معاشرے ہزار خرابیوں کے باوجود زندہ اور برقرار رہتے ہیں مگر چند ایک خامیاں اور کمزوریاں ایسی ہیں جو کسی بھی حال میں ناقابلِ برداشت ٹھہرتی ہیں اور معاشرے کا تانا بانا بکھیر کر رہتی ہیں۔ تضاد کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ پاکستانی معاشرے کی چند انتہائی نمایاں اور بنیادی خرابیوں میں تضاد کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
آج کے پاکستان میں قدم قدم پر تضاد دکھائی دیتا ہے۔ یعنی زمینی حقیقت کچھ ہے اور ہمارے سامنے جو کچھ بھی ہے وہ کچھ اور ہے۔ تضاد کو ذہنی ساخت، بلکہ زندگی کا حصہ بناکر ہم بہت سی نعمتوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر دل کا قرار ہے جو ایسا گیا ہے کہ واپسی کا نام نہیں لے رہا۔
معیشت اور معاشرت دونوں کا حال یکساں ہے۔ دونوں ہی خرابی کی آغوش میں بیٹھے ہیں۔ ویسے تو خیر زندگی کو خانوں میں بانٹا نہیں جاسکتا مگر پھر بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ معاشرتی زندگی کو معاشی زندگی سے الگ رکھتے ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے میں پیوست کرتے ہیں نہ ہونے دیتے ہیں۔ معاشرتی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جس کا تعلق زندگی کے معاشی پہلو سے بنتا ہے مگر ہنر مندی یہ ہے کہ انسان اُنہیں ایک دوسرے پر اثر انداز نہ ہونے دے یا معاملات کو غیر ضروری سطح تک بلند نہ ہونے دے۔ کامیاب زندگی وہ ہے جس میں زندگی کا ہر پہلو اپنے مقام پر ہو اور غیر ضروری طور پر دوسرے پہلوؤں کی حیثیت یا ساخت کو متاثر نہ کرے۔ مگر ایسا کم ہی ہو پاتا ہے۔ لوگ جذبات اور بے حواسی کی لہروں میں بہتے ہوئے کہیں سے کہیں جا نکلتے ہیں اور معاملات کو غیر متعلق امور کے پانیوں میں ڈبو دیتے ہیں۔
آج پاکستانیوں کی اکثریت ایسی زندگی بسر کر رہی ہے جس میں قدم قدم پر تضاد ہے، حقیقت سے گریز ہے۔ معاملہ معاشرت کا ہو یا معیشت کا، ہم زمینی حقیقتوں کو یکسر نظر انداز کرکے وہ سب کچھ اپنا بیٹھتے ہیں جو کسی طور اپنایا نہیں جانا چاہیے۔ ہماری فکری ساخت پر بہت سی چیزیں بُری طرح محض حملہ آور نہیں ہو رہیں، بلکہ قابض ہو بیٹھی ہیں۔ بالکل سامنے کی بات بھی دکھائی نہیں دیتی۔
عام پاکستانی بہت سی ایسی عادات سے بہت دور ہے جو انتہائی بنیادی نوعیت کی ہیں اور جنہیں اپنائے بغیر معیاری زندگی کا خواب کسی بھی درجے میں شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ اب اخبار بینی ہی کی مثال لیجیے۔ آج پاکستانیوں کی واضح اکثریت اخبار بینی کی عادت سے اِس قدر دور ہے کہ اِس صورتحال پر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے۔ اخبار بینی سے انسان محض سیاسی معاملات سے متعلق معلومات نہیں پاتا بلکہ اُس میں شائع ہونے والے نیوز فیچرز، مضامین، کالمز اور انٹرویوز سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ بہت سے اخبارات عالمی شہرت یافتہ کتب کے تراجم قسط وار شائع کرتے ہیں۔ یہ گویا سونے پر سہاگہ والی بات ہوئی۔ اخبار میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو ایک عام متجسّس ذہن کو درکار ہوتا ہے۔ گھر میں اخبار باقاعدگی سے آتا ہو تو تمام افراد پڑھتے ہیں اور اپنی اپنی مرضی کے مواد سے اپنی تشفّی کر پاتے ہیں۔
آج اگر کسی کو اخبار بینی کی جانب مائل کرنے کی کوشش کیجیے تو انتہائی پست درجے کا سوال سُننے کو ملتا ہے ''ارے یار، پڑھ کے کیا کرنا ہے؟‘‘ یا ''پڑھ کے کیا مل جائے گا؟‘‘ بہت سے لوگوں کے نزدیک اخبار بینی مطالعہ (!) ہے۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں کہ اخبارات و جرائد باقاعدگی سے پڑھنا مطالعہ نہیں بلکہ انسان کو اعلیٰ درجے کے اور باقاعدہ مطالعے کی طرف لے جاتا ہے۔ مطالعہ ہی انسان کو حقیقی مفہوم میں تبدیل کرتا ہے۔ اخبارات ہمیں بتاتے ہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، کیا چل رہا ہے اور کیا شائع کیا جارہا ہے۔ جب ہم اخبار بینی کی سطح سے بلند ہوکر معیاری مطالعے کی طرف جاتے ہیں تب ہم پر منکشف ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں تو بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے کام کا ہے مگر ہمارے علم ہی میں نہ تھا۔ اخبارات کا میگزین سیکشن ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا میں ہو کیا رہا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے اُس کی پشت پر کون کون سے عوامل اور محرّکات ہیں۔
شخصیت اور کردار کی تشکیل و تہذیب کے لیے ہمیں جو اچھی عادتیں اپنانی ہیں اُن میں اخبار بینی نمایاں ہے۔ یہ محض ایک مثال ہے۔ یاد رکھیے، کسی ایک یا چند اچھی عادات سے انسان کا بھلا نہیں ہوسکتا۔ اُسے زندگی بھر بہت سی اچھی عادتیں اپنانی پڑتی ہیں اور بُری عادات کو خیرباد کہنا پڑتا ہے۔ یہ عمل مرتے دم تک جاری رہتا ہے۔
بنیادی مسائل بہت سے ہیں۔ بعض کا تعلق خارجی دنیا سے ہے جن میں مادّی وسائل سے متعلق امور نمایاں ہیں۔ ہمیں بنیادی سہولتیں بھی ڈھنگ سے میسّر نہیں۔ خارجی دنیا کے اور بھی بہت سے مسائل ہیں۔ یہاں ہم باطنی معاملات کی بات کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنی شخصیت کی تشکیل و تہذیب کے حوالے سے کس حد تک بیدار و باشعور ہیں۔
تعمیری انداز سے سوچنے کے لیے ہمیں اچھی خاصی تیاری کرنا پڑے گی۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی محض یہ سوچے کہ تعمیری سوچ کو پروان چڑھائے گا اور وہ سوچ پروان چڑھنے لگے۔ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیں غیر معمولی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ سوچ کا معاملہ بھی اِس سے مختلف نہیں۔ عام آدمی یہ سمجھ کر خوش رہتا ہے کہ سوچنے کے لیے کسی بھی سطح پر تربیت کی ضرورت نہیں کہ یہ تو اپنے آپ پنپ جانے والا ہنر ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ تعمیری سوچ کے لیے ذہن کو تیار کرنا پڑتا ہے، ایک خاص سانچے میں ڈھالنا پڑتا ہے۔
تعمیری سوچ اپناکر ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں پائے جانے والے وسیع البنیاد تضاد کو ختم کرسکتے ہیں۔ حقیقت پسندی کا وصف ہمیں اُس راہ پر گامزن کرسکتا ہے جو زندگی کو سہل بنانے کی منزل تک لے جاتی ہو۔ حقیقت پسندی کا ایک واضح مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم اپنی صلاحیت اور سکت کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ اللہ نے جس قدر صلاحیت سے نوازا ہے اُسے بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زندگی کا معیار بلند کریں۔ اپنے لیے کوئی بھی غیر حقیقت پسندانہ ہدف مقرر نہ کریں۔ آج ہمارے بہت سے مسائل اس لیے ہیں اور پیچیدہ تر ہوئے جاتے ہیں کہ ہم معاشی اور معاشرتی ‘دونوں ہی طرح کے امور میں حقیقت پسندی کا دامن تھامنے کو تیار نہیں۔ معاشی معاملات میں عدم توازن ہماری بیشتر سرگرمیوں سے عیاں ہے۔ معاشی اور معاشرتی امور کے ماہرین کی طرف سے بار بار توجہ دلائے جانے پر بھی ہم اپنی اصلاح کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ اور پھر اس کا نتیجہ بھی بھگتتے ہیں۔
آج کی دنیا میں وہی اقوام آگے بڑھ پاتی ہیں جو حقیقت پسندی کو بنیادی شعار بناکر زندہ رہتی ہیں۔ حقیقت پسندی ہی درست سمت میں آگے بڑھنے کا شعور بخشتی ہے۔ قول و فعل کا تضاد دور کرنے کے لیے حقیقت پسند ہونا لازم ہے۔ اگر ہم اپنے یومیہ معمولات ہی پر طائرانہ نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ قول و فعل کا تضاد ہمیں کس حد تک ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر رہا ہے۔ آج پاکستانیوں کی اکثریت حقیقت پسندی سے یکسر نظریں چراتے ہوئے اپنی آمدن سے ذرا بھی مطابقت نہ رکھنے والی زندگی بسر کر رہی ہے۔ اِس کا جو نتیجہ نکل سکتا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اور معاملہ محض آمدن تک محدود نہیں۔ رشتوں اور تعلقات میں بھی ایسی ہی عدم مطابقت جلوہ فرما ہے۔ قدم قدم پر خطرے کی گھنٹی نہیں، گھنٹے بج رہے ہیں مگر ہم متوجہ ہونے، نوٹس لینے کو تیار نہیں۔ یا بے حِسی، تیرا ہی آسرا!