تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-10-2018

اس قدر مہربان؟

انسان کی ایک ظاہری شکل و صورت ہوتی ہے ‘ ظاہری خوبصورتی ہوتی ہے۔اس خوبصورتی میں اس کی آنکھیں‘ نقوش اور چہرے کے خدو خال‘ قد‘ بال اور رنگت اہم ہوتی ہے ۔انسان ہمیشہ سے حسن کا دلدادہ رہا ہے ۔ حسین چہرے اسے اپنی طرف کھینچتے ہیں ۔ ان حسین چہروں پہ شاعر شاعری کرتے رہے ۔ان حسینائوں کے خاطر بڑے بڑے جی دار مردوں نے اپنی جانیں لٹائیں ۔ بعض لوگوں کے چہرے ہیرے کی طرح ترشے ہوئے لگتے ہیں ۔ نگاہ اٹھتی ہے‘ تو وہیں ٹہر جاتی ہے ۔ دنیا کے بڑے طاقتور عہدیدار ان حسین چہروں کے سامنے اس طرح سے پگھل کر رہ گئے کہ ان کا یہ طاقتور منصب ہی چھین لیا گیا ۔ اسی طرح جسم کا متناسب ہونا بھی خوبصورتی کی بنیاد بنتا ہے ۔ جسم ضرورت سے زیادہ موٹا یا پتلا ہو تو یہ خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے ۔ 
اسی طرح ایک خوبصورتی اور بھی ہوتی ہے ۔ یہ خوبصورتی اس انسان کی عقل‘ اس کے دماغ ‘ اس کی سوچ اور شخصیت کی ہوتی ہے ۔ انسان کا دماغ بڑی عجیب چیز ہے ۔ بے شمار لوگ ایسے ہوتے ہیں ‘ جو بالکل بھی حسین نہیں ہوتے۔ وہ اپنا ذرا برابر خیال بھی نہیں رکھتے۔ ان کا طرزِ فکر یہ ہوتاہے کہ جب تک نبض چل رہی ہے ‘ سب ٹھیک ہے ۔ اس نبض سسٹم پر چلنے والوں میں ایک بہت بڑا نام آئن سٹائن کا ہے ۔ آپ اس عظیم سائنسدان کی تصاویر دیکھیں ۔ بال بہت بکھرے ہوئے ‘ شکن آلود لباس ۔ اس کے باوجود لاکھوں لوگ اس سے محبت کرتے تھے ۔ آج تک لوگ اسے پڑھتے ہیں ۔ اسے اپنا قائد مانتے ہیں ۔ آپ سٹیفن ہاکنگ کو دیکھیں ۔ اس کے نیچے کے چار دانت اکثر منہ سے باہر ہوتے تھے ۔ اس کے باوجود لوگ اگر دور دراز کا سفر طے کر کے اس کے نظریات سننے آتے تھے‘ تو اس کی ذہانت ‘ عقل اور دماغ کی وجہ سے ۔عام لوگ سائنسدانوں کو کیوں سننے جاتے ہیں ؟ اس لیے کہ ان کے خیال میں یہ سائنسدان ان سے زیادہ جانتا ہے ۔ وہ انہیں کرہ ٔ ارض اور کائنات کے بارے میں ایسے حقائق بتا سکتا ہے ‘ جو ان کے وہم و گمان سے بھی باہر ہو ں ۔ جب وہ انہیں اجنبی سیاروں کی کہانیاں سناتا ہے ‘تو ان نئی دنیائوں میں جانے کے لیے وہ مچلنے لگتے ہیں ۔ 
اس کے برعکس آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض اوقات ایک حسین و جمیل شخص‘ اونچا لمبا‘ گورا‘ گھنگریالے بال‘ بڑی بڑی آنکھیں ‘بہت عمدہ لباس‘ پروقار شخصیت‘ لیکن جیسے ہی منہ کھولا ‘ ساری خوبیوں پہ پانی پھر گیا۔انسان سوچنے لگتا ہے کہ کاش !یہ اپنا منہ بند ہی رکھتا ۔ بات ہی ایسی بے عقلی کی ہوتی ہے کہ بندے کو غصہ آجاتا ہے ۔ بے عقلی اور بے وقوفی کی بات پہ انسان کو فوراً غصہ آتا ہے ۔ بظاہر خوبصورت نظر آنے والے ایسے لوگوں سے انسان کتراتا ہے ۔ اسے کوفت ہوتی ہے ۔ 
انسانی ذہن میں عجیب بات یہ ہے کہ یہ ہر شخص کو اس کی شکل و صورت اوراس کی خصوصیات کی بنیاد پر ایک نمبر ‘ ایک مرتبہ الاٹ کرتا ہے ۔ کس سے ڈرنا ہے ‘کسے ڈرانا ہے ‘ کس سے مذاق کرنا ہے ‘ کسے فضول بات کرنے سے روکنا ہے ‘ کس سے اپنے منصوبے شیئر کرنے ہیں ‘ کسے اپنی ذاتی تفصیلات نہیں بتانی‘ یہ سب اس میں فیڈ ہوتاہے ۔ ہر شخص کی مالی حیثیت ‘ اس کی ذہنی حیثیت ‘ اس کی کمزوریاں ‘ اس کی خطرناکی‘ اس کی نرمی۔ 
بہرحال علم کی ایک بہت بڑی خوبصورتی ہوتی ہے ۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ کو کروڑوں لوگ ان کے علم کی وجہ سے چاہتے تھے۔جب بھی کسی شخص میں یہ احساس پیدا ہوجاتاہے کہ دوسروں سے زیادہ جانتا ہے ۔ جب لوگوں کی عقیدت بھری نظریں اس کا طواف کرنے لگتی ہیں‘ تو اسے ایک نشہ اور سرور سا محسوس ہونے لگتا ہے ۔اس کا بات کرنے کا انداز بدل جاتاہے ۔ اس کی بدن بولی بدل جاتی ہے ۔ وہ اترانے لگتا ہے ۔ دوسروں پہ طنز کرنا اور لوگوں کو ہنسانا اس کی عادت بن جاتی ہے ۔ جب وہ آپے سے باہر ہوجاتا ہے تو پھر وجودِ خدا (Existence of God)پہ یقین رکھنے والوں کا مذاق اڑانے لگتا ہے ۔ 
جب ظاہری خوبصورتی اور باطنی خوبصورتیاں اپنی معراج پہ پہنچیں تو سرکارِ دو عالم ؐ تخلیق ہوئے ۔ اس قدر نا مساعد حالات ‘ پیدا ہونے سے پہلے ہی والد فوت ‘ چند برسوں میں والدہ فوت‘ پڑھنے لکھنے کا موقع نہیں ملا ۔ خدا نے ذاتی طور پر آپؐ کو تعلیم دی۔ آپؐ کائنات کی تاریخ کے سب سے بڑے استاد بنے ۔ ایک ایسا استاد جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا۔ وہ شخصؐ ‘ انسانی تاریخ میں سب سے بڑھ کر جس کے اقوال یاد کیے گئے ۔ ان اقوال (احادیث) کو یاد رکھنا ایک سائنس بن گیا ۔ ایک ایسا استاد‘ جس سے یہ پوچھا گیا کہ کائنات بنانے سے پہلے خدا کیا کر رہا تھا۔ فرمایا: وہ بادلوں میں تھا‘ اس کے اوپر بھی ہوا تھی‘ اس کے نیچے بھی ہوا تھی ۔ آج سے چودہ صدیاں پہلے‘ جب رائج تصورات یہ تھے کہ کرہ ٔ ارض کائنات کا محور و مرکز ہے اور سب اس کے گرد گھوم رہے ہیں ۔یہ تعلیم دی کہ آسمان ایک نہیں سات ہیں ۔ ہر آسمان میں ایک زمین ایسی ہے ‘ جس پہ زندگی موجود ہے اور جہاں خدا کا حکم اترتا ہے ۔ 
ظاہری و باطنی ‘ سب خوبصورتیاں اپنی معراج پہ پہنچیں تو سرکارؐ تخلیق ہوئے۔ ان سے بڑھ کر کوئی بھی منصوبہ ساز‘ حکمت کار ‘سپہ سالار‘ یا دنیا کی تاریخ میں کبھی کوئی ان سے زیادہ کامیاب ہستی نہیں گزری ۔اندازہ اس سے لگائیے کہ دنیا کے سات ارب افراد میں سے پونے دو ارب مسلمان ہیں۔گوکہ بدحالی کے دن ہیں اور مسلمانوں کا رعب ختم ہو چکا ہے ۔ اس کے باوجود ان میں پاکستان جیسا ملک ہے ‘ جس کی فوج دہشت گردی پہ قابو پانے والی پہلی فوج ہے ۔ ان میں ترکی جیسا ملک ہے ۔ وہ واحد ریاست جس نے اپنی سرحد کے اندر آنے والا روسی طیارہ مار گرایا ۔ آج تک کبھی نیٹو کو یہ جرأت نہ ہو سکی تھی ۔ 
حضورﷺ پہ اللہ نے یہ آیت اتاری کہ زمین اور آسمان ملے ہوئے تھے‘ ہم نے پھاڑکر انہیں جدا کر دیا ۔ بگ بینگ آپؐ کے سامنے تھا ۔ اس زمین پہ زندگی کی تخلیق آپؐ کے سامنے تھی۔ اس زمین پہ زندگی کا اختتام خدانے آپ کو دکھا دیا تھا۔ یہ اختتام کیا تھا؟تیسواں پارہ کھول کر پڑھ لیجیے ۔ سمندر آگ بن جائیں گے ۔ پہاڑ روئی کے گالے بن کر اڑ جائیں گے ۔ اس سے پہلے 'القارعہ ‘کا حادثہ وقوع پذیر ہوگا ۔ لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی مانند ہو جائیں گے ۔ سورج اور چاند یکجا کر دیے جائینگے ۔ 
یہ سب چیزیں جاننے والی ہستی جب لوگوں میں تشریف فرما ہوتی تو بالکل عام انسانوں کی طرح ۔ نہ اپنے علم کی فضیلت ‘ نہ اپنے زہد کا رعب ۔سرکارؐ انتہائی نرمی سے بات کرتے ۔ انسان سوچتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ جاننے والی ہستی ‘ جس کی خاطر یہ کائناتیں تخلیق کی گئیں ‘ وہ اس قدر مہربان؟ اس قدر humble؟ 
انسان سوچتا رہ جاتا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved