غنیوں کے سردار ، خیر البشرؐ تو ظاہر ہے کہ افضل واکبر ۔کچھ نہ کچھ تو ان کے ماننے والوں کو بھی سوچنا چاہیے ۔ خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں ، غلامی میں زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنیٰ اتنی غلاظت ہے ، سیاست میں اتنی غلاظت !اتنا کچرا ہے، مذہبی اداروں میں بھی اتنا کچرا!خوف اور گریز ہے ، ہماری روحوں میں خوف اور گریز وگرنہ حیاتِ اجتماعی کے ان دو اہم ترین شعبوں میں تو بہترین ،صالح ترین عنصر چاہیے تھا۔ سوال کیا گیا: یا رسول اللہ ؐ!انسانوں میں سے بدترین کون ہیں ؟ فرمایا: اللہ ان پر رحم کرے ۔بارِ دگردرخواست ہوئی تو فرمایا: وہ جو دنیا کے لیے دین کو بیچ دیں۔انجیل پڑھیے تو یہ لگتا ہے کہ ایک الم ہے جو چراغ کی طرح سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کی جان میں مستقل جلتا رہا ، اللہ کے نام کی تجارت کرنے والوں کے حالِ زار پر ۔ ورق ورق پر پیغمبر ؑ کا غم آشکار ہے :تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ کیا تم خود کو برباد کیے لیتے ہو اور خدا کی مخلوق کو بھی ؟ اللہ کی آخری کتاب سوال کرتی ہے : تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ؟ ایک آدمی ہے ، جوخود کو آج کے خوں آشام استعمارکا سب سے بڑا مخالف بنا کر پیش کرتاہے مگر اسی کے ایک کارندے سے وزارتِ عظمیٰ کی بھیک مانگتادیکھا گیا ۔ ایک آدمی ہے ، جو کہتاہے کہ اللہ کے آخری رسولؐ اس کے خوابوں میں جلوہ افروز ہوتے ہیں ۔ حال اس کا یہ ہے کہ زرو جواہر کے انبار جمع کرلیے اور پیہم اضطراب پالتا ہے۔ ہمارے ساتھی نے سچ کہا: ٹی وی اور اخبار میں پوری بات ہم نہیں بتاتے ۔ اتنے سنگین حقائق ہیں کہ بات کرتے ہوئے خوف آتاہے ۔ جن کے جرائم معلوم ہیں ، ان کے معلوم، جو معصوم بنے پھرتے ہیں ،ان میں سے ایسے ہیں کہ ٹھیک ٹھیک بیان کر دئیے جائیں توشاید پتھروں کے مستحق معلوم ہوں ۔ کل شب اس دانائے راز سے طالبِ علم نے سوال کیا ۔ اتنی خرابی، اس قدر تاریکی کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے۔ارشاد کیا: ازل سے ایسا تھا اور ابد تک ایسا ہی رہے گا۔اللہ کے بندے خال خال ، باقی سب اپنی آرزوئوں کے غلام۔ زیاں ہے ، خد اکی کائنا ت میں بے حد زیاں ۔ اقبالؔ کا دل درد سے بھر گیا تھا : ع کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی روزِ ازل خالقِ ارض و سما نے اپنی مخلوق کو بتادیا تھا: مستقر و متاع الٰی حین۔ زمین پر جا اترو ، اب ایک محدود مدت کے لیے یہ تمہارا ٹھکانا ہے ، ایک مقرّر مہلت۔ اب مسافر اگر سرائے ہی کو اپنی کل کائنات جان لے تو کوئی کیا کرے ۔ شعیب بن عزیز نے کیسا زندہ رہنے والا شعر لکھ دیا ہے ۔ کبھی شہباز شریف کو بھی سنایا ہوتا۔کیا عجب ہے کہ اس آدمی کا دل پگھلتا: خُوب ہو گی یہ سرا دہر کی لیکن اس کا ہم سے کیا پوچھتے ہو ، ہم کو ٹھہر نا کب ہے سید عباس اطہر کو اللہ تعالیٰ صحت عطا کرے کہ اٹھ کھڑے ہوں ۔ اپنی شرمیلی مسکراہٹ اور دھیمے لہجے کے ساتھ ہمارے دلوں پر راج کریں ۔برسوں پہلے ایک دن اچانک کہا : میں یاد رکھتا ہوں کہ مجھے مرنا ہے ۔بے ساختہ زبان سے نکلا: شاہ جی ! کب سے آپ مذہبی ہو گئے ؟ اسی لہجے میں ، جس میں ہمیشہ رچائو اور گداز رہا ،یہ کہا: مذہبی یا سیکولر ، مرنا تو سبھی کو ہے اور اس سچائی کو یاد رکھنا چاہیے۔ جب سے الیکشن سر پہ آئے ،چہار جانب ہیجان کا عجیب عالم ہے ۔ ایک ایک نشست پر درجنوں امیدوار ۔ اوّل پارٹی ٹکٹ کا اندیشہ ، پھر مقابلے کا خوف۔ چند ایک کے سوا، جس کو دیکھو، جان اس کی حلق میں اٹکی ہے ۔ ایوان میں ایک پہنچے گا ، باقی کا کیا بنے گا؟ سب نعمتیں میسر مگر ناموری کی آرزو میں بھکاری ۔شکوہ سنج،دل فگار اور درماندہ بھکاری : ع دل ، درد کی شدّت سے خوں گشتہ و سیپارہ اللہ کے اس ایک بندے کے سوا کسی کو نہیں دیکھا کہ قرار حاصل ہو اورا ن کے گرد کچھ لوگ ، بیشتر جواں سال جو اللہ کی بارگاہ میں جھکتے ، قناعت سے بسر کرتے اور ایثار کرتے ہیں ۔ گجر خان میں قومی اسمبلی کی تین نشستوں کا مسئلہ تھا ۔ سب جیتنے والے ، نیک نام او رخوش اطوار نامزد کیے گئے ۔ کل مگریہ کہا : اگر کپتان کو گوارا نہیں تو نہ سہی ۔ وہ اپنا طریقہ آزمالے ۔ یہی بہت ہے کہ امکان کا در وازہ اب چوپٹ کھلا ہے ۔ اس شہر میں اگر اس کے لیے شکست لکھی ہے تو تقدیر کا فرمان ٹال کون سکتاہے ۔ حنا ربّانی کھر بھاگ گئیں ، جمشید دستی اقتدار کی کشمکش میں مارا گیا ۔مظفر گڑھ کی وہ نشست اب آسان ہو گئی ؛لہٰذا گدھ اب اس پر منڈلا رہے ہیں ۔ راجہ محبوب اختر ایک سرفراز امیدوار ہیں۔ باوقار ، ہوش مند اور مقبول مگر جاوید ہاشمی اور شاہ محمود کا فیصلہ یہ ہے کہ ایک کم سواد کو تاج پہنایا جائے ۔کہا جاتا ہے کہ دونوں کا رشتے دار ہے ۔ اچھا ، یہی سہی ۔اپنا بویا ہوا وہ کاٹ لیں گے اور انشاء اللہ برسوں تک کاٹیں گے ۔یہ سوال البتہ ذہن سے چپکا رہا: اس باب میں سیاسی جماعتوںکا مرض کیا ہے ؟ معلومات جمع کرنے کا کوئی نظام ہی نہیں ؛چنانچہ فصل ہی برباد۔ اس نئی پارٹی میں لیڈ رمعقول ہے اور من مانی کا اسے شوق نہیں تو اس کے رفیق مبتلا ہیں ۔اس نے رشتہ دار گنوا دیے ۔ملک کے مستقبل کی قیمت پر ،یہ پالنے پر تُلے نظر آتے ہیں ۔ ان کوتوچھوڑیے ، اچھے اچھوں کا حال یہ ہے : ؎ براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں تماشا ہے ، تماشا! زندگی کو مرتب اور مہذب بنانے کا قرینہ تو یہ ہے کہ خواہشا ت کو لگام دی جائے ۔ رہنمائوں کا حال مگر یہ کہ خواہش کو خدا بناتے ہیں ۔ قرآن کہتا ہے ،اپنی آرزوئوں کے غلام ۔ زندگی وہ نہیں گزارتے ،انہیں زندگی گزارتی ہے ۔ ریڈ انڈین قبیلے کے سردار سیٹل نے ، جس کی لکھی ہوئی عبارت ہمیشہ جگمگاتی رہے گی ،امریکی صدر کے نام ایک خط میں کہا تھا : This is the end of life and beginning of survival۔ زندگی ختم ہوئی ، اب تو محض جینا ہے ۔ سیاست ان میدانوں میں سے ایک ہے ، جہاں بہترین انسانی صلاحیت بروئے کار آسکتی اور جلوے دکھا سکتی ہے ۔ ہر شے کا بدل مل سکتا ہے ، سب دامن پُر ہو سکتے ہیں ۔ اس کے لیے مگر خواہشات کی پیروی نہیں ، اعلیٰ درجے کی حکمت کے ساتھ ، اصولوں کی پیروی درکار ہے ۔ ابدیت سفر کو ہے ، مسافر کو نہیں ۔ خدا کی زمین پر ہر روز ہزاروں اور لاکھوں رُسوا ہوتے ہیں ، اپنے اعمال کی سزا پاتے ہیں مگر کوئی نہیں سیکھتا۔کوئی سوچنے پر آمادہ نہیں کہ خود اس کی خطا ہے ۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے :ہم نے تمہیں مہلت دی ۔ اب چاہو تو خود کو آباد کرو یا برباد۔ راجہ پرویز اشرف کا خیال یہ تھا کہ سرکاری خزانہ لٹا کر پھر مسلّط ہو جائیں گے، ہمیشہ خلق کا خون پیتے رہیں گے ۔ آج کاغذات مسترد ہو گئے ۔سارا شہر ان کے حکم پر کُھدا پڑا ہے ۔ سارے شہر کی اس کوبددعا ہے ۔ کب تک کوئی فریب دے سکتاہے ۔ مخلوق کو بھی اور خدا کو بھی ؟کتنے حکمران ، کتنے زور آور ، کتنے قہر مان نمونۂ عبرت بنتے ہیں مگر افسوس کہ کوئی غور نہیں کرتا: ؎ رو میں ہے رخشِ عمر ، کہاں دیکھیے تھمے نے ہاتھ باگ پر ہے ،نہ پا ہے رکاب میں صرف اللہ کے بندے امان میں ہیں ، صرف اللہ کے بندے ، جنہیں قناعت بخشی گئی ۔کتاب میں سرکارؐ سے ارشاد یہ ہے : ووجدک عائلًا فاغنیٰ ۔ ہم نے تجھے تنگ دست پایا تو غنی کر دیا۔ مالدار نہیں ، غنی۔ غنیوں کے سردار ، خیر البشرؐ تو ظاہر ہے کہ افضل واکبر ۔کچھ نہ کچھ تو ان کے ماننے والوں کو بھی سوچنا چاہیے ۔ خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں ، غلامی میں زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنیٰ
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved