تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     13-10-2018

ہمارے جنگلی جانور…(2)

ہاتھی
محاورہ ہے کہ ہاتھی سب کا ساتھی۔ حالانکہ وہ کسی کا ساتھی نہیں ہوتا‘ کیونکہ اس کا حجم ہی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اسے کسی کا ساتھی ہونے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ اس طرح ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں بھی کافی مہمل لگتا ہے۔ منقول ہے کہ کسی گاؤں سے ایک ہاتھی والا پہلی بار گزرا تو لوگ اسے دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ ہاتھی والے سے پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے تو اس نے جواب دیا یہ ہاتھی ہے۔ لوگ اپنے سردار کے پاس گئے ہاتھی کو ساتھ لے کر۔ اور اسے بتایا کہ اسے یہ شخص ہاتھی کہتا ہے۔ سردار نے اپنی ڈائری میں لکھ لیا۔ اس کے بعد ایک امرود بیچنے والا اُدھر سے گزرا تو لوگوں نے اس سے پہلے امرود بھی کبھی نہیں دیکھا تھا، چنانچہ وہ اسے بھی اپنے سردار کے پاس لے گئے اور اس کی ڈائری میں امرود لکھوا دیا۔ کوئی دو سال بعد جب ایک بار پھر ہاتھی وہاں سے گزرا تو اُنہیں یاد نہیں رہا تھا کہ اسے کیا کہتے ہیں، سو وہ اسے سردار کے پاس لے کر گئے اور کہا کہ یہ پہلے بھی یہاں سے گزرا تھا، آپ اپنی ڈائری دیکھ کر بتائیں کہ یہ کیا ہے۔ سردار نے اپنی ڈائری کھولی اور دیکھ کر بولا:''یہ ہاتھی ہے یا امرود!‘‘ مزید منقول ہے کہ روس میں ایک استاد کو معلوم ہوا کہ اس کے ایک شاگرد نے کینیڈا جا کر مصوری میں بڑا نام پیدا کیا ہے۔ چنانچہ وہ اسے ملنے کیلئے چلے گئے، شاگرد انہیں بالائی منزل پر اپنی گیلری دکھانے کیلئے لے گیا۔ استاد صاحب تصویریں دیکھ کر بہت خوش ہوئے لیکن ایک ہاتھی کی تصویر دیکھ کر بولے:یہ تم نے ہاتھی بنایا ہے؟ اس کے دانت تو سیدھے ہوتے ہیں لیکن تم نے انہیں گولائی میں اوپر اٹھا دیا ہے۔ اگلی بار جب میں آؤں تو یہ تصویر ٹھیک ہونی چاہیے۔ چنانچہ جب استاد صاحب دوسری بار آئے تو تصویر دیکھ کر اطمینان کا اظہار کیا کہ اب ٹھیک ہے۔ جس پر شاگرد بولا۔''استادِ محترم۔ اس تصویر میں سے مَیں نے اپنا آپ نکال دیا ہے۔ اب اس میں صرف ہاتھی رہ گیا ہے!‘‘
گیدڑ
یہ صرف اپنی گیدڑ بھبکیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کی شیر کے مقابلے میں عمرکے حوالے سے بھی بہت مبالغے سے کام لیا گیا ہے۔ کتّا اس کا جانی دشمن ہے۔ ایک بار ایک گیدڑ کو اخبار کا ٹکڑا کہیں سے ملا تو اس نے سب گیدڑوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ مجھے یہ پرمٹ مل گیا ہے اور اب ہمیں کتوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہم بے دھڑک گاؤں میں جا سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ ان سب کو لے کر گاؤں کی طرف روانہ ہوا۔ وہ ابھی گاؤں سے باہر ہی پہنچے تھے کہ کُتے ان پر حملہ آور ہو گئے جس پر وہ پچھلے پاؤں بھاگے تو ان میں سے ایک نے اپنے سردار سے کہا: انہیں پرمٹ دکھاؤ، جس پر وہ بولا:''قدموں پر زور دو، بھائیو! یہ سب ان پڑھ ہیں!‘‘
لُومڑی
اسے بہت چالاک سمجھا جاتا ہے لیکن وہ بیوقوف بھی ہوتی ہے۔ ایک بھوکی لومڑی کے بارے میں بتایا گیاہے کہ وہ ایک اونٹ کے ساتھ ساتھ اس اُمید پر کوئی میل بھر چلتی گئی کہ اس کا لٹکتا ہوا نچلا ہونٹ ابھی گرا کہ گرا۔ اور اس کے ناشتے کا سامان ہو جائے گا۔ ایک لومڑی جنگل میں تیز تیز دوڑی جا رہی تھی تو کسی نے پوچھا، اتنی خوفزدہ کیوں ہو؟ تو اُس نے کہا کہ جنگل میں فوج آ گئی ہے اور وہ تین کانوں والے جانوروں کو مار رہے ہیں۔ ''لیکن تمہارے تو دو ہی کان ہیں!‘‘ اس سے پوچھا گیا، تو لومڑی بولی:''کان وہ گولی مارنے کے بعد گنتے ہیں!‘‘
بندر
ڈارون کی تھیوری یہ ہے کہ انسان پہلے بندر ہوتا تھا جو ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے انسان بن گیا۔ اور اگر یہ صحیح بھی مان لیا جائے تو اب یہ سلسلہ کیوں بند ہو گیا ہے اور اب بندر انسان کیوں نہیں بنتے؟ ناپ تول میں یہ جو کچھ کرتا ہے،دوبلیوں کی کہانی سے آپ کو معلوم ہی ہوگا۔ ایک شعر ہے ؎
نانِ جویںپہ نام ہمارا بھی تھا، مگر
تقسیم کے لئے کوئی بندر بٹھا دیا
منقول ہے کہ ٹوپیوں کا ایک سوداگر کہیں جا رہا تھا، دھوپ اور گرمی سے گھبرا کر اس نے ایک درخت کے تنے سے ٹیک لگائی۔ ٹوپیوں کی گٹھڑی پاس ہی رکھی کہ تھکان بھی اتر جائے گی۔ اتنے میں اسے اونگھ آ گئی جب اس کی آنکھ کھلی تو گٹھڑی خالی تھی۔ اس نے اوپر نظر اُٹھائی تو اس نے دیکھا کہ درخت پر متعدد بندر اس کی ٹوپیاں پہنے بیٹھے ہیں۔ سوداگر نے اُنہیں نیچے اُترنے کے بہت اشارے کیے لیکن وہ اُلٹا اُس کی نقلیں اتارنے لگے۔ آخر اسے ترکیب سوجھی اور اپنی ٹوپی سر سے اتار کر دور پھینک دی۔ اس پر ایک بندر نیچے اترا اور یہ کہتے ہوئے اس کی ٹوپی اُٹھا کر درخت پر چڑھ گیا کہ ہم نے بھی وہ کہانی پڑھی ہوئی ہے اس لیے ہم اتنے بیوقوف نہیں ہیں کہ تمہاری نقل کرتے ہوئے ٹوپیاں پھینک دیں!
بارہ سنگھا
بارہ سنگھا اسے غلط طور پر کہتے ہیں کیونکہ اس کے سینگ بارہ نہیں بلکہ نو دس ہی ہوتے ہیں اس لیے اسے نو سنگھا یا زیادہ سے زیادہ دس سنگھا کہنا چاہیے۔ منقول ہے کہ دو شکاری دوستوں نے بارہ سنگھوں کے شکار پر جانے کے لیے ایک چھوٹا جہاز کرائے پر لیا ۔ جنگل میں پہنچ کر انہوں نے چھ تگڑے سے بارہ سنگھے شکار کر لئے۔ واپسی پر جب انہیں جہاز پر لادنے لگے تو پائلٹ نے کہا کہ جہاز چھوٹا ہے اور اس پر اتنا بوجھ نہیں لادا جا سکتا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ہم نے پورا کرایہ دیا ہوا ہے، نیز پچھلے سال بھی ہم نے چھ بارہ سنگھے شکار کیے تھے جنہیں ہم نے لاد لیا تھا۔ یہ سن کر پائلٹ لاجواب ہو گیا اور بارہ سنگھے لاد لیے گئے۔ جہاز اُڑا تو تھوڑی دور جا کر ناک کے بل نیچے آ رہا۔ دونوں شکاری اتفاق سے بچ گئے۔ جہاز کے ملبے سے نکل رہے تھے کہ ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ تمہارے خیال میں یہ کونسی جگہ ہے؟ دوسرے نے کہا:میرے خیال میں یہ وہی جگہ ہے جہاں ہم پچھلے سال گرے تھے!‘‘
آج کا مطلع
خدا کا حکم ہے اور یہ عبادت کر رہا ہوں
جو اُس کے ایک بندے سے محبت کر رہا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved