تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     13-10-2018

طوفانِ مہنگائی میں چند قیمتیں برقرار

ہم اِن نازک معاملات کو نہیں جانتے لیکن واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ مری بروری کے ریٹ اَب بھی وہی ہیں جو اسد عمر صاحب کے آنے سے پہلے تھے۔ ہمیں تو اِس سے کوئی سروکار نہیں، سیدھے راستے چلنے کی تلقین ہے۔ لیکن دوسرے عقائد رکھنے والے شکر ادا کر سکتے ہیں کہ مری بروری والوں نے وہ نہیں کیا جو ہر ریڑھی والا، دکان دار اور ٹرانسپورٹر کرتا ہے جب اُسے تھوڑا سا بہانہ ملے۔ یعنی تیل یا بجلی کی قیمتوں میں تھوڑا سا اضافہ ہوا تو دکان دار اور ٹرانسپورٹر حضرات نے تین گنا قیمتیں بڑھا دیں ۔ 
اِس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیدھی راہ پہ کون ہے اور ٹیڑھے پہ کون چل رہا ہے۔ اگر حالات خراب بھی ہیں تو اسے غنیمت جاننا چاہیے کہ کسی ایک شعبے میں مہنگائی کے نام پہ ڈنڈی نہیں ماری جا رہی ۔ کل کے ہی اخبارات میں ایک مشہور کار بنانے والوں کی طرف سے نمایاں اشتہار تھا کہ روپے کی گرتی قیمت کے پیش نظر انہوں نے فی الحال نئے آرڈر لینا بند کر دئیے ہیں۔ لیکن بروری والوں نے تو ایسا نہیں کیا حالانکہ وہ بھی عُذر پیش کر سکتے تھے اور رندانِ قوم میں صفِ ماتم بچھ جاتی ۔
ایک تو یہ ہے کہ مقامِ رند قائم رکھنے والے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ اتنا روتے نہیں ۔ کچھ ہو بھی جائے تو غم بھلانے کے اُنہیں ہزار طریقے آتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ہے کہ اِس موقع پہ اُن کے رونے کا کوئی جواز نہیں کیونکہ اُن کا گولڈن ٹمپل ایک ہی ہے جس کا نام ہے‘ مری بروری ۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اسلام کے نام پہ بہت کچھ کیا لیکن مقامِ شکر ہے کہ اپنی تمام تر نقلی اسلامائزیشن کے باوجود اُنہوں نے مری بروری کو بند نہ کیا‘ حالانکہ اُن کی قیام گاہ مری بروری سے چند فرلانگ کے فاصلے پہ تھی۔ سوچنے کا مقام ہے کہ اگر اپنے مصنوعی جذبۂ اسلام میں وہ مری بروری پہ بھی ہاتھ رکھ دیتے تو رندانِ قوم کا حشر کیا ہوتا۔ 
یہی فرق ہے ہمارے نظامِ اسلام اور اُس نظامِ تقویٰ میں جو کہ سعودی عرب اور ایران میں رائج ہے ۔ اِن دونوں ممالک میں جو کہ اپنے آپ کو اپنے طرزِ اسلام کا علم بردار سمجھتے ہیں‘ مری بروری جیسی کوئی گنجائش موجود نہیں ۔ اگر وہاں کچھ ہے تو وہ زیر زمین اور صریحاً خلاف قانون ہے ۔ مری بروری اور اقلیتوں کے لئے چھوٹ ایک قانونی راستہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھ نعروں اور دعووں کے باوجود پاکستان بہ نسبت سعودی عرب اور ایران ایک روادار ملک ہے ۔ ہماری رواداری کی دو اور پہچان بھی ہیں... میڈیا اور عدالتی نظام ۔ ہمارے جیسا میڈیا اور ہمارے جیسا عدالتی نظام سعودی عرب اور ایران میں نا قابل تصور ہے ۔ تو جہاں ہم بہت کچھ پہ روتے ہیں اور روتے روتے رونے کے ماہر بھی ہو گئے ہیں‘ جو آزادیاں یہاں ہیں اُن کی قدر کرنی چاہیے۔
واقفانِ حال یہ بھی بتاتے ہیں کہ ثقافتی محاذ پہ بھی ریٹ اور قیمتوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ۔ نہیں تو عذر موجود ہے کہ بجلی کی قیمتیں بڑھ گئیں ، گیس کی قیمت بڑھ گئی ، ٹرانسپورٹر من مانی کر رہے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی اپنے ریٹ بڑھا دیں ؟ لیکن ایسا نہیں ہوا‘ اور جو پروگراموں کے ریٹ پہلے تھے اَب بھی وہی قائم ہیں ۔ 
جہاں تک میں انداز ہ لگا سکتا ہوں‘ زمین اور جائیداد کی قیمت بھی اتنی نہیں بڑھی جتنی کہ روپے کی گرتی ساکھ کے مطابق ہو سکتی تھی ۔ اَب بھی یہی سُننے میں آ رہا ہے کہ جو مرلے یا کنال کی پہلے قیمت تھی اَب بھی برقرار ہے ۔ لیکن جنہوں نے بینکوں میں رقوم رکھی ہوئی تھیں اور اَتنے ہوشیار نہ تھے کہ روپوں کو ڈالروں میں تبدیل کر لیتے وہ ضرور رو رہے ہوں گے ۔ بینکوں میں پڑی رقم تخیلاتی چیز ہوتی ہے ۔ مثلاً یہ کہ ایک کروڑ روپے ہیں تو میں اِس سے یہ حاصل کر سکتا ہوں ۔ یہ جمع تفریق کا عمل ذہنوں میں گردش کر رہا ہوتا ہے ۔ لیکن جن کے پاس ایک کروڑ روپے جمع نہیں ہیں اور اُنہوں نے کہیں پیسہ انویسٹ نہیں کرنا اور اُن کا اولین مطمح نظرشام کیسے گزرے گی ہوتی ہے، اُن کی بلا جانے کہ روپے کی قدر و منزلت اُوپر جا رہی ہے یا نیچے ۔ اگر مری بروری کی قیمتیں نہیں بڑھیں اور ثقافتی محاذ بھی پُر سکون ہے، یعنی پروگراموں کے ریٹ نہیں بڑھے ، تو پھر کراچی سٹاک ایکس چینج کا کیاحال ہے‘ اُس سے رندانِ ملت کو کیا فرق پڑتا ہے ؟ بعض سیٹھ لوگ سٹاک ایکس چینجوں میں مصروف عمل رہتے ہیں اور کوئی اُن کی شکلیں دیکھے تو دل ویسے ہی بیٹھ جاتا ہے ۔ ایسی امیری سے تو غربت بہتر بشرطیکہ غربت میں بھی سامانِ شام کے اَسلوب موجود ہوں۔
ایک غم ہو تو بات ہے ۔ اُن صاحبانِ زر و آسائش کا بھی خیال کرنا چاہیے جن پہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام ہے ۔ ہالی ووڈ میں ہاروی وائن سٹائن (Harvey Weinstein) کتنا طاقتور شخص تھا۔ خوبرو سے خوبرو ایکٹریسیں اُس کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگی رہتیں کیونکہ اُس نے دستِ مہربانی سر پہ رکھا تو ایک سٹارلٹ سٹار بن گئی۔ لیکن ہاروی وائن سٹائن کو بھی دیکھیے، اُسے کسی چیز کی کمی نہ تھی لیکن واہیاتی سے باز نہ آتا۔ جب سے اُس پہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات لگے ہیں اور وہ منہ چھپائے پھرتا ہے۔ بہت ساری ایکٹریسیں اُس کے خلاف الزامات کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔ بیشتر کہانیاں ایسی ہیں کہ انسان کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے ۔ پیسے اور اثر رکھنے والی شخصیات کیلئے خواتین سے تعلقات پیدا کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ لیکن آپ واہیاتی سے باز نہ آ سکیں تو الگ قصہ ہے ۔ ظاہر ہے کچھ ایسی چیزیں ہیں جو یہاں بیان نہیں کی جا سکتیں‘ لیکن پھر کہوں گا کہ ہاروی وائن سٹائن کے ایڈونچر خاصے مضحکہ خیز ہیں ۔ 
ہندوستان میں بھی یہ رجحان زور پکڑ رہا ہے اور نانا پاٹیکر جیسے ایکٹر کے خلاف سنگین الزامات سامنے آئے ہیں ۔ سچ پوچھیے تو نانا پاٹیکر لگتا ہی ایسے تھا۔ اَب سُنا ہے اُس کے خلاف مقدمہ بھی درج ہو گیا ہے ۔ بڑا بدمعاش بنتا تھا ، مقدمے کا اَب سامنا کرے حالانکہ بہت ساری اکڑ پہلے ہی جا چکی ہے ۔ 
حیرانی تو مجھے سابق مشہور ایڈیٹر اور ہندوستان کے موجودہ نائب وزیر خارجہ ایم جے اکبر پہ ہوئی ۔ اَب سامنے آیا ہے کہ نوجوان لڑکیوں کا نوکریوں کیلئے انٹرویو بڑے ہوٹلوں کے بیڈ رومز میں لیتے ۔ کوئی آتی تو دعوت دیتے کہ میرے پاس بیٹھو ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ذُو معنی باتوں کے بادشاہ تھے اور کوئی 'ناں‘ کہے تو اُس بات کی اُنہیں آسانی سے سمجھ نہ آتی تھی ۔ ایم جے اکبر ہمارے دوست رہے ہیں اور ہم نے دلی میں ایک آدھ شام بھی ساتھ گزاری ہے ۔ نہایت ذہین آدمی ہیں اور نامور ایڈیٹر رہے ہیں ۔ تقریباً میرے ہم عمر ہیں اور ہم جیسی عمر والوں کا اکثر یہ مسئلہ رہتا ہے کہ ہم 'ناں‘ کا مطلب آسانی سے نہیں سمجھ پاتے ۔ 
ایم جے اکبر کا سُن کے میں نے اپنا چہرہ غور سے آئینے میں دیکھا ۔ کافی مماثلت لگتی ہے ۔ وہی بیشتر بالوں کے بغیر سر، وہی 65-70 والی شکل ۔ اور وہی کمزور ایمان ۔ ایک دم خیال آیا کہ احتیاط لازم ہے اور اگر 'ناں‘ کا لفظ سُنا جائے اُس کا مفہوم فوراً سمجھ لینا چاہیے۔ اَب تو کسی کی تعریف بھی کرنا پڑی تو احتیاط برتنی ہو گی کہ مطلب غلط نہ سمجھا جائے ۔ 
پاکستان میں ابھی یہ رجحان نمودار نہیں ہوا ۔ صرف وہ ایک قصہ میشا شفیع اور علی ظفر والا ہے ۔ وہ بھی مجھے کافی حیران کن لگتا ہے ۔ میشا شفیع کے جاذب ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن علی ظفر بھی بڑا سمارٹ اور شکل والا ہے ۔ اُس پہ تو خود لوگ ڈُلیں، واہیاتی کی اُسے کیا ضرورت؟ لیکن میشا شفیع کا الزام ہے اور اُس کا تعلق اچھے گھرانے سے ہے ۔ جب تک معاملہ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچتا کچھ کہنا مشکل ہے ۔ لیکن اس والے قصے میں ایک چیز سے تسلی ضرور ہوئی کہ اگر علی ظفر جیسے خوبرو نوجوان پہ واہیاتی کا الزام لگ سکتا ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ٹھہرے۔ 
اول تو کسی نے الزام لگانا نہیں ۔ نوبت ہی وہاں تک نہیں آئے گی ۔ لیکن الزام لگ بھی جائے تو کم ازکم اچھی کمپنی میں تو ہوں گے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved