تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-10-2018

کاک ٹیل

شہباز شریف کی گرفتاری
شہباز شریف کو گرفتار ہوتے دیکھ کر اپنے مرحوم استاد ڈاکٹر ظفر الطاف کی یاد آ گئی‘ شہباز شریف صاحب نے اُن کی زندگی کے آخری ایام میں اُن کا جینا حرام کر دیا تھا۔ اُن پر اینٹی کرپشن پنجاب کے ذریعے جھوٹے مقدمے درج کرائے گئے۔ انہیں گرفتار کرنے کے پنجاب پولیس اسلام آباد اُن کے گھر بھیجی گئی۔ قصور یہ تھا کہ وہ ہلّہ دودھ کے اعزازی چیئرمین تھے۔ لاہور سے ہلّہ دودھ ختم کر کے شہباز شریف کے بچوں نے چنیوٹ سے دودھ دہی لا کر بیچنا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ اپنی ٹیم اور ہلّہ دودھ سے دور رہیں۔ ورنہ نتائج کے لئے تیار رہیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کے مزاج میں نہ تھا کہ وہ مشکل وقت میں ان ملازمین کو چھوڑ دیتے‘ جن پر مقدمے قائم کر کے گرفتار کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب ان کی ضمانتیں کرانے گئے‘ تو اُن پر بھی مقدمے درج ہوئے۔ ایک دن کچھ اُداس ہو کر بولے‘ ''یار کیسے شریف لوگ ہیں۔ میرے والد چودھری الطاف اُن کی اتفاق فونڈری کے مرتے دم تک لیگل ایڈوائزر رہے۔ ذاتی جان پہچان تھی۔ خود میں نواز شریف صاحب کے دورمیں فیڈرل سیکرٹری رہا۔ ایک لمحے کے لیے بھی ان شریفوں نے میرے والد کے برسوں کے تعلق کا لحاظ نہیں کیا اور جھوٹے پرچے درج کروا کے پولیس بھجوا دی‘‘۔ وہ 74 برس کی عمر میں پنجاب کی عدالتوں میں ہر ہفتے پیش ہوتے تھے۔ شہباز شریف صاحب مسلسل اس کیس کی نگرانی کرتے تھے۔
لوگ بھول جاتے ہیں کہ اُنہوں نے دوسرے لوگوں پر کیا کیا ظلم کیے ہوئے ہوتے ہیں‘ لیکن دوست نہیں بھولیں گے۔ شہباز شریف صاحب کے ستم کا شکار ظفر الطاف ‘منوں مٹی تلے جا سوئے اور وہی شہباز شریف آج اُسی تختِ لاہور میں ایک جیل میں قید ہیں‘ جہاں کبھی اُن کی سلطنت کا سورج نہیں ڈوبا تھا‘ اسی لاہور شہر میں آج شہباز شریف قیدی ہیں ‘جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کی دو ماؤں سمیت 14 معصوم انسانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ (فیس بک سے)
غافر شہزاد
میں نے کل آج کے مطلع کے لیے یہ شعر لکھوایا:
ابھی کچھ اور بھی اس کو پکار سکتا ہوں
میں زندگی کو دوبارہ گزار سکتا ہوں
تو مجھے کہا گیا کہ آپ یہ شعر غافر شہزاد کو بھیج دیں۔ وجہ پوچھنے پر بولے:کیا آپ نے اس دفعہ کا ادبی صفحہ نہیں دیکھا؟ میں نے کہا: نہیں ۔تو کہنے لگے: اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ظفر اقبال آج کل شہر سے دُور زندگی کے آخری دن گزار رہے ہیں‘ انہیں اس کا جواب دیں۔ میں نے کہا کہ اوّل تو میں اپنے جونیئرز کی باتوں کا جواب نہیں دیا کرتا‘ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اُنہیں میرے بارے ہر بات کہنے کا حق حاصل ہے اور پھرانہوں نے ٹھیک لکھا ہے‘ میں اپنے آخری دن ہی تو گزار رہا ہوں‘ تاہم یہ آخری دن بھی ہو سکتے ہیں‘ آخری ہفتے بھی‘ آخری لمحے بھی‘ آخری سال بھی اور آخری مہینے بھی اور آخری وقت کب آئے گا؟ یہ بات ڈاکٹر غافر شہزاد کو معلوم ہے‘ نہ مجھے۔ خدا کرے ‘وہ زندہ و سلامت رہیں اور اس طرح جوانیاں مانتے رہیں۔ آمین!
جبار واصف
غالباً رحیم یار خان سے شاعر جبار واصف فون پر پوچھ رہے تھے کہ لفظ چچا پر تشدید ہے یا نہیں؟ میں نے کہا کہ اُردو میں تو نہیں؛ البتہ پنجابی میں ہے‘ تاہم میں نے ایک آدھ بار خود ا سے تشدید کے ساتھ باندھا ہے‘ جیسا کہ میری غزل:
ایک بیوی ہے‘ چار بچے ہیں
عشق جھوٹا ہے‘ لوگ سچے ہیں
کا ایک شعر جس کا مجھے مصرعِ ثانی ہی یاد ہے‘ جو اس طرح سے ہے:
آپ ہی کے وہ تائے چچے ہیں
کہنے لگے:اگر آپ نے تشدید کے ساتھ باندھا ہے تو پھر تو یہ سند ہو گئی۔ میں نے کہا: ضرورت شعری کے علاوہ‘ میں نے اپنی شاعری میں پنجابی کے الفاظ‘ محاورے اور لہجے بے دریغ استعمال کیے ہیں‘ اس لیے میرا معاملہ الگ ہے۔ اُردو میں یہ لفظ تشدید کے بغیر ہے۔
اپنائیت
بھارت میں بولی تو اُردو ہی جاتی ہے‘ لیکن اسے انہوں نے ہندی کا نام دے رکھا ہے‘ تاہم اُن کے ہاں کچھ الفاظ کا استعمال غیر معمولی بھی ہے‘ مثلاً :وہ کہیں گے‘ تم مجھے تمہارا دل دے دو‘ یا میں تمہیں میرا دل دیتا ہوں۔ اس طرح اُن کے ہاں لفظ ''اپنا‘‘ استعمال نہیں ہوتا۔ یہ اُن کی مرضی ہے‘ تاہم اس لفظ کے ساتھ ساتھ جیسے انہوں نے اس لفظ کا ''اپنائیت‘‘ بھی موقوف کر دی ہے‘ جبکہ ''میں میرا‘‘ اور ''تم تمہارا‘‘ ویسے بھی غیر سلیس لگتے ہیں؛ البتہ ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ مثلاً: ان کے فلمی گانوں میں جو ہوتے تو اُردو یا ہندی میں ہیں‘ لیکن ان میں پنجابی الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں‘ بلکہ اُردو کے الفاظ تو بعض اوقات برائے نام ہی ہوتے ہیں‘ تاہم ان فلموں کے دم قدم سے وہاں اُردو آج بھی زندہ ہے‘ کیونکہ جن صوبوں اور علاقوں میں اُردو (ہندی) بولی اور پڑھی نہیں جاتی‘ وہاں بھی یہ فلمیں برابر رش لے رہی ہوتی ہیں‘ نیز وہاں حکومت کی طرف سے ادبی وسائل کو گرانٹ بھی ملتی ہے‘ جبکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں اُردو کو سرکاری زبان قرار دیا جا چکا ہے‘ آج تک اس کا ناصرف نفاذ نہیں ہو سکاہے ‘بلکہ شہروں میں انگریزی ذریعہ تعلیم ہونے کی وجہ سے اُردو ہی پرائی اور ختم ہوتی چلی جا رہی ہے :ع
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آج کا مقطع
بنیاد تو پڑی نظر آتی ہے‘ اے ظفرؔ
اس شہر کا مگر کوئی نقشہ نظر تو آئے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved