ایک ہوتی ہے‘ قومی معیشت اور ایک ہوتی ہے‘ انفرادی یا گھریلو معیشت۔ ہر گھریلو معیشت کے اپنے اصول ہوتے ہیں ‘جو نہ بدلیں تو برسوں نہ بدلیں اور اگر بلدلنے پر آجائے تو یومیہ بنیاد پر بھی تبدیل ہوسکتے ہیں۔ ایک زمانے سے ہمارے ہاں گھریلو معیشتوں میں ایک اصول بنیادی نوعیت کا رہا ہے۔ یہ کہ ایک کمائے اور چار پانچ یا آٹھ دس کھائیں! کسی ایک فرد یا چند افراد کی کمائی پر پورے گھرانے کے پلنے کا زمانہ کب کا جاچکا ‘ مگر ہمارے ہاں یہ زمانہ اب تک رکا ہوا ہے۔
مغربی دنیا نے گھریلو معیشت کا پیراڈائم کم و بیش ایک صدی پہلے بدل لیا تھا۔ جب اجتماعیت کے مقابل انفرادیت کو اہمیت دینے کی بات آئی تو شخصی آزادی کا غلغلہ بلند ہوا‘ یعنی یہ کہ ہر انسان کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس تصور کو تسلیم کیا گیا تو ساتھ ہی ایک اور تصور بھی ابھرا۔ یہ کہ ہر انسان اپنا بوجھ خود اٹھائے۔ ہمارے ہاں اسے عرفِ عام میں ''امریکن سسٹم‘‘ کہتے ہیں۔ امریکن سسٹم کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص جو کچھ بھی پانا چاہتا ہے یا پائے ‘اُس کی قیمت اپنی جیب سے ‘یعنی اپنی محنت کی کمائی سے ادا کرے۔
آج پوری دنیا میں امریکن سسٹم عام ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی مفت کی روٹیاں توڑنے کا تصور نہیں پایا جاتا۔ لوگ محنت کرکے اپنے لیے جگہ بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں گھریلو معیشت کا بنیادی پیراڈائم یہ ہے کہ گھر کا ہر فرد اپنا کردار ادا کرے‘ محنت کرے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں کہ گھر کا ہر بالغ فرد معاشی کردار ادا کرے؛ اگر بھرپور کردار ادا کرنا ممکن نہ ہو تب بھی کسی نہ کسی حد تک اپنا حصہ ڈالنے میں تو کوئی ہرج نہیں۔ یہ تو شدید نوعیت کی بے انصافی ہے کہ کوئی ایک فرد پورے گھر کا بوجھ اٹھائے اور پھر اسی عمل میں کھپ جائے۔
یہ کہاں لازم ہے کہ سبھی کو سب کچھ ملے؟ انسان محنت کرتا ہے اور پھل بھی پاتا ہے‘ مگر کبھی کبھی پھل پورا نہیں ملتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بے حواس ہوکر تمام معاملات کو تلپٹ کردیا جائے۔ زندگی کا معاشی پہلو غیر معمولی نوعیت کے صبر کا طالب ہے۔ صبر و شکر کے ساتھ کمتر وسائل کی مدد سے بھی زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ لازم تو نہیں کہ اپنی تمام خواہشات پوری کرنے کے لیے دستِ سوال دراز کیا جائے اور پھر یہ معاملہ اس حد تک بڑھے کہ آنکھ میں شرم ہی باقی نہ رہے۔
آئیے‘ ہم اپنے معاشرے ہی کی مثال لیتے ہیں۔ دیہی معاشرے میں حساب کتاب کچھ اس قسم کا ہے کہ گھر کے تمام افراد کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔ خواتین مویشیوں کی دیکھ بھال کے علاوہ کھیتوں میں کٹائی کے وقت بھی مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ بچے مویشی چراتے نظر آتے ہیں۔ شہروں میں خواتینِ خانہ کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ وہ کم کام کرتی ہیں اور تھک جاتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ گھر کے تمام افراد کے کام کرنے کا تصور اپنانے سے شہروں میں اب تک نمایاں طور پر گریز کیا جارہا ہے۔
مغرب (امریکا اور یورپ) ہو یا مشرق (بالخصوص جنوب مشرقی ایشیا)‘ گھریلو معیشت چلانے کے لیے یہی طریق اپنالیا گیا ہے یعنی گھر کے بیشتر افراد اور بالخصوص تمام بالغ افراد کچھ نہ کرتے ہیں۔ معاشی جدوجہد کو کسی بھی سطح پر بُرا نہیں سمجھا جاتا۔ عمل پسندی کو زندگی کی بنیادی قدر کا درجہ حاصل ہے۔ معیاری زندگی یقینی بنانے کیلئے لوگ دن رات ایک کردیتے ہیں دن دن بھر محنت کرنے کا چلن عام ہے۔ یہی سبب ہے کہ غیر معمولی تھکن سے دوچار ہونے پر ہفتے اور اتوار کی چھٹی کو خوب انجوائے کیا جاتا ہے۔
اور سوال صرف معاشی جدوجہد کا یا کمانے کا نہیں‘ بلکہ وقت کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے کا ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر کی بحث سے قطعِ نظر آج دنیا بھر میں یہ تصور ذہنوں میں راسخ ہوچکا ہے کہ وقت ہی اصل دولت ہے‘ جسے کسی بھی حال میں ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔ آج بیشتر معاشروں میں وقت ضائع کرنے کا تصور برائے نام ہے‘ جو لوگ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے ہیں اُنہیں پسند نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی کے کیریئر ریکارڈ میں وقت کے ضیاع کا ''وصف‘‘ درج ہو جائے‘ تو عوام اور ادارے اُس سے کتراتے ہیں۔ کام کرنے کا عمومی طریق ہی ایسا ہے کہ وقت کو ضائع ہونے نہیں دیا جاتا اور جو ایسا کرتا ہے‘ اُسے قبول نہیں کیا جاتا۔ لوگ ہر معاملے میں وقت کی پوری پابندی کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں محنت بھلے ہی زیادہ کرنی پڑتی ہو‘ تھکن زیادہ نہیں ہوتی۔ وقت کی بھرپور پابندی انسان کو انتہائی عمل پسند بناتی ہے اور یوں وہ لڑکھڑاتا نہیں اور اگر لڑکھڑا بھی جائے تو گرتا نہیں۔
دنیا بھر کے اور بالخصوص ترقی یافتہ و ترقی پذیر معاشروں سے ہمیں یہ سیکھنا ہے کہ بھرپور زندگی کے لیے جامع تیاری کس طور کی جاتی ہے۔ تعلیم کے حصول کا معاملہ ہو یا معاشی جدوجہد کا‘ ہر میدان میں ترقی یافتہ معاشروں کے لوگ بھرپور محنت کرتے ہیں اور کسی بھی مرحلے پر گھبراکر پیچھے ہٹنے کا نہیں سوچتے۔
کریڈٹ سسٹم ترقی یافتہ معاشروں سے آیا ہے‘ مگر وہاں اس کا مطلب محض ادھار نہیں‘ بلکہ آمدن کے مطابق اور منطقی حدود میں رہتے ہوئے قرض لینا ہے۔ لوگ جو کچھ آسانی سے خرید نہیں سکتے وہ قسطوں پر خریدتے ہیں اور پھر ایک عمر تک بھگتان کرتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی بنیے کا روایتی قرض نہیں کہ نسلیں مقروض ہوجائیں۔ قسطوں پر چیزیں خریدنے میں بہت زیادہ بوجھ نہیں اٹھانا پڑتا۔
مسائل وہاں پیدا ہوتے ہیں جہاں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے یا پسارنے کی روش ترک کردی جائے۔ ہماری نصف سے زائد پریشانیاں آمدن کی حدود سے باہر جاکر خرچ کرنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ بہت کچھ پانے کی تمنا دل میں پروان چڑھتی ہے‘ مگر اس کام کرنے اور اپنے وجود کو اپ گریڈ کرنے کی لگن پیدا نہیں ہوتی۔ اس بات کو کنور مہیندر سنگھ بیدی سَحرؔ نے یوں بیان کیا ہے ؎
ہوا جو تیرِ نظر نیم کش تو کیا حاصل
مزا تو جب ہے کہ سینے کے آر پار چلے
اس وقت پاکستانی معاشرہ جس روش پر چل رہا ہے ‘وہ دو دھاری تلوار کا سا ہے۔ ایک طرف انفرادی آمدن ہے کہ محدود سے محدود تر ہوتی جارہی ہے اور دوسری طرف کنزیومر اِزم ہے کہ دن رات پروان چڑھ رہا ہے۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر خرچ کرنے کے عادی ہیں۔ اس کا نتیجہ بہت سی چیزیں غیر ضروری تناسب سے خریدنے یا یکسر غیر ضروری چیزیں خریدنے کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔
ہمیں بدلتی ہوئی دنیا میں بہت کچھ سیکھنا ہے‘ مثلاً: کسی ایک فرد پر پورے گھر یا گھرانے کی کفالت کا بوجھ لادنے کی بجائے گھر کے تمام افراد کا معاشی جدوجہد سے جُڑنا۔ یہ مجبوری کا سَودا لگتا ہے‘ مگر در حقیقت اِس میں ہمارے لیے کئی اعتبار سے فلاح کا پہلو مضمر ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب سبھی اپنا معاشی کردار ادا کرتے ہیں‘ تو زندگی کی معنویت اور مقصدیت بڑھتی ہے‘ عمل پسندی کا گراف بلند ہوتا ہے۔ مسائل اور خرابیوں کا رونا روتے رہنے سے ایک قدم آگے جاکر ہمیں اپنا جائزہ بھی لینا چاہیے‘ تاکہ کچھ نیا سیکھا جاسکے‘ زندگی کو بہتر بنایا جاسکے۔ زندگی کا اچھا خاصا حسن اسی نکتے میں مضمر ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیتے رہیں‘ خرابیوں کو دور کریں‘ خوبیوں میں اضافہ کریں اور بالخصوص معاشی معاملات میں زمینی حقیقتوں سے ہم آہنگ سوچ اپنائیں۔ ہمیں معاشی جدوجہد کا دائرہ وسیع بھی کرنا ہے اور اپنی کمائی کو ڈھنگ سے خرچ کرنے کا ہنر بھی سیکھنا ہے۔ ایسا کیے بغیر ہم کنزیومر اِزم کی دلدل سے کبھی نکل نہیں پائیں گے۔