تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     14-10-2018

برکت

شوکت میڈیا ٹائون‘ اسلام آباد میں اپنے فرائض سر انجام دینے والا ایک عجیب سکیورٹی گارڈ تھا ۔ جب گلی کے نکڑ سے وہ برآمد ہوتا تو اس کے پیچھے کتوں کی ایک قطار ہوا کرتی ۔گارڈز کے کھانا کھا نے کے بعد روٹی کے جو ٹکڑے بچ رہتے ‘ وہ ان کتوں کا ڈال دیتا تھا۔ میں نے اس سے اس کا سبب پوچھا۔ کہنے لگا: یہ جانورکھانا کھاکر انسان کو دعا دیتے ہیں ۔ اس کے رزق میں برکت ہوتی ہے ۔ میں حیرت سے اسے دیکھتا رہ گیا۔ پچاس پچپن سال کی عمر میں وہ بارہ ہزار روپے ماہوار کی نوکری کر رہا تھا‘ لیکن ابھی بھی اسے یقین تھا کہ اس کے رزق میں برکت ہو جائے گی۔
کچھ عرصہ گزرا‘ جب مجھے جانور پالنے کا شوق ہوا۔ شوکت سے میں نے بات کی ۔ اس نے کہا کہ وہ بچپن سے جانورسنبھالتا آیا ہے ۔ میں نے اسے اپنے پاس ملازم رکھ لیا ۔ ایک بھینس لی ‘جس کے ساتھ ایک ننھی سی خوبصورت کٹی تھی ۔ پھر دوسری لی‘ جس کے ساتھ ایک کٹا تھا۔ ہم نے بکرے بکریاں رکھے ۔اسلام آباد کے نواح میں چوچہ شیخاں میں یہ ڈیرہ قائم تھا۔ 
کٹی بیمار ہو گئی۔ اسے خون چوسنے والے کیڑے پڑ چکے تھے۔ ہم نے اس کا علاج کرایا۔ وہ ٹھیک ہو گئی۔ وقت گزرتا گیا۔ شوکت جانوروں کی بھرپور دیکھ بھال کر رہا تھا۔کٹی کو بالغ ہونے میں دو سے تین سال لگ جاتے ہیں ‘لیکن اچھی دیکھ بھال کی وجہ سے وہ ڈیڑھ سال ہی میں بالغ ہو گئی۔ مجھے یہ کٹی بہت خوبصورت لگتی تھی ۔ میں اس کے سر پہ ہاتھ رکھتا ‘تو وہ سر جھٹک دیتی تھی ۔ اسے باہر نکالا جاتا تو دوڑتی ہوئی دور نکل جاتی تھی ۔ اب یہ کٹی نہیں ایک چوٹی تھی ۔ ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ اسے نیلی بار والا انجکشن لگوائیں ۔ چند ماہ کے اندر اس کے قد کاٹھ میں تیزی سے اضافہ ہوگا اور یہ بھینس کی جسامت حاصل کر لے گی‘ پھر وہ بچہ پیدا کرے گی اور دودھ دینے لگے گی۔ 
میں سوچتا رہا ۔ ابھی کل ہی تو میں اسے خرید کر لایا تھا۔ ہمارے ہاتھوں میں پل کر وہ بڑی ہوئی تھی ۔ انہی دنوں ایک اور خوشخبری آئی۔ اس چوٹی کی ماں نے ایک اور کٹی کو جنم دیا۔ 
وہ بھی ایک عجیب دن تھا۔ چوٹی کی ماں اندر کمرے میں درد سے آوازیں نکال رہی تھی ۔ چوٹی پریشان تھی ۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔ اس نے جگالی کرنا بھی چھوڑ دیا تھا ۔ آخر اس کی بہن دنیا میں آئی۔ کئی گھنٹوں بعد چھوٹی بہن اپنے قدموں پہ کھڑی ہوئی تو چوٹی کو اس کے پاس لایا گیا ۔ وہ بھاگ کر اپنی ماں کی طرف گئی ‘لیکن ماں کو اب نئی بیٹی کی فکر تھی ۔ چوٹی اپنی ماں اور چھوٹی بہن کے درمیان کھڑی ہو گئی ۔ ما ں چوٹی کے نیچے سے چھوٹی کٹی کی نگرانی کر رہی تھی ۔ وہ بھرپور محتاط تھی۔ اس موقعے پر ایک ٹھوکر بھی ننھی سی کٹی کومار سکتی تھی ۔شوکت بہت خوش تھا‘ وہ اپنے ایک ایک جانور کا منہ چومتا رہتا تھا۔ 
یہی وہ دن تھے‘ جب چوٹی بیمارہوئی ‘ جس دن میں اسے دیکھنے گیا ‘ اسے 107بخار تھا ‘ جبکہ 108سے زیادہ درجہ ٔ حرارت پر جانور مر جاتا ہے ۔ اسے انجکشن لگوائے گئے ۔ اگلے روز یہ بخار 108پہ چا پہنچا۔ انجکشنز سے اس کا بخار تو ٹوٹ گیا‘ لیکن شاید اسے نمونیہ ہو چکا تھا۔ اس کے جسم کے بال کھڑے تھے ۔ پیٹ بری طرح خراب تھا۔ اسے او آر ایس دیے جا رہے تھے ۔ آخر وہ بیٹھ گئی ‘ کبھی نہ کھڑے ہونے کے لیے ۔ 
پہلے تو شوکت روتا رہتا تھا ۔ اب وہ بیچارگی سے کہنے لگا کہ یہ بچے گی نہیں ‘اسے قصائی کو بیچ دو ۔ میں نے سختی سے اسے کہا ‘ ہم اسے اپنے پاس رکھیں گے‘جب تک یہ زندہ ہے ۔ میرا خیال تھا کہ وہ بچ جائے گی ۔ 
اگلی صبح سات بجے شوکت کا فون آیا ۔ کٹی /چوٹی مر چکی تھی ۔ میں ڈیرے پر پہنچا اور میں نے اس کی لاش دیکھی۔ وہ اتنی وزنی تھی کہ کئی بندے مل کربھی اسے ٹرالی میں ڈالنے سے قاصر تھے ۔ آخر شوکت کو اندر بھیج دیا گیا۔ چوٹی کو ٹرالی کے پیچھے باندھ کر لے جایا گیا کہ اسے دور کسی گڑھے میں ڈال دیا جائے۔ جہاں بہت ساری مخلوقات نے اس کے جسم کو کھانا تھا۔ 
میں شوکت کے پاس گیا۔ وہ جیسے سب کچھ لٹا بیٹھا تھا۔کہنے لگا: تب ہی مر جاتی‘ جب اسے خون چوسنے والے کیڑے لگے تھے۔ میں نے اسے کہا : شوکت ‘ ایک چوٹی کے لیے اتنے غمزدہ ہو۔ ابھی تو تمہارے ہاتھوں میں نا جانے کتنی کٹیاں اور کتنی بچھڑیاں آنی ہیں ۔ ہم نے تو یہ کام بڑھانا ہے ۔ شوکت کہنے لگا : جسے اپنے ہاتھوں میں پالا ہو‘ اس کا غم دل کی گہرائی میں اتر جاتا ہے ۔ 
وہ بہت خوبصورت تھی ۔ اس کے سر کے بال ریشمی تھے۔ جب میں اس کے سر پہ ہاتھ رکھتا ‘تو وہ سرجھٹک دیتی‘ لیکن وہ چاہتی تھی کہ میں بار بار اس کے سر پہ ہاتھ رکھوں ۔ اسے کھیلنے میں مزا آتا تھا۔ یہ وہی کٹی تھی‘ کئی بارجو چھپ کے اپنی ماں کا دودھ پی لیا کرتی اور جب شوکت صاحب دودھ دوہنے آتے تو بھینس انہیں ٹھینگا دکھا دیتی تھی ۔ 
نقصان کی نوعیت مالی سے زیادہ جذباتی تھی۔ راولپنڈی میں میرا موبائل چھینا گیا‘ دکھ نہیں ہوا۔ بٹوہ گم گیا ‘ جس میں پیسے‘ اے ٹی ایم کارڈ اور شناختی کارڈ رکھا تھا‘ دکھ نہیں ہوا۔ یہ کٹی /چوٹی مری تو بہت دکھ ہوا۔ یہ خیال ہی میرے لیے بہت خوش کن تھا کہ وہ حاملہ ہوگی اور نیلی بار والی کٹی پیدا کرے گی ؛ اگر وہ بھینس جیسی جسامت حاصل کر لیتی ‘تو مجھے بہت خوشی ہوتی ‘ لیکن اس کے بچھڑنے کا غم قسمت میں تھا۔ 
خیر ‘ یہ سب تو زندگی کا حصہ ہے ۔ کھلونوں سے بہلایا گیا ‘ انسان ‘ جسے اپنی ملکیت پہ یقین ہے ؛حالانکہ ایک دن خود ہمیں بھی اس کٹی کی طرح بے چارگی سے مر جانا ہے ۔ دنیا کا نظام اسی طرح چلتا رہے گا ؛تاآنکہ قیامت کے روز انسان اٹھایا جائے گا‘ تو وہ ہر چیزاور حتیٰ کہ ہر رشتے کی ملکیت سے بھی دستبردار ہو چکا ہوگا۔ماں ‘ باپ ‘ اولاد‘ بیوی‘ بہن‘ بھائی‘ سب رشتوں کی ملکیت سے ۔ 
لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ شوکت کو اپنے پاس ملازم رکھنا‘ میرے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔ایک تو وہ ریٹائرڈ فوجی ہے ‘پھر خوبیوں سے بھرپور ایک خاندانی شخص۔ گرد و نواح میں ہماری دو بھینسوں اور ان کی کٹی‘ کٹے کی دھوم تھی کہ کسی نے بہت زبردست جانور پال رکھے ہیں ۔ دیہات میں ماحول ایسا ہوتاہے کہ اچھے جانور کو لوگ دیکھنے آتے ہیں ‘ پھر اس پہ تبصرہ کرتے ہیں ۔
میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ شوکت کو میں اپنے پاس لے آئوں گا اور وہ منظر آج بھی میری آنکھوں میں موجود ہے ‘ جب شوکت نے کہاتھا کہ جانوروں کو کھانا ڈالا جائے‘ تو وہ دعا دیتے ہیں ۔ انسان کا رزق بڑھ جاتاہے ۔میں نے اس پر یہ سوچا تھا کہ آج تک تو اس کا رزق بڑھا نہیں ‘ جبکہ اس کی عمر کافی زیادہ ہوچکی ہے ۔ اس وقت مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ مستقل طور پر میرے پاس آجائے گا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved