تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     12-10-2018

جب لٹیرے خود لٹ گئے!

ڈیرہ غازی خان کے صحافی یعقوب بزدار اپنی فیس بک پر ایسی کہانیاں لکھتے اور تصویریں شیئر کرتے رہتے ہیں کہ بندہ کئی دن سو نہ پائے۔ اس علاقے کے دکھوں کی کہانیاں یعقوب بزدار نے لکھی ہیں ۔ اپنے علاقے کے فیوڈلز اور سیاستدان اسے پسند نہیں کرتے۔ اسے عام صحافیوں کی طرح بڑے لوگوں کے قصیدے لکھنے کا شوق نہیں۔ وہ عام لوگوں اور ان کی زندگیوں کے مسائل پر لکھتا ہے اور اچھا لکھتا ہے۔ اس کی تحریر میں آپ کو درد محسوس ہوتا ہے۔ چند برس پہلے جب اسے فیس بک میں ایڈ کیا تو مجھے لگا اگر مجھے ڈیرہ غازی خان کی سیاست اور عام لوگوں کی کہانیاں ‘ ان پر ہونے والے مظالم اور عام انسانوں کی غربت اور دکھ کا پتا لگانا ہے تو یعقوب بزدار کو روزانہ پڑھنا ہوگا ۔ ایک دفعہ اس نے بوڑھے انسان کی تصویریں اور سٹوری شیئر کی‘ جو قریبی علاقے سے مزدوری پر آیا ہوا تھا اور چلچلاتی دھوپ میں بیٹھا پتھر توڑ رہا تھا‘ تاکہ کچھ کما سکے۔ جس گھر کے باہر مزدوری کررہا تھا۔ اس کے مالک نے بتایا کہ اس بزرگ نے کہا‘ اسے کام چاہیے‘ رمضان میں کام نہیں ملتا تو ہم نے انہیں کام دے دیا۔ یعقوب بزدار خود بھی جیب سے ان غریبوں کی مدد کرتا رہتا ہے۔ 
ایسی کئی کہانیاں یعقوب بزدار لکھتا اور تصویروں کے ساتھ شیئرکرتا ہے۔ آج اس نے ڈیرہ شہر کے ایک بچے قاسم کی کہانی شیئر کی ہے۔ اس کی عمر چھ سال ہے۔ خوبصورت‘ پیارا بچہ‘ لیکن اس کی تصویر کو غور سے دیکھیں تو لگے گا جیسے زمانے بھر کے دکھوں کا بوجھ اس کی آنکھوں میں سمٹ آیا ہے۔ کل تک وہ پرائیویٹ سکول میں پڑھتا تھا ۔ باپ کو عشق ہوا‘ اس نے تین بچے چھوڑ کر دوسری شادی کر لی۔ قاسم ‘ بڑا بھائی ‘ بہن اور اکیلی ماں۔ کچھ دن تو فیس ادا کی‘ پھر پرائیویٹ سکول سے نکال کرماں نے سرکاری سکول میں ڈال دیا۔ماں گھر میں بچوں کو روٹی کھلاتی یا پھر پڑھاتی۔ باپ دوسری بیوی کے ساتھ خوش اور اکیلی ماں تین بچوں کے لیے پریشان۔ آخر ایک دن دل پر پتھر رکھ کر موٹر ورکشاپ بھیج دیا‘ قاسم آج سے تم کمائو گئے‘ دو ہزار روپے ماہانہ ملے گا۔ چھ سال کی عمر میں قاسم سکول چھوڑ کر ورکشاپ چلاگیا ۔قاسم نے جس دن سکول چھوڑا‘ دن بھر روتا رہا کہ اسے سکول جانا ہے‘ اس کے سب دوست وہیں ہیں۔ 
میرے لیے یہ نئی کہانی نہیں۔ میرا بھانجا منصور گائوں سے دور ایک غریب علاقے میں سکول چلاتا ہے ۔ وہ ایسے بچوں کوو رکشاپ سے اٹھا کر سکول لے آتا ہے۔ والدین کو قائل کرتا رہتا ہے۔ میرے ایک بھانجے کی بیوی گائوں سے دور ایک سکول میں پڑھاتی ہے اور وہ غربت کی جو کہانیاں سناتی ہے‘ سن کر دل کانپ جاتا ہے۔ میری بھتیجی گائوں کے ایک سکول میں پڑھاتی ہے۔ وہ اکثر مجھے بتاتی ہے کہ وہاں سردیوں میں غریب بچوں کے نہ جوتے ہیں ‘ نہ جرابیں اورنہ ہی جرسیاں۔ ہر دفعہ وہ مجھ سے ان بچوں کے لیے پیسے لیتی ہے۔ میری اپنی بہن‘ جو سکول میںپڑھاتی ہے‘ گائوں سے دور سکول کے بچوں کی باتیں سناتی ہے کہ کیسے ماں باپ گندم کی کٹائی کے دنوں میں دو ماہ بچوں کو سکول نہیں آنے دیتے کہ وہ ان کے ساتھ مزدوری کریں۔ بہن نے ان بچوں کے ماں باپ کو پیسے ادا کیے اور انہیں سکول لے آئی۔ منصور جو سکول چلاتا ہے‘ اس میں دو تین دفعہ اس نے مجھے بھی بلایا ۔ ان علاقوں کی غربت ان بچوں کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے جب میں خود پرائمری سکول میں پڑھتا تھا تو میرے ساتھ گائوں اور علاقے کے تیس بچے پڑھتے تھے۔ پانچویں کے امتحان کے بعد ہم پانچ لڑکے مڈل سکول کوٹ سلطان تک پہنچے۔ میٹرک تک ہم دو رہ گئے تھے اور کالج اور یونیورسٹی تک میں اکیلا تھا۔ غربت کی وجہ سے ان کے ماں باپ نے انہیں آگے پڑھانے کی بجائے مزدوری پر لگا دیا تھا۔ وہ مجھ سے زیادہ ذہین تھے‘ اچھے تھے ‘لیکن غربت مار گئی۔ آج جب میں سنتا ہوں کہ میں ایک پس ماندہ علاقے سے نکل کر یہاں تک پہنچ گیا ہوں تو چپ ہوجاتا ہوں۔ مجھے وہ اپنے کلاس فیلوز یاد آتے ہیں جو زندگی کی دوڑ میں اس لیے پیچھے رہ گئے کہ ان کے ماں باپ افورڈ نہ کرسکتے تھے۔ تو کیا اسے کامیابی مانا جائے‘ تیس بچوں کی کلاس میں سے صرف ایک کالج تک گیا؟ کبھی کبھار اپنا آپ مجرم لگتا ہے۔ 
لوگ کہتے ہیں میں زیادہ تلخ ہوں۔ کیسے نہ ہوں‘ جب ایک طرف قاسم جیسے بچوں کی کہانیاں پڑھتا ہوں اور دوسری طرف حکمرانوں اور بیوروکریسی کی عیاشیاں ‘ خرچے اور اللے تللے دیکھتا ہوں۔ ایک سابق بیوروکریٹ نذر محمد چوہان‘ جو آج کل امریکہ میں ہیں‘ کے بلاگز پڑھتا ہوں تو دل دکھتا ہے۔ جب وہ لکھتے ہیں کہ نیویارک میں ہمارے سفیروں نے کہاںکہاں ہزاروں ڈالرز کرائے پر پرتعیش فلیٹس لے رکھے ہیں۔ نیویارک کے مہنگے علاقے مین ہیٹن میں فلیٹس‘ بی ایم ڈبلیو گاڑی‘ شوفرز‘ نوکر چاکر‘ ہر سفیر کے پاس ہیں۔ پچھلے دنوں نیویارک سفارت خانے کے بابوز نے ایک ثقافتی شو کے نام پر ایک لاکھ ڈالرز سے زیادہ خرچہ کیا۔ آپ کسی بھی سفارت خانے کے اخراجات دیکھ لیں‘ آپ کو یہی کہانی ملے گی۔ حسن رضا کی مرتب کردہ پنجاب میں کی گئی کرپشن کی کہانیاں پڑھیں تو آپ دل تھام کر بیٹھ جائیں۔شہباز شریف کے بابوز نے چار ارب روپے خرچ کر دیے اور پانی کی ایک بوند نہیں ٹپکی۔ حکمرانوں کو یہ فرض سونپا گیا کہ اللہ نے آپ کو عقل دی ہے اور آپ خود امیر ہیں لہٰذا آپ غریب رعایا کو امیر کرنے کا سوچیں ۔ بادشاہوں نے سوچا‘ رعایا کا کیا ہے بعد میں بھی امیر ہوجائے گی‘ پہلے اپنے بچوں اور دامادوں کو ارب پتی تو بنا دیں۔ شہباز شریف صاحب کا داماد بننے سے پہلے علی عمران کی گوالمنڈی لاہور میں چند دکانیں تھیں۔ آج وہ اربوں روپوں کے پلازوں کا مالک ہے۔ شہباز شریف صاحب کے داماد کے پلازے میں دو فلورز صاف پانی کمپنی نے کرائے پر لیے۔ پانچ کروڑ روپے ایڈوانس دیا اور چند دن بعد چیف ایگزیکٹو کو پسند نہ آیا تو کہیں اور دفتر لے لیا۔ پانچ کروڑ روپے علی عمران لے اُڑا۔ سب سمجھتے تھے شہباز شریف کے برخودار سلمان شہباز زیادہ سمجھدار ہیں‘ اب پتا چلا ہے کہ ایسی ایسی جائیدادیں اور پاور پلانٹس میں ان کے خفیہ حصص نیب کے ہاتھ لگے ہیں کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگا ئے۔ 
دوسری طرف سندھ میں زرداری صاحب کو داد دیں‘ انہوں نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ریڑھی والوں سے لے کر فالودہ فروش تک کو ارب پتی بنا دیا۔ پاکستانیوں نے لندن‘ دبئی تک کو امیر بنا دیا۔ وہاں لاکھوں کروڑں کی جائیدادیں بن گئیں ‘ پاکستان مقروض سے مقروض تر ہوتا گیا۔ کبھی میرا خیال تھا‘ جہانگیر ترین نے پیسہ اپنی محنت سے کمایا‘ لیکن میرا سب خیال اس وقت زمین بوس ہوگیا جب میں نے سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ پڑھا جس میں انہیں مستقل نااہل قرار دیا گیا ۔ چیف جسٹس‘ جناب جسٹس ثاقب نثار کی لکھی ہوئی وہ ججمنٹ جو انہوں نے جہانگیر ترین مقدمے میں لکھی ‘کوئی بھی پڑھ کر دیکھ لے۔کالے دھن کے درشن کرنے ہوں تو وہ ججمنٹ پڑھ لیں ‘کیسے شرافت اور ایمانداری کا لبادہ اوڑھے لوگ بے نقاب ہوئے ہیں۔ جہانگیر ترین کیس کی یہ ججمنٹ پاکستان کی ٹیکسٹ بکس کا حصہ ہونی چاہیے تاکہ نئی نسلوں کو پتا چلے کہ انسان ارب پتی بن جائے تو بھی چند ٹکوں کے لیے وہ کسی حد تک گرنے کو تیار ہوتا ہے۔ جو فراڈ جہانگیر ترین نے کیے ان جرائم کی سزا چودہ سال تھی اور بھاری جرمانہ ۔ وہ خوش قسمت رہے کہ فراڈ اس وقت کیا‘ جب وفاقی وزیر تھے۔ وزیر نے سب محکموں کو سنبھال لیا اور پتلی گلی سے نکل گئے۔ قدرت کا انتقام دیکھیں‘ جو فراڈ کر کے کروڑوں روپے ملازمین کے نام پر کمائے وہ سب ضائع گئے۔ سب کچھ ہیلی کاپٹر پھونک گیا۔ لوگوں سے لوٹا گیا مال تحریک انصاف پر لگایا ‘ سرمایہ ضائع گیا۔ کسی نے سبق سیکھنا ہو تو جہانگیر ترین کے بارے میں سپریم کورٹ کی لکھی ہوئی ججمنٹ کو پڑھے اور ان کی نااہلی سے سیکھے۔ 
جہانگیر ترین کے مالی اور خانساماں کی پوری کہانی کسی وقت لکھوں گا تاکہ ہمیں عبرت ہو۔ دو نمبری کر کے مال بنانے اور بادشاہ گر بننے کی خواہشات کی پوٹلی اٹھائے اندھا دھند بھاگنے کا کیا انجام ہوا ؟برسوں کی مسافت کے بعد بھی جہانگیر ترین جہاں سے چلے تھے وہیں کھڑے ہیں۔ اپنے گھر کے خانساماں اور مالی کے نام پر لوگوں کو لوٹ کر آخر خود بھی سیاست میں لٹ گئے۔ اسے قدرت کا انتقام کہیں یا انصاف‘ آپ کی مرضی! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved