تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-10-2018

سرخیاں،متن، ریکارڈ کی درستی اور شکیل عادل زادہ

نادان وقت سے پہلے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں: نوازشریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ نادان لوگ وقت سے پہلے ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں ‘جبکہ کلہاڑی مارنے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے‘ ہم نے بھی اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری تھی‘ لیکن لیکن اس سے پہلے ہم کافی سے زیادہ خدمت جمع کرچکے تھے‘ جبکہ یہ بیوقوف لوگ کچھ کمائے بغیر ہی فارغ ہونا چاہتے ہیں‘ اسی لیے ہم انہیں اناڑی کہا کرتے ہیں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''حکومت جلد انجام کو پہنچے گی‘‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس ضمن میں پیپلز پارٹی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرے گی‘ کیونکہ آج ہی خورشید شاہ نے کہہ دیا ہے کہ اگر موجودہ حکومت کو وقت سے پہلے ختم کیا گیا تو ملک تباہ ہو جائے گا‘ جبکہ ملک تو تباہی کے کنارے پر پہلے ہی پہنچ چکا ہے‘ جبکہ اسے روپے پیسے جیسی آلائشوں سے پہلے ہی پاک کر دیا گیا ہے‘ تاکہ نئی حکومت اچھی طرح مزہ چکھ سکے۔انہوں نے کہا کہ ''سی پیک سے متعلق پالیسیوں پر تحفظات ہیں‘‘ جبکہ ہم نے اس مقدس دستاویز کو دن کی روشنی نصیب ہی نہیں ہونے دی تھی۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم بادشاہ نہیں کہ جس کو چاہیں جیل میں ڈال دیں: کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم بادشاہ نہیں کہ جس کو چاہیں جیل میں ڈال دیں‘‘ جبکہ بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ نیب کر رہی ہے اور جو زرداری صاحب کے ساتھ بھی بے تکلف ہونے جا رہی ہے؛ حالانکہ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اسے بنانے والوں میں ہم بھی شامل تھے جو کہ کئی برسوں تک ٹھیک کام کرتی رہی ہے اور اب شاید اس کو کسی کی نظر لگ گئی ہے اور زرداری صاحب کے پیر صاحب اس پر سے نظر کے اثرات دور کرنے کے لیے اپنی سی کوشش کر رہے ہیں‘ لیکن وہ کافی نہیں لگتی‘ اس لیے نواز شریف کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے پیر کی خدمات بھی مہیا کر دیں‘ تاکہ نیب کا سابقہ شریفانہ برتاؤ بحال ہو سکے‘ جبکہ میاں نواز شریف بھی اپنے وقت کے بادشاہ تھے‘ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا‘ شاید اس لیے کہ وہ اپنے اہم کام میں مگن تھے۔ آپ اگلے روز نجی ٹی وی کے ایک مذاکرے میں شریک تھے۔
حکومت جیرابلیڈ‘ نیب اور عمران میں کوئی فرق نہیں: آصف کرمانی
مسلم لیگ ن کے سینیٹر آصف کرمانی نے کہا ہے کہ ''حکومت جیرابلیڈ‘‘ نیب اور عمران خان میں کوئی فرق نہیں‘‘ جبکہ جیرابلیڈ جو چوری چھپے واردات کرتا تھا‘ حکومت بھی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چوری چھپے ہی سب کچھ کرنا چاہتی ہے؛ حالانکہ ہم نے اپنی روایتی دلیری‘ بلکہ دیدہ دلیری کے ساتھ سارے کارنامے انجام دیئے اور حکومت اور نیب میں کوئی فرق اس لیے نہیں کہ دونوں کرپشن کے خلاف ایک ہی صفحے پر ہیں‘ جبکہ ملک عزیز میں دو ادارے کبھی ایک صفحے پر نہیں رہے اور اپنا اپنا کام تسلی بخش طورپر کرتے رہے ہیں ‘لیکن اب اندھیردیکھیے کہ عدلیہ اور سکیورٹی فورسز تک ایسے صفحے پر آ گئے ہیں اور ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹانا شروع کر دیا ہے اور ہماری روایات کا بھی ستیا ناس کر دیا ہے‘ جس پر آنے والی نسلیں انہیں ہرگز معاف نہیں کریں گی اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ آنے والی نسلیں اس صدمے کی وجہ سے آتی بھی ہیں یا نہیں۔ آپ اگلے روز ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
درستی
بھائی صاحب کے کل والے کالم میں ایک شعر اس طرح درج کیا گیا ہے ؎
تماشا کہ اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
شعر غالبؔ کا ہے اور اس کے مصرعے میں گڑبڑ ہے ‘جو اس طرح ہونا چاہیے تھا:ع
تماشا کر اے محو آئینہ داری
اس گڑبڑ سے مصرعے کا وزن غلط نہیں ہوتا؛ البتہ مصرع بے معنی ہو جاتا ہے۔ ایڈیٹوریل سے جناب سجاد کریم نے فارسی والا شعر ٹھیک کروا لیا تھا‘ اگر سجاد صاحب کالم میں درج ہر شعر مجھے سنا لیا کریں تو یہ مسئلہ کبھی پیدا ہی نہ ہو۔ لطف یہ ہے کہ یہ شعر اسی طرح کالم میں دوبارہ درج ہوا ہے‘ تاہم ہر کالم نویس کے لیے لازم نہیں کہ وہ وزن کی باریکیاں بھی سمجھتا ہو۔
منیر نیازی بنام جمال احسانی
محبی شکیل عادل زادہ راوی ہیں کہ ایک بار منیر نیازی کا یہ بیان کہیں چھپا کہ کراچی میں کوئی شاعر نہیں ہے‘ ماسوائے جمال احسانی کے۔ قدرتی طور پر اس سے وہاں کافی ردعمل ظاہر کیا گیا۔ یہ اطلاع اس سے پہلے میں بھی کراچی کے شعراء کو دے چکا تھا‘ لیکن جو اصل بات ہے مجھے معلوم نہیں تھی‘ اس لیے بیان ہونے سے رہ گئی اور وہ یہ کہ اس کے کچھ دنوں بعد منیر نیازی نے فون کرکے جمال احسانی سے پوچھا کہ اس پر کیا ردعمل ظاہر کیا گیا ہے‘ تو جمال احسانی نے کہا کہ بہت شور مچا ہوا ہے اور لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں‘ بلکہ وہ میرے بھی خلاف ہو گئے ہیں اور مجھے بھی سخت سست کہا جا رہاہے‘ تاہم آپ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے!
آج کا مطلع
ابھی کچھ اور بھی اس کو پکار سکتا ہوں
میں زندگی کو دوبارہ گزار سکتا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved