بیرون ملک مقیم پاکستانی لاہور‘ اسلام آباد‘ کراچی اور کسی بھی بڑے شہر میں اپنے لئے نیا گھر ‘ایک ‘ دو کنال کا پلاٹ یا دس‘ پندرہ کنال کا فارم ہائوس تعمیر کرنے کے لیے پانچ سے پندرہ لاکھ ڈالر یا اس سے بھی زیا دہ رقم بڑے شوق اور خوشی سے پاکستان بھیجتے ہیں ۔کوئی ایک بھی اوور سیز پاکستانی اگر میری یہ چند سطریں پڑھ رہا ہے تو اس سے سوال کرنا چاہوں گا کہ جو گھر ‘ فارم ہائوس‘ پلازہ اور بنگلہ آپ اپنے لئے لاکھوں ڈالروں سے تعمیر کرنے جا رہے ہیں‘تو کیا آپ چاہیں گے اس کی بنیادیں کھوکھلی اور کمزور ہوں؟بس یہی میرا آج کا مضمون تھا‘ یہی کچھ میں ہر اوور سیز پاکستانیوں سے کہنا چاہتا تھااور سمجھنے والے میری ان گزارشات کی تہہ تک پہنچ گئے ہوں گے ۔اوور سیز پاکستانی آج خود کو جتنا بھی امریکی‘ برطانوی‘ جرمن‘ فرانسیسی‘ نارویجن‘ یونانی‘ آسٹریلوی سمجھ لیں مگر ایک دن ان سب کو بزور طاقت اپنے وطن دھکیلا جائے گا‘بس صرف اتنی سی بات تھی جو اوور سیز پاکستانی اور ان کے خاندان سمجھ نہ سکے اور جس نے وزیراعظم عمران خان کو اس کی حکومت کے پہلے پچاس دنوں میں ہی چالیس سال سے ملک کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹنے والے زرداری اور شریف برادران اور اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان جیسوں کے بد ترین حملوں کا نشانہ بنا کر رکھ دیا۔ یہ بات کوئی راز نہیں بلکہ وہ اعتماد تھا جو عمران خان نے آپ سب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے یہ عہد کرتے ہوئے وابستہ کر رکھا تھا کہ آپ کو ایک مضبوط اور خود دار ملک دوں گا جہاںہر پاکستانی فخر سے آنا پسند کرے گا‘لیکن عمران خان کو پہلا دھچکا انہی بیرون ملک بیٹھے اپنے محب وطن لوگوںکے ہاتھوںپہنچ گیا ۔ یہ اوور سیز پاکستانی عمران خان کی اس پہلی شکست پر اسے چڑچڑے لوگوںکی بے جا تنقید کا ہدف بنتے دیکھ رہے ہوں گے ۔ہیوسٹن میں مقیم میرے ایک دوست نے‘ جو وزیر اعظم عمران خان کے زبردست سپورٹر ہیں‘ فون پرکہنے لگے : یہاں پر ہمیں بہت وضاحتیں دینی پڑ رہی ہیں کہ عمران خان کیا کر رہا ہے۔ میں نے اسے صرف اتنا ہی کہا: کاش آپ سب انہیں آئی ایم ایف کے آگے جھکنے کے لیے نہ بھیجتے۔ یاد رکھنا جب تاریخ لکھی جائے گی تو اس کا ایک الزام ان اوور سیز پاکستانیوں پر بھی آئے گا اور آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی یہ شکست عمران خان کی نہیں بلکہ ان سب کی شکست ہے جو پاکستان کو بھارت کے مودی اور جندال کے قدموں میں بیٹھانہیں دیکھ سکتے ۔ عمران خان کو نہ جانے کیوں یقین ہو چلا تھا کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے غیور پاکستانی اپنے نئے پاکستان کے سربراہ کی سکہ بند ایمانداری پر اعتماد کرتے ہوئے ڈالروں کی شکل میں بھیجی جانے والی اپنی امانتوں کے ایک ایک روپے کا پاسبان پائیں گے۔ ان سے ماضی کی طرح فراڈ نہیں ہو گا ان کا بھیجا گیا ایک ایک ڈالر امانت سمجھ کر سنبھالا جائے گا‘ لیکن اس کا یہ خواب چکنا چور ہو گیا ۔ کاش کہ بیرون ملک مقیم پانچ لاکھ پاکستانی ‘جن کے پاس اﷲ کے فضل سے پانچ کھرب سے بھی زیا دہ ڈالرز ہیں اگر وزیراعظم عمران خان کی اپیل پر فی کس پچیس ہزار سے ایک لاکھ ڈالر بینکوں کے ذریعے پاکستان بھیج دیتے تو آج پاکستان میں نہ تو یہ مہنگائی ہونی تھی اور نہ ہی کسی آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتے ۔ جناب وزیر اعظم میں جانتا ہوں کہ آپ کا باہر مقیم لاکھوں پاکستانیوں کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے حب الوطنی کے جذبے پر مان اور یقین ہی تھا جس نے آپ کی زبان سے جلسوں اور دھرنوں میں یہ بار بار کہلوایا کہ مر جائوں گا آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا‘کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ بیرونی ممالک مقیم غیرت مند پاکستانی آئی ایم ایف کے آگے آپ کو ہاتھ پھیلاتا ہوا نہیں دیکھیں گے اور اسی یقین اور اندھے اعتماد نے آپ کو بار بار یہ کہنے پر اکسایا کہ اگر عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے تو وہ آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے خود کشی کو ترجیح دیں گے۔اور یہ پیغام تھا اوور سیز پاکستانیوں کے لیے۔
عمران خان سے غلطی یہ ہوئی کہ شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی جیسے تجربے کی بنیاد پر ان کا یقین تھا کہ چاہے کچھ ہو جائے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا۔کاش اس وقت عمران خان اتنا ہی سوچ لیتے کہ وہ بسوں ویگنوں سے بھتہ لینے والے طالب علم لیڈر نہیں تھے۔ وہ پی آئی اے کی انتظامیہ سے مل کر نورا کشتی کرنے والوں کی طرح اس ادارے کی مزدور یونین کے صدر نہیں تھے ‘وہ ایک طاقت ور اور مقبول جماعت کے سربراہ ہیں اور وزیر اعظم ہیں ۔ عمران خان تو آئی ایم ایف کے آگے اس وقت جھکنے پر مجبور ہوئے جب انہیں کہا گیا کہ ہم دیئے گئے قرضوں کا4.8 ملین ڈالر سود لینے کے لیے آئے ہیں اور جب انہیں خالی جیب دکھائی گئی تو انہوں نے کہا کہ آج اور اسی وقت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہمارے حکم کے مطا بق اضافہ کرواور یہ اضافہ آئی ایم ایف نے اس وقت کرایا جب عمران خان کی مرکزی اور پنجاب حکومت کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے ضمنی انتخابات میںصرف دس دن باقی رہ گئے تھے۔ جب اسحاق ڈار نے 8.5 فیصد پر سکوک بانڈز فروخت کئے تھے اس وقت ایچی سونین کے منصور کہاں تھے۔ دنیا نیوز کی رپورٹ کے مطا بق جب لاہور ویسٹ کمپنی کے نام پر45 ارب روپے گٹروں میں اس طرح بہا دیئے گئے کہ آج ان کا کوئی نام و نشان ہی نہیں مل رہا تو اس وقت پیپلز پارٹی کے نواز شہباز کی محبت میں پاگل ہو جانے والے شور شرابے کدھر تھے۔ جب شہباز شریف نے1700 ارب روپے کا قرضہ لے کر پنجاب میں56جعلی کمپنیاں بناتے ہوئے ان کے افسران کو2020 ء تک کی تنخواہیںایڈوانس میں یک مشت ادا کیں تو اس وقت خانزادے کدھر تھے۔جب اسحاق ڈار چین سے اس وقت کی سب سے بڑی شرح سود 6 فیصد پر قرض وصول کر رہا تھا اس وقت شکست و نصرت کہاں تھی۔ جب سستی روٹی سکیم کے نام پر 43 ارب تندوروں کے نام پر اپنی ہی جیبوں میں چھپائے جا رہے تھے اس وقت زندہ جاوید کہاں تھے۔جب وزیر اعظم ہائوس کی8 بھینسوں کے سالانہ دیکھ بھال اور چارے کے اخراجات 13 کروڑ روپے تک پہنچائے جا رہے تھے اس وقت نیو خان کا دھیان کنڈیکٹر خان کدھر تھا۔جب نندی پور پاور پراجیکٹ کی بجلی پچیس روپے میں دینے کی منظوری دی جارہی تھی اس وقت روغن بادام تیار کرنے والوں نے اس کی مالش کیوں نہ کی ۔جب شاہد خاقان عبا سی اقتدار چھوڑنے سے دو دن پہلے200 ارب روپے نواز لیگ کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینے والوں کو تقسیم کر رہا تھا تو اس وقت صافیاں ٹافیاں کیا کر رہی تھیں۔ 31 مئی کو جب میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی مسلم لیگ نواز حکومتیں اپنی پانچ پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے بعد اقتدار نگران حکومت کو سونپتی ہیں تو حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان پر نواز لیگ 2700 ارب کا مالیاتی خسارہ چھوڑ جاتی ہے اور سب سے بڑا پہاڑ جو اس ملک و قوم کی گردنوں میں ڈالتی ہے وہ بیرونی مالیاتی اداروں کا94 ارب ڈالر قرضہ ہے۔فریب کاریوں کا تماشا کرتے ہوئے عام انتخابات سے تین ماہ قبل اس قوم کو'' کہاں ہے لوڈ شیڈنگ‘ہم نے کہا تھا نا کہ اندھیرے ختم کر کے جائیں گے۔ بھائیو اب بتائو بجلی جاتی ہے‘‘ اور یہ ناٹک پاکستانیوں کو1180 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی صورت میں آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سوئی گیس کا خسارہ154 ارب روپے‘سٹیل مل کراچی کا خسارہ 183 ارب روپے‘پی آئی اے کا خسارہ360 روپے‘یوٹیلیٹی سٹورز کا خسارہ14 روپے‘ میٹرو کا8ارب اور ریلوے کا37 ارب روپے خسارہ چھوڑ کر جانے والی نواز لیگ کہہ رہے کہ آئی ایم ایف کیوں گئے ہو؟