کئی محاذوں پر لڑائی بیک وقت چھڑ گئی ہے۔ ہر کام مرحلہ وار اور منطقی طریقے سے کیے جانے ہی پر مطلوب نتائج دیا کرتا ہے۔ حکومتی سطح پر عجلت پسندی کا مظاہرہ غیر معمولی اور نامطلوب قسم کی پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔ اس وقت ہم ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ کچھ نہیں کھلتا کہ عمران خان حتمی طور پر کیا چاہتے ہیں۔ ایک طرف وہ بیورو کریسی کو نکیل ڈالنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف سادگی اپنانے کے نام پر متعدد مدوں سرکاری اخراجات گھٹانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ڈیم کی تعمیر کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم بظاہر ایک طرف رہ گئی ہے۔ اب پس ماندہ طبقے کے‘ یعنی کم آمدن والے افراد کے لیے سستی لاگت والے 50 لاکھ مکانات تعمیر کرنے کا پروگرام شروع کیا جارہا ہے۔
حکومت کی گاڑی نے بہت عجیب انداز سے سٹارٹ لیا ہے‘ یعنی پہلے گیئر میں اٹھنے کے فوراً بعد قرضوں کا گیئر لگالیا ہے۔ یہ آپشن عام طور پر کچھ دیر سے اپنایا جاتا ہے۔ نئے حکمرانوں نے سوچا جب بعد میں بھی یہ آپشن اپنانا ہی ہے تو پہلے مرحلے میں کیوں نہ اپنالیا جائے! ملک میں بہت کچھ ہے جو بہت بُری طرح بگڑا ہوا ہے۔ یہ بگاڑ راتوں رات پیدا نہیں ہوا‘ کئی عشرے لگے ہیں ‘خرابیوں کو یہاں تک آنے میں؛ اگر سب کچھ ایک ہی سانس میں درست کرنے کی کوشش کی جائے گی ‘تو معاملات مزید بگڑ جائیں گے۔ ؎
عدمؔ! خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بہت جلدباز ہوتے ہیں!
سرکاری مشینری کا جو حال ہے‘ وہ سب پر عیاں ہے۔ نیم سرکاری اداروں کی کارکردگی بھی ہمارے سامنے ہے۔ ان کی کارکردگی دیکھتے ہوئے اب نجی شعبے میں بھی پژمردگی اور بے عملی عام ہے۔ سب اپنی ذمہ داری دوسروں کے سَر تھوپنا چاہتے ہیں۔
حکومت کی پیالی میں گڑگڑاہٹ بڑھتی جارہی ہے‘ کئی طوفان ایک ساتھ ابھر رہے ہیں۔ ایک ہی دن میں ڈالر نے اتنی اونچی جمپ لگائی کہ لوگ دَم سادھے دیکھتے رہ گئے۔ سٹاک مارکیٹ کہنے کو تو سنبھلی ہوئی ہے ‘مگر یہ سنبھالا بھی کب تک ہے‘ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات‘ سی این جی اور ایل این جی کے بڑھے ہوئے نرخ دیکھ کر عوام کے دل و دماغ میں ہَول اٹھ رہے ہیں۔ ابھی تو حکومت کو 54 ہی دن ہوئے ہیں اور ابھی سے یہ حال ہے۔ ع
جب رات ہے ایسی متوالی‘ پھر صبح کا عالم کیا ہو گا!
مہنگی کے حوالے سے سات آٹھ ماہ کے دوران ریلیف کی سی کیفیت رہی ہے۔ عوام کو اب یہ ''ہنی مُون پیریڈ‘‘ بھی ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ لوگ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ ماہرین کی پیش گوئی کے مطابق ‘اگر مہنگائی 10 فیصد کی شرح سے بڑھی ‘تو ملک کا کیا بنے گا؟
صرف ایک دن میں ڈالر 9 روپے 13 پیسے مہنگا ہونے سے مہنگائی کا طوفان پاکستان کے دروازے پر دستک دینے لگا ہے۔ ملک پر قرضوں کے بوجھ میں ایک ہی جھٹکے میں 900 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس پر بھی کہا جارہا ہے کہ معاشی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا عوام پر کچھ بوجھ نہیں پڑے گا۔ گویا ؎
ناز و انداز سے کہتے ہیں کہ جینا ہو گا
زہر بھی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہو گا
جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں
جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہو گا!
ایسی کیونکر ہوسکتا ہے کہ آگ لگے اور دھواں نہ ہو! غیر یقینی کیفیت دور کرنے میں آئی ایم ایف یا عالمی بینک کے پاس جانے کا آپشن عموماً کلیدی کردار ادا کیا کرتا ہے‘ مگر اب کے کچھ عجب ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان ہوتے ہی زری منڈی گراوٹ کا شکار ہوگئی ہے‘ یعنی بے یقینی بڑھ گئی ہے۔
جب بھی نئے قرضے لیے جاتے ہیں‘ یعنی ملک پر سُود اور اصل کی مد میں بھگتان کا بوجھ بڑھتا ہے‘ تب سو طرح کے خدشات اور وسوسوں کا اظہار کیا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ اس اعتبار سے بھی بہت انوکھا ہے کہ لوگ 'جاذِب‘ ہیں‘ مہنگائی کو یوں جذب کرلیتے ہیں کہ اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا! آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ 'کمال‘ کیسے ممکن ہو پاتا ہے؟ بات کچھ یوں ہے کہ پچیس تیس سال پہلے کوئی چیز مہنگی ہوتی تھی تو لوگ احتجاج کرتے تھے اور کبھی کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ مہنگی ہو جانے والی چیز کا استعمال کم یا ترک کردیا جاتا تھا۔ یہ بہر حال ایک طویل 'پروسیس‘ تھا۔ اب لوگ اس کے عادی نہیں رہے اور اُنہوں نے احتجاج کا مرحلہ skip کردیا ہے۔ ایک خود کار نظام ہے‘ جو از خود نوٹس کے سے انداز سے معرضِ وجود میں آچکا ہے اور بخوبی کام بھی کر رہا ہے۔ اسے 'سیلف ایڈجسٹنگ اکانامی‘ کہا جاسکتا ہے۔ اب معاملہ یوں ہے کہ لوگ 'ایڈجسٹمنٹ‘کرتے جاتے ہیں۔ جب کچھ مہنگا ہوتا ہے ‘تو سب اپنے اپنے نرخ اور چارجز بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ حکومت اگر چند اشیاء کے مہنگے ہونے کا اہتمام کرتی ہے‘ تو لوگ اپنے طور پر بہت کچھ مہنگا کردیتے ہیں۔ اس طور گزارا ہو رہا ہے‘ یعنی مجموعی کیفیت یہ ہے کہ سرکاری مشینری کے بے ڈھنگے پن اور کرپشن پر احتجاج کرکے اُسے درستی کی طرف مائل ہونے پر مجبور کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر کھارہے ہیں!
حکومت نے ابھی سے اپوزیشن کو کھل کر کھیلنے کا موقع دے دیا ہے۔ میڈیا کے محاذ پر لڑائی میں شدت میں آتی جارہی ہے۔ پرنالے وہیں بہہ رہے ہیں‘ جہاں بہتے آئے ہیں۔ عوام یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہیں کہ جس تبدیلی کی بات ہو رہی تھی‘ وہ تو کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ ٹھیک ہے‘ عوام کو اس معاملے میں عجلت پسندی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ کچھ ٹھہرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا معاملہ تو ع
ابھی آئے‘ ابھی بیٹھے‘ ابھی دامن سنبھالا ہے
والا ہے۔ عوام تو خیر اس بات کو سمجھتے ہیں ‘مگر حکومت کی صفوں میں موجود بعض 'ہستیاں‘ بھی تو موقع اور حالات کی نزاکت کو سمجھیں۔ دعوؤں کی توپ کو کچھ آرام دیا جائے‘ زیادہ گولے نہ داغے جائیں۔ اور وعدوں کی جھڑی لگائے‘ رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو کچھ بھی پَلّے ہے‘ وہی تو پیش کیا جائے گا۔ حکومت پہلے پیش کرنے کے لیے کچھ جمع تو کرے۔
معیشت اور معاشرت دونوں کا بُرا حال ہے۔ اس کی ذمہ دار‘ ظاہر ہے‘ نئی حکومت تو نہیں۔ یہ سارا بگاڑ عشروں کا پیدا کردہ اور پروان چڑھایا ہوا ہے۔ لوگ اس طور جی رہے ہیں کہ بس کسی نہ کسی طور مرنے سے بچے ہوئے ہیں۔ اہلِ پاکستان کی زندگی کیا ہے‘ یوں سمجھ لیجیے کہ غم کی ایک طویل رات ہے‘ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ؎
کٹتی نہیں ہے غم کی رات‘ آ کے ٹھہر گئی ہے
نیند تو خیر سو گئی‘ موت بھی مر گئی ہے کیا؟
نئی حکومت خالص نئے انداز کی ہے۔ اچھی بات ہے‘ مگر کچھ نیا کرنے کی دُھن میں پُرانے اچھے کی کھٹیا کھڑی نہ کی جائے۔ نیا نظام اچانک نہیں لایا جاسکتا۔ پُرانے نظام کو یکسر مٹادینے سے بات نہیں بنتی۔ ہر معاملہ مرحلہ وار انجام کو پہنچتا ہے۔ بہت تیزی سے بہت کچھ اچھا کرنے کی کوشش بہت کچھ اچھا تو خیر کیا کرے گی‘ غم کی رات کو مزید طُول دے سکتی ہے!