تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     14-10-2018

’مکالمہ‘ کے چار شمارے اور تازہ غزل

سالنامہ2018ء
مبین مرزا کی ادارت میں کراچی سے شائع ہونے والے کتابی سلسلے 'مکالمہ‘ کا یہ 36واں شمارہ ہے‘ جو پونے چھ سو صفحات پر مشتمل اور مجلد صورت میں ہے اور قیمت 1500روپے رکھی گئی ہے۔ حصہ نثر کے لکھنے والوں میں اسدمحمد خاں‘ مسعود‘ اشعر‘ رشید امجد‘ فاروق خالد‘ اخلاق احمد‘ طلعت حسین اور حمیرا اشفاق کے افسانے ہیں۔ ناول: نجم الحسن رضوی‘ تصوف پر نجیبہ عارف کے مضمون راگنی کی کھوج میں‘ کی آخری قسط ہے‘ خصوصی مطالعہ میں پروفیسر فتح محمد ملک نے یاسمین حمید کی شاعری کا جائزہ لیا ہے‘ جبکہ زاہدہ حنا نے ہاجرہ مسرور کے افسانے آخری سٹیشن کا جائزہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر ضیاالحسن نے ایک وجود ی ناول جندر‘ پرمضمون تحریر کیا ہے ‘جبکہ امجد طفیل نے وحشیوں کا انتظار‘ پر ایک نظر ڈالی ہے‘ سلمان صدیقی نے احفاظ الرحمن کی شاعری کا جائزہ لیا ہے‘ تو انجم جاوید نے سرحد کے اُردو غزل گو پر ایک نظر ڈالی ہے۔ سوانح میں خاکسار کی ''درگزشت‘‘ کی ایک قسط ہے ‘جبکہ تراجم میں محمد سلیم الرحمن اور احفاظ الرحمن شامل ہیں۔ اسکے علاوہ نوآبادیات/ عالمگیریت کے موضوع پر سحر انصاری‘ ڈاکٹر ابولکلام قاسمی اور ڈاکٹر سید جعفر احمد کے مضامین ہیں۔ نقد و نظر میں محمد سلیم الرحمن‘ سید مظہر جمیل‘ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ‘ ڈاکٹر قاضی افضال حسین‘ ڈاکٹر علی احمد فاطمی‘ ڈاکٹر انیس اشفاق‘ ڈاکٹرسعادت سید‘ یاسمین حمید‘ ڈاکٹر ضیاء الحسن‘ ناصر عباس نیئر‘ قاسم یعقوب اور خالد فیاض کے مضامین ہیں۔ یادیں/ خاکے/ شخصیات پر حسن منظر‘ سحر انصاری‘ قاضی افضال حسین‘ محمود شام‘ حسینہ معین‘ اصغر ندیم سید‘ خواجہ رضی حیدر‘ محمد حمزہ فاروقی‘ حمرا خلیق‘ سبوحہ خان‘ خالد محمود سنجرانی اور پروفیسر نوشابہ صدیقی کے قلم سے ہیں‘ جبکہ تبصرے صبا اکرام‘ سلمان صدیقی‘ انجم جاوید‘ کرن سنگھ اور فیصل حیات نے کئے ہیں۔ شاعری میں خاکسار‘ محمد سلیم الرحمن‘ توصیف تبسم‘ خورشید رضوی‘ رضی حیدر‘ جلیل عالی‘ اکبر معصوم اور عطا الرحمن قاضی ہیں۔
مکالمہ۔37
عام شمارہ ہے‘ جس کی قیمت 250روپے ہے۔ ادب کی سماجیات پر مبین مرزا کا افتتاحی مضمون ہے۔ اس کے بعد زونگ پھو‘ پر احفاظ الرحمن کا مضمون‘ حسن منظر کا اوراقِ بوسیدہ‘ نجم الحسن رضوی کے ناول مٹی کا درخت کا باب ‘ سحر انصاری کی شاعری‘ جبکہ نعمت خانہ کا تجزیاتی مطالعہ پروفیسر صغیر افراہیم نے کیا ہے‘ سید جعفر احمد نے آنکھیں آہن پوش‘ پر ایک مطالعہ پیش کیا ہے ‘جبکہ امجد طفیل نے امبر ٹوائیگو پر مضمون لکھا ہے۔ اس کے علاوہ مشرف عالم ذوقی‘ طلعت حسین‘ رؤف خیر‘ عارف جمیل‘ محمد ہاشم خاں اور عبدالرحمن کے مضامین‘ خاکسار کی درگزشت کی قسط اور اسلم انصاری‘ سحر انصاری‘ معین الدین عقیل‘ حامد بیگ‘ رضی حیدر اور فاروق خالد کے خطوط شامل ہیں۔
مکالمہ۔38
آغاز میں ''درگزشت ‘‘کی قسط ہے‘ پھر حسن منظر کے 'اوراقِ بوسیدہ‘ نجم الحسن رضوی کا مٹی کا درخت‘ مرزا حامد بیگ کا اختر جمال پر مضمون‘ محمد حمزہ فاروقی کا پروفیسر عبدالکریم جرمانوس پر مضمون‘ محمد حمید شاہد کا اصغر ندیم سید کی کہانی مجھے ملی‘ پر مضمون‘ عارف جمیل کا حاضر سائیں‘ اس کے بعد 'رفتید ولے نہ از دلِ ما‘ کے تحت سید مظہر جمیل کا مشتاق احمد یوسفی:چند یادیں چند باتیں‘ سحر انصاری کا محمد عمر میمن:یادش بخیر‘ رؤف پاریکھ کا مشتاق احمد یوسفی: اُردو مزاح کا تاج محل‘ ڈاکٹر عزیز ابن الحسن کا یوسفی:آبِ حیات و نشاطِ گم شد‘ نجیبہ عارف کا مارے گا دل پر تیر کون؟ محمد عمر میمن سے ایک غیر رسمی گفتگو اور شاہد رسال کا ایک بے نام آرٹسٹ کی کہانی۔ یہ شمارہ حصہ شعر کے بغیر ہے۔
مکالمہ۔ 39
حرفِ آغاز میں مسعود اشعر کا نیند نہیں آتی‘ حسن منظر اوراقِ بوسیدہ۔ سحر انصاری کا ہاجرہ مسرور: چند یادیں‘ سید مظہر جمیل کا نجم الحسن رضوی: ایک توانا تخلیق کار‘ رشید امجد کا بیس پچیس سال بعد کا ایک خیالیہ‘ مرزا حامد بیگ کا افسانہ طراز‘ احمد داؤد‘ تحسین فراقی کا عثمان نوید کی یاد میں‘ عثمان نوید سے‘ اے عثمان نوید‘ عثمان نوید کے ہجر میں‘ بیادِ پسرِ جواناں مرگ‘اور عثمان نوید کی حیات کے دو باب‘ محمد اظہار الحق کی 12 غزلیں‘ ڈاکٹر علی احمد فاطمی کا انارکلی: حقیقت یا افسانہ‘ روف پاریکھ کا اُردو بورڈ کی لغت‘ محمد عارف جمیل کا حاضر سائیں‘منیر فیاض کا ادب ادیب اور سماج‘ احمد عطا کی 13غزلیں‘ محمد جمیل اختر کا یادداشت کی تلاش میں‘ خاکسار کی درگزشت18 اور ایاز محمود کا خط‘ کسی اگلی نشست میں ان پرچوں میں چھپی غزلوں سے اشعارپیش کئے جائیں گے‘ انشاء اللہ۔
اور اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
وہ خواب نہیں تھا تو حقیقت بھی نہیں تھی
یوں ہے کہ مجھے تجھ سے محبت بھی نہیں تھی
آساں نہیں تھا تیرا خریدار بھی ہونا
کچھ اپنی گرہ میں تری قیمت بھی نہیں تھی
بیکار سی وہ کوئی اُداسی تھی شب و روز
ویسے مجھے خوش رہنے کی عادت بھی نہیں تھی
رہتا تھا ہمیشہ ہی حساب اپنا برابر
کچھ شکر نہیں تھا تو شکایت بھی نہیں تھی
اس دل کو ٹٹولا بھی کئی بار‘ سو اس میں
خواہش بھی نہیں تھی‘ کوئی حشر بھی نہیں تھی
یوں میرے نہ ہونے سے الگ تھا ترا ہونا
وہ ہجر نہیں تھا تو رفاقت بھی نہیں تھی
شاداب ترا باغ تھا اور تازہ ترے پھول
تجھ کو کسی موسم کی ضرورت بھی نہیں تھی
الزام غلط ہی تھا‘ مگر اپنی طرف سے
تردید نہ تھی‘ کوئی وضاحت بھی نہیں تھی
ایک اور محبت کا‘ ظفر‘ؔ بوجھ اُٹھاتے
مجبوریٔ دل بھی نہیں‘ فرصت بھی نہیں تھی
آج کا مطلع
ساتھ رہتے ہیں بدستور اندھیرے میرے
رہ گئے ہیں کہیں پیچھے ہی سویرے میرے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved