ہزاروں سال کے عمل میں انسان نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس عمل میں اُس نے بہت کچھ اپنایا ہے اور بہت کچھ ترک بھی کیا ہے۔ جو کچھ بھی اپنایا ہے‘ اُسے قبول کرنے کی غایت یہ تھی کہ زندگی زیادہ بامعنی اور بامقصد ہو۔ دوسری طرف جو کچھ چھوڑا ہے ‘وہ اُس کی نظر میں کسی کام نہ تھا‘ بلکہ نقصان دہ تھا۔ انسان جب بھی کوئی چیز اپناتا ہے تو اُس کی افادیت کو ذہن نشین رکھتا ہے اور جب کچھ چھوڑتا ہے تو اُسے پورا یقین ہوتا ہے کہ وہ چیز نقصان دہ تھی اور اُس کا چھوڑ دینا ہی بہتر تھا؛ اگر یہ سوچ نہ ہو تو انسان نہ تو کچھ اپنائے اور نہ کچھ ترک کرے۔
بہت کچھ ایسا ہے جو کل بھی نقصان دہ تھا اور آج بھی ضرر پہنچائے بغیر نہیں رہتا‘ پھر بھی انسان اُس سے جان چھڑانے کے بارے میں کم ہی سوچتا ہے۔ خود پرستی ہی کو لیجیے۔ ہر دور کا انسان اس مرض میں اِس طور مبتلا رہا ہے کہ اس کا بہت کچھ داؤ پر لگتا رہا ہے۔ خود پرستی کے ہاتھوں کبھی کبھی انسان کو اس حد تک بھی نقصان پہنچتا ہے کہ تلافی یا ازالے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی‘ پھر بھی انسان اس مرض کو اپنے وجود سے الگ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
کیوں؟ اس لیے کہ معاملہ ہے بہت دل فریب اور پرکشش۔ انسان کے حالات خواہ کچھ ہوں‘ خود پسندی اور خود پرستی ہی اُس کا محبوب ترین رجحان رہا ہے۔ جنہیں دنیا جھک کر سلام کرتی ہے‘ وہ بھی اپنے وجود میں زیادہ گم ہو جاتے ہیں اور اپنی پرستش کرنے لگتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے‘ جب کسی انسان کو دنیا سلام کرتی ہے تو ذہن میں سب سے پہلے یہی خیال ابھرتا ہے کہ وہ باقی دنیا سے مختلف ہی نہیں‘ برتر بھی ہے۔ یہ خیال باقی ہر معقول بات کا گلا گھونٹ دیتا ہے اور اگر کسی کا ذرا بھی احترام نہ کیا جاتا ہو‘ کوئی گھاس ہی نہ ڈالتا ہو تو وہ بھی خود پرستی ہی کا سہارا لیتا ہے۔ کسی کی نظر میں بلند نہ ہو پانے کی صورت میں انسان کم از کم اپنی نظر میں بلند ہونے کا سوچتا ہے اور پھر یہ فکری رجحان پنپتے پنپتے ایسا بگڑتا ہے‘ انسان کو اپنی ذات سے آگے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔
کبھی ہم نے اس عظیم نکتے پر غور کیا ہے کہ ہم اس دنیا میں محض اس لیے بھیجے گئے ہیںکہ کسی کے کام آئیں اور کسی سے کام لیں؟ حقیقت یہی ہے کہ انسان معاشرتی جانور ہے تو اُسے دوسروں سے اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں‘ زیادہ سے زیادہ اشتراکِ عمل کی گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔ جب انسان کسی بھی محرک کے ہاتھوں خود پرستی میں مبتلا ہوتا ہے تب معاشرے سے اس کا تعلق کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایسے میں وہ دوسروں سے مستفید ہونے کے بارے میں سوچتا ہے نہ انہیں اپنے وجود سے استفادے کا موقع دیتا ہے۔ یہ گویا اپنے وجود کو بند گلی میں پہنچانا ہے۔ خود پسندی کو پروان چڑھاتے انسان خود پرستی کے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ اور یہ راستہ صرف تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔
ہم جب تک اپنی ذات سے بلند ہوکر دوسروں میں دلچسپی نہیں لیتے تب تک ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہماری زندگی میں دوسروں کی خوبیاں اور صلاحیتیں کیسا اور کتنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ دنیا کے ہر انسان کا انتہائی بنیادی کام یہ ہے کہ دوسروں کے کام آئے۔ اسی صورت دوسرے بھی اُس کے کام آتے ہیں۔ زندگی کی گاڑی اسی طور چل سکتی ہے اور چلتی ہے۔
خود پسندی اور خود پرستی کے جال میں پھنسنے کے بعد انسان اپنی ذات سے آگے نہیں دیکھتا۔ اُسے اس بات کا یقین ہی نہیں ہوتا کہ کوئی اُس سے بھی بہتر سوچ سکتا ہے۔ وہ خود کو عقلِ کل سمجھنے لگتا ہے اور پھر دوسروں کو مسترد کرنا اُس کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔ جب تک انسان دوسروں کو باصلاحیت اور اہل تسلیم نہیں کرتا تب تک اُن کے ساتھ اشتراکِ عمل کے لیے اپنے ذہن کو تیار بھی نہیں کر پاتا۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو اللہ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اپنی تمام صلاحیتوں کو پہچاننے‘ پروان چڑھانے اور بروئے کار لانے میںکم ہی لوگ کامیاب ہو پاتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اپنے وجود کی تمام خوبیوں اور خامیوں کو شناخت کرنا‘ خوبیوں کو پروان چڑھانا اور خامیوں کو خیرباد کہنا ہر انسان کے لیے کوئی سہل مرحلہ نہیں ہوتا۔ اس کے لیے پوری توجہ کے ساتھ بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔
اگر آپ نے اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے‘ اپنے کیریئر میں پیش رفت یقینی بنانے اور اپنے وجود کو اپ گریڈ کرنے کے لیے محنت کی ہے تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ دوسروں نے اپنے آپ کو اپ گریڈ کرنے پر کتنی محنت کی ہوگی۔ جو محنت کرتا ہے وہ محنت کرنے والوں کو پسند کرتا ہے کیونکہ اُسے اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ جو پریشانیاں اُس نے جھیلی ہیں وہی دوسروں نے بھی جھیلی ہوں گی۔
بہر کیف‘ جب انسان اپنے وجود سے آگے بڑھتا ہے ‘تب اُسے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو انتہائی باصلاحیت اور باکمال ہیں اور جن سے وہ بہت حد تک استفادہ کرسکتا ہے۔ ؎
انا کی گرد چَھٹی ہے تو ہم نے دیکھا ہے
فریبِ ذات سے آگے بھی ایک دنیا ہے!
ہم جس تیز رفتار دور میں جی رہے ہیں اُس میں صرف تیزی ہی نہیں‘ پیچیدگی بھی ہے۔ یہ پیچیدگی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنی ذات تک محدود نہ رہیں‘ بلکہ دوسروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی یقینی بنائیں۔ ہمیں سب کچھ تنہا نہیں کرنا۔ بہت سے کام دوسروں سے کرانے ہیں۔ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔ دوسری طرف ہمیں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر بھی متوجہ رہنا ہے‘ تاکہ دنیا کو ہم میں زیادہ سے زیادہ افادیت محسوس ہو اور وہ ہم سے بھی مستفید ہونے کا سوچے۔ یہ دو طرفہ عمل ہے اور اس عمل ہی کی بنیاد پر دنیا کا کاروبار چلتا ہے‘ اس کا معیار بلند ہوتا ہے۔
روئے زمین پر خواہ کچھ دکھائی دے رہا ہو‘ انسان کے اندر بہت کچھ ویسا کا ویسا ہی رہتا ہے۔ اُس کے باطن میں بہت کچھ ہے جو اب بھی اصلاح طلب ہے۔ بہت سی بُری عادتیں انسان اب تک نہیں چھوڑ پایا اور بہت سے محاسن اپنے اندر سمونے کی اب بھی اشد ضرورت ہے۔ خود پرستی کا زہر پینے یا پیتے رہنے والے محدود رہ جاتے ہیں۔ اُن کی صلاحیتوں میں نکھار کے پیدا ہونے کا عمل رک جاتا ہے اور وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں بھی اطمینان بخش حد تک کامیاب نہیں ہو پاتے۔ یہ گویا اپنے وجود کو بند گلی میں دھکیلنے کا معاملہ ہے۔ جب انسان صرف اپنی ذات تک دیکھتا ہے تو اُس سے آگے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ جب یہ میلان پختہ عادت میں تبدیل ہوتا ہے‘ تو انسان کو ساکت و جامد کرکے دم لیتا ہے۔ ایسے میں انسان کے پاس اپنی خام خیالی اور خوش فہمیوں کے سوا کچھ بھی نہیں رہتا۔
خود پسندی اور خود پرستی کا زہر پینے کی عادت ترک کرکے ہمیں حقیقت پسندی کا آبِ حیات پینے کی فکر کرنی چاہیے۔ جب ہم حقیقت پسندی کا دامن تھامتے ہیں تب دوسروں کی خوبیاں دکھائی دیتی ہیں اور اپنی خامیوں کا صرف احساس نہیں ہوتا بلکہ اُن سے چھٹکارا پانے کی سوچ بھی پنپنے لگتی ہے۔ ہر معاشرے میں ایسے ہی لوگ پروان چڑھتے ہیں جو حقیقت پسندی کا دامن تھامتے ہیں اور دوسروں کو اُن کی تمام خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ قبول کرکے آگے بڑھتے ہیں۔