتقام تھا ‘جس نے بنو امیہ اور بنو عباس کے مابین خون ریز واقعات کو جنم دیا۔
سیدنا عثمانؓ کی شہادت معمولی واقعہ نہیں تھی۔وہ خلیفہ وقت ہی نہیں‘ اللہ کے آخری رسولﷺکے داماد بھی تھے۔ذو النورین تھے۔ان کے قاتل مدینہ میں مو جود تھے۔سیدنا علیؓ نے انہیں گوارا کیا کہ اس موقع پر انتقام اور سزا کی بات کا مطلب مسلمانوں کو پھر ایک خلفشار میں مبتلا کرناتھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ قاتل سیاسی عصبیت رکھتے تھے۔ان کا ایک گروہ تھا؛اگر ان کے خلاف اقدام کیا جا تا تو مدینہ ایک نئے انتشار میں مبتلا ہو جا تا۔سیاسی بصیرت کا تقاضا یہی تھا کہ سیاسی استحکام کو اولیت دی جا ئے۔سید نا علیؓ کی بات مان لی جاتی تومسلمانوں کی تاریخ یقیناً مختلف ہوتی۔
تاریخ عبرت کے لیے ہوتی ہے۔تحریکِ انصاف کے لیے ایک ہی بہتر راستہ تھا۔قوم کے سامنے ایک میثاقِ معیشت رکھتی اور ایک میثاقِ سیاست بھی۔ پارلیمان کی معرفت ان پرقومی اتفاقِ رائے پیدا کرتی۔سب کے تعاون سے اس پر عمل درآمد کا آغاز کرتی۔میثاقِ معیشت کا ایک نکتہ احتساب بھی ہوتا۔پارلیمان میں طے کیا جاتا کہ احتساب کا ایک شفاف نظام کیسے تشکیل دیاجا سکتا ہے۔پہلے نظام بنتا اور پھر تحقیق کے بعد مجرموں کو سزا ملتی۔اس میں کسی عجلت کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔اس سے جہاں ملک سیاسی طور پر مستحکم ہو تا‘وہاں ایک قابل بھروسہ احتساب کا نظام بھی قائم ہو جا تا۔ 
عمران خان اپنی افتادِ طبع کے اسیر ہیں۔وہ اس کی گرفت سے نکل نہیں سکے۔وہ ملک کو بدلنے کی بات کرتے ہیں مگرخود کو بدل نہیں سکے۔یہی وجہ ہے کہ بطور اپوزیشن لیڈر اور بحیثیت وزیراعظم‘ان کے رویے میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیا۔وزیر اطلاعات کا لب ولہجے کو ان کی مکمل تائید حاصل ہے۔صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ استحکام پر انتقام کو ترجیح دے رہے ہیں۔اس انتقام کو احتساب کا نام دیا جا رہا ہے۔شہبازشریف دراصل وہ پل تھے جو مسلم لیگ اورحقیقی اقتدار کے مابین فاصلوںکو کم کر سکتے تھے۔اس پل کو بھی اب توڑ دیا گیا ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں تلخی مزید بڑھے گی۔یہ عجیب واقعہ ہو گا کہ تلخی میں اضافے کے اسباب حکومت فراہم کر رہی ہے۔اگر یہ سوچی سمجھی حکمت ِ عملی ہے تو اس مقدمے کو مانے بغیر چارہ نہیں کہ وہ خودایک احتجاجی تحریک کو دعوت دے رہی ہے تاکہ اپنی ناکامیوں کا کوئی جواز تلاش کر سکے۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ماننا ہوگا کہ سیاسی بصیرت کا اقتدار کے ایوانوں میں کوئی گزر نہیں۔
میرا خیال ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری مسلم لیگ میں نوازشریف صاحب کے بیانیے کی تقویت کا باعث بنے گی۔اب نون لیگ میں مصالحت کے حامیوں کے پاس کوئی دلیل نہیں رہی۔اب ان کے لیے صرف ایک راستہ کھلا ہے: مزاحمت۔یہ مزاحمت دراصل کس کے خلاف ہوگی‘اس سوال کا جواب تلاش کر نا اب کسی کے لے مشکل نہیں۔اگرحکومت یہ دعویٰ کرے کہ فوج اور عدلیہ اس کی پشت پر کھڑے ہیں تو پھر حکومتی اقدامات کا انتساب صرف حکومت کے نام نہیں رہتا۔
پاکستان ایک نئے اور گھبیر بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔مسلم لیگ اب تک اپنا مقدمہ عدالتوں میں لڑ تی آئی ہے۔حکومت اورنیب کے اقدامات نظامِ عدل اور مسلم لیگ کے رشتے کو کمزور کر رہے ہیں۔اس روش کا ناگزیر نتیجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ عدالتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے‘سڑکوں کا رخ کرے۔اس کو پھرروکانہیں جا سکتا۔جب ریاست کے ا داروں پر‘کسی ایسے گروہ کا اعتماد باقی نہ رہے جسے سیاسی عصبیت بھی حاصل ہو تو پھر ملک انارکی کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔عمران خان کو یاد ہوگا کہ وہ دھرنے کے دنوں میں مایوسی کے ایسے ہی ایک لمحے میں سول نافرمانی کاا علان کر چکے ہیں۔یہ الگ بات کہ عوام نے اسے قبول نہیں کیا۔
ریاست آج دوراہے پر کھڑی ہے:استحکام یا انتقام؟ ہر انتخاب کا ایک نتیجہ ہے جو معلوم ہے۔استحکام کا ایک نتیجہ ہے‘ جس کے ثمرات عقلِ عام سے پوشیدہ نہیں۔انتقام کے نتائج پربھی تاریخ کی گواہی ثبت ہے۔یہ انتخاب صاحبان ِ اقتدار کو کرنا ہے۔اس میں سب شامل ہیں۔وہ جو سامنے ہیں اور وہ بھی جو پشت پر کھڑے ہیں۔شہبازشریف صاحب کے مقدمے کی حقیقت عام آدمی پر بھی واضح ہے۔جن لوگوں نے ان کے ساتھ کام کیا ہے‘وہ ان کی دیانت کی گواہی دیتے ہیں۔نوازشریف کے خلاف نیب عدالت کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی توضیحات بھی۔کرپشن ثابت کرنے کے لیے ہر پتھر الٹایا جا رہا‘ مگر گوہرِ مراد ہاتھ نہیں آ رہا۔
اس وقت سے پناہ مانگنی چاہیے جب کوئی سیاسی گروہ ریاستی اداروں پر عدم اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے‘جن کے پاس اقتدار ہے‘انہیں اس تاریخ کو ضرور پڑھ لینا چاہیے ‘جسے انتقام کی سیاہی سے لکھا گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved