تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     08-04-2013

’’لوٹے‘‘

اگر ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت پیپلزپارٹی کی اکثریت میں منظور شدہ 1973ء کے آئین کی اسلامی دفعات کا ذراسا بھی احترام ہوتا تو ریٹرننگ آفیسر امیدواروں سے دعائے قنوت سنانے کا کہتے اور امیدوار سناتے ہوئے سر سے پائوں تک کانپ جاتے ۔ اللہ کے خوف سے ان کی زبانیں لڑکھڑاجاتیں اور وہ آخرت کی جوابدہی کے احساس سے شرمندگی اور خجالت کی تصویر بن جاتے۔ اس لیے کہ دعائے قنوت میں ہم روز اللہ کے ساتھ وعدہ کرتے ہیں: ’’ونخلع ونترک من یفجرک‘‘( اے اللہ ہم ہر اس شخص کا بائیکاٹ کرتے ہیں جو تیری نافرمانی کرے)ایسا وعدہ اگر پیپلزپارٹی کے ارکان نے آصف زرداری سے کیا ہوتا، مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے نواز شریف سے ، اے این پی والوں نے اسفندیار ولی سے ، ایم کیوایم والوں نے الطاف حسین سے اور جمعیت علمائے اسلام والوں نے مولانا فضل الرحمن سے کیا ہوتا تو اس وعدے پر عملدرآمد نہ کرنے کے نتائج سے ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جاتیں۔ انہیں پارٹی میں غداری کے طعنے سننے پڑتے۔ میڈیا پر انہیں منافقت اور دوغلے پن کے القابات کا سامنا کرنا پڑتا۔ لیکن ہم نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ اس مالک حقیقی کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو ایک مذاق کے طورپر لیتے ہیں اور اب اس جمہوری نظام میں اس کا تمسخراڑانے والے دانشوروں ، تجزیہ نگاروں ، سیاسی جغادریوں اور اینکر پرسنز کی موج ہے۔ کیسے مزے لے لے کر اس پورے تصور کا مذاق اڑایا جاتاہے جس میں زمین پر اللہ کی حاکمیت کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اللہ کی حاکمیت تو اپنی جگہ پر ،وہ قادر مطلق بھی ہے جو اپنی حاکمیت کے انکار کے بارے میں روز محشر خود سوال کرے گا۔ اُس ذات پاک نے امتحان کے لیے ایک مہلت عطا کی ہے اور کسی بھی ممتحن کی شان کے خلاف ہے کہ وہ تین گھنٹے کا پرچہ حل کرنے کی مہلت کو ختم کرکے ایک گھنٹے بعد ہی اس کا نتیجہ سنا دے۔ اس کے صحیفہ قانون ،قرآن پاک پر تو ہم عمل کرنے سے کتراتے ہیں لیکن وہ آئین جو پاکستان کی پہلی منتخب جمہوری اسمبلی نے 1973ء میں پاس کیا تھا، کیا ہم نے اس پر عملدرآمد کیا ؟ہم اس کو دل وجان سے مانتے ہیں یا نہیں؟ میں یہاں اس آئین کی وہ شقیں درج کررہا ہوں جو ضیاء الحق کی آمد سے کئی سال پہلے منظور کی گئی تھیں اور ان میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی۔ یہ اسلامی دفعات ذوالفقار علی بھٹو کی اسمبلی کی عطا کردہ ہیں: آرٹیکل 31:(1)پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طورپر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں ایسی سہولیات مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مددسے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کے مفہوم کو سمجھ سکیں۔ (2) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوششیں کرے گی۔ (الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی سیکھنے کا بندوبست کرنا اور اس کے لیے سہولیات بہم پہنچانا اور قرآن پاک صحیح اور من وعن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔ (ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا۔ اسی آئین کا آرٹیکل 227یہ پابندی عائد کرتا ہے :’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو‘‘۔ اس کے علاوہ اس آئین میں حکم دیا گیا ہے کہ تمام حکومتیں سود کے خاتمے کے لیے عملی طورپر اقدامات کریں۔ میں نے آئین میں سے کوئی ایسی شق یہاں تحریر نہیں کی جسے کسی آمر نے اس میں شامل کی ہو اس لیے کہ آمروں کی دواقسام ہیں …ایک وہ جو نماز پڑھتا تھا جیسے ضیاء الحق اور دوسرا وہ جو طائوس ورباب والا تھا جیسے پرویز مشرف ، اسی لیے انسانی حقوق کے علمبردار ضیاء الحق کی ترامیم کو آمرانہ کہتے ہیں اور پرویز مشرف کی خواتین نشستوں کی ترمیم کو سینے سے لگاتے ہیں۔مذکورہ تمام اسلامی دفعات ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کی عطا کردہ ہیں، بلکہ اس ملک میں ناموس رسالت کے تحفظ اور سید الانبیاءﷺکی نبوت کی حُرمت کے لیے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کااعزاز بھی بھٹو اور اس کی اسمبلی کو حاصل ہے۔ جمعہ کی چھٹی، شراب پر پابندی، جوئے اور ریس کورس پر پابندی جیسے احکامات بھی ذوالفقار علی بھٹو نے جمہوری نمائندہ ہونے کی حیثیت سے جاری کیے۔ آپ آئین کی یہ ذمہ داریاں پڑھ لیں جو وہ ارکان اسمبلی پر عائد کرتا ہے ، پھر صرف عقل و ہوش سے یہ سوچیے کہ جس اسمبلی میں قوانین کی تدوین اسلامی اصولوں کے مطابق ہونا ہے ،جہاں سود کے خلاف معاشی نظام وضع ہونا ہے ، جہاں قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق اجتماعی زندگی اور معاشرے کو ڈھالنا ہے ،جہاں لوگوں کو عربی کی تعلیم دے کر معاشرے کو قرآن فہمی سے روشناس کرانے کے لیے انتظامات کرنے ہیں، وہاں کس قسم کے ارکان اسمبلی کو جانا چاہیے۔ دنیا کے ہرانتخاب میں ایک بنیادی اصول کارفرما ہوتا ہے۔ ماہرینِ امراضِ چشم کی تنظیم کے انتخابات میں ایک عام ڈاکٹر بھی حصہ نہیں لے سکتا حالانکہ اس نے تھوڑا بہت امراضِ چشم کا علم بھی پڑھا ہوتا ہے۔ سول انجینئرز کی تنظیم کسی الیکٹریکل انجینئر کو گھسنے بھی نہیں دیتی حالانکہ بنیادی مضامین ایک طرح کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح سول سروس کی تنظیموں سے لے کر جم خانہ اور روٹری کلب تک ممبران کی چھان بین کا ایک طریق کار ہوتا ہے۔ کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ خوشی خوشی وہ سب معلومات فراہم کرتا ہے اور ان شرائط پر عمل بھی کرتا ہے۔ کیا کسی ایوان صنعت و تجارت میں ایم بی اے پڑھانے والے کو صدر بنایا گیا حالانکہ وہ کاروباری امور سکھانے پر عمرصرف کرچکا ہوتا ہے۔ سارے کے سارے تاجر مل کربھی چاہیں تو ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ وہ اس چھان بین کے مطابق ایوان صنعت و تجارت کارکن ہی نہیں بن سکتا ہے۔ لیکن پارلیمنٹ کو ایسا مذاق بنادیاگیا ہے جس میں کسی کو کہیں سے بھی اٹھا کر اور کسی بھی تعلیمی حیثیت وقابلیت اور کسی بھی کردار کے حامل ہونے کے باوجود ایسے قانون بنانے کا اختیار دے دیا جائے جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں۔ ان قوانین کے مرتب کرنے والوں کی اہلیت کے لیے ہی آرٹیکل 62اور 63رکھے گئے ہیں۔ یہ آئین کا حصہ ہیں اور اس پر آٹھ اسمبلیوں نے مہر تصدیق ثبت کی ہے ،جو ان کو نہیں مانتا اس میں اور طالبان اور صوفی محمد میں کوئی فرق نہیں، وہ اور بلوچستان کے علیحدگی پسند ایک صف میں کھڑے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ چالیس سال پہلے بننے والے آئین کے مطابق اگر عربی زبان عام کرنے کی ذمہ داری پوری ہوتی ، اسمبلیاں اور حکومتیں سود ختم کردیتیں، اسلامی طرز زندگی کو استوار کرلیتیں تو آج نہ کسی کو ایسے سوال پوچھنے پر شرمندگی ہوتی اور نہ پوچھنے والے کا مذاق اڑایا جاتا۔ ہماری منافقت یہ ہے کہ ہم اللہ کے ساتھ روزانہ کیے جانے والے وعدے کا مذاق اڑاتے ہیں اور پارٹی کے صدر سے کیے جانے والے وعدوں سے پھرجانے والوں کو ’’لوٹا‘‘کہتے ہیں ۔کوئی گریبان میں جھانک کر دیکھ لے کہ اگر روز حشر ہمیں ’’لوٹا‘‘ کہہ دیا گیا تو ہمارا کیا حشر ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved