تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-10-2018

جب مَت ماری جائے

مودی سرکار کے ساڑھے چار سال اس طور گزرے ہیں کہ انتہا پسند ہندو عجیب قلابازیاں کھاتے رہے ہیں۔ بعض قلابازیاں تو ایسی ہیں کہ بندر بھی دیکھیں تو حیران رہ جائیں کہ یہ نئے کرتب سیکھیں تو کیسے سیکھیں؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب انتہا پسند ہندو کس طرف جانا چاہتے ہیں اور بھارت کو کس گڑھے میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ 
ہندو معاشرے میں جو خرابیاں اور پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں‘ وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں اور کوشش کی جارہی ہے مسلمانوں کو ''سُدھارنے‘‘ کی۔ کبھی گائے کا تحفظ یقینی بنانے کی بات کرکے مسلمانوں کو ڈرایا دھمکایا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خوف کی فضاء برقرار رہے۔ کبھی کسی مسلم مبلغ پر انتہا پسندی کو فروغ دینے کا الزام عائد کرکے مسلمانوں کو حقیقی مذہبی آزادی سے محروم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 
بنیاد پرست گروپ اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا کے صدر سوامی دتہ تریہ سائی سوروپ ناتھ نے کیرالا ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی ہے‘ جس میں استدعا کی گئی ہے کہ مسلم خواتین کو مساجد میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مساجد میں داخل ہونے سے خواتین کو روکنا ‘ان کی حق تلفی اور بھارتی آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ 
سوامی دتہ تریہ سائی سوروپ ناتھ نے پردے کے خلاف جانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ آئینی درخواست کے متن میں درج ہے کہ مسلم خواتین کو پردے کا پابند کرکے اُن کے ایک بنیادی حق ہی کی نفی نہیں کی گئی‘ بلکہ معاشرے میں تقسیم کی بنیاد بھی رکھی گئی ہے۔ مسلم خواتین کے لیے پردے کی پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سوامی جی نے انتہائی منفرد نوعیت کی دلیل دی ہے۔ ''انتہائے منطق‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوامی جی نے اپنی آئینی درخواست کے متن میں لکھا ہے کہ جس معاشرے میں کسی پرائی خاتون پر ذرا سی ایسی ویسی نظر ڈالنے سے ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے‘ وہاں کسی بھی خاتون کو پردہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے! 
موصوف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بھارتی معاشرے میں کوئی کسی پرائی عورت پر نظر ڈالتے ہوئے ڈرتا ہے! اسے محض ایک لطیفے کے طور پر ہی لیا جاسکتا ہے۔ بھارت میں خواتین کی عصمت کس حد تک محفوظ ہے ‘اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دارالحکومت ہی کو ''دی ریپ کیپٹل آف انڈیا‘‘ کی عرفیت دے دی گئی ہے! 
اسلام کے متعدد قوانین اور اصولوں اور بالخصوص پردے کو انتہائی قابلِ احترام و قابلِ تقلید روایت گرداننے والے شریف النفس ہندو بھی یہ ''دلیل‘‘ پڑھنے کے بعد دل تھام کر اور (اپنا) سَر پیٹ کر رہ گئے ہوں گے۔ اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ یہ بھی خوب رہی۔ اپنا گھر تو سنبھل نہیں رہا اور چلے دوسرے کا گھر سیدھا کرنے۔ ارے بھائی‘ ع 
تجھ کو پرائی کیا پڑی‘ اپنی نبیڑ تو 
کیرالا ہی کے راما لنگا نے لکھا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے کیرالا میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خاک میں ملانے کی ٹھان لی ہے۔ یہاں عام ہندو‘ مسلمان اور مسیحی مل کر رہتے ہیں۔ اُنہیں باہم لڑانے کی سازش کی جارہی ہے۔ یہ سازش کیرالا کے مسلمانوں‘ ہندوؤں اور مسیحیوں کو مل کر ناکام بنانی ہے۔ یہی سوچ بھارت کے اُن تمام ہندوؤں کی ہے ‘جو معاشرے کو ہم آہنگی سے ہم کنار رکھنا چاہتے ہیں اور دیگر مذاہب کے پیرَو کاروں کا احترام کرتے ہیں۔ 
ہندو معاشرہ آج تک ذات پات کے نظام سے باہر نہیں آسکا اور اس لیے نہیں آسکا کہ باہر آنا ہی نہیں چاہتا۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ذات پات کا نظام مقدس کتب میں موجود ہے۔ اب اگر مقدس کتب کو جھٹلائیں ‘تو دھرم کی بنیاد ہی ہل جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ذات پات کے نظام کی پیدا کردہ تنگ نظر بھی دور نہیں ہو پاتی۔ نچلی ذات کے ہندوؤں کو مندروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور مندر تو بہت دور کی چیز ہیں‘ نچلی ذات کے ہندوؤں کو تو اس کنویں سے پانی لینے کی بھی اجازت نہیں جہاں سے باقی تین ذاتوں کے ہندو پانی لیتے ہوں۔ اتر پردیش‘ مدھیہ پردیش‘ اترا کھنڈ‘ چھتیس گڑھ‘ بہار‘ مہا راشٹر‘ گجرات اور راجستھان میں تو آج بھی اعلیٰ ذات کے ہندو نچلی ذات کے ہندوؤں کو واضح طور پر چوتھے یا پانچویں درجے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیے ہوئے ہیں۔
ابھی سوامی دتہ تریہ سائی سوروپ ناتھ کی دائر کی ہوئی آئینی درخواست کی گرد بھی نہ بیٹھی تھی کہ ملیالم (ملباری) فلموں کے معروف اداکار تلسی دھرن نائر (کولم تلسی) نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دھمکی دے دی کہ اگر کسی عورت نے کیرالا کے مشہور زمانہ سبری ملا مندر میں داخل ہونے کی کوشش کی‘ تو اُس کے دو ٹکڑے کردیئے جائیں گے اور ایک ٹکرا چیف جسٹس کو بھیجا جائے گا! سپریم کورٹ نے حال ہی میں فیصلہ سنایا ہے کہ سبری ملا مندر میں خواتین کے داخلے پر عائد پابندی ہٹائی جائے اور اس حوالے سے ریاستی حکومت قانون نافذ کرنے والوں کو متحرک کرے۔ سواجی دتہ تریہ سائی سوروپ ناتھ نے اگر یہ بیان پڑھا ہوگا‘ تو تھوڑی بہت شرم تو ضرور آئی ہوگی۔ انسان میں اِتنی غیرت تو ہونی ہی چاہیے کہ جس بات پر شرم محسوس کرنا لازم ہو اُس پر کم از کم اِتنی شرم تو محسوس کرے کہ حق ادا ہو جائے۔ 
دین ِحق ہونے کے ناتے‘ اسلام نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ زندگی کس طور بسر کی جانی چاہیے‘ اس کی مکمل وضاحت اپنی جگہ‘ اسلام کی عطا کی ہوئی چیدہ چیدہ نعمتوں میں پردہ بھی شامل ہے۔ ہم مسلم معاشرے میں پیدا ہوئے ہیں ‘اس لیے پردے کے معاملے میں ''گھر کی مرغی دال برابر‘‘ والی سوچ اپنائے ہوئے ہیں۔ بھارت کے خالص ہندو معاشرے میں پردے کی نعمت کی حقیقی قدر و قیمت کا اندازہ اگر ہوسکتا ہے‘ تو ہندو خواتین کو ہوسکتا ہے ‘کیونکہ ہندو معاشرے میں عمومی سطح پر پردہ برائے نام بھی نہیں اور اس روش پر گامزن رہنے کے نتائج کتنے بھیانک ہوسکتے ہیں‘ اس کا حقیقی اور درست اندازہ اگر ہے‘ تو صرف خواتین کو کیونکہ وہ ان نتائج کو عشروں‘ بلکہ صدیوں سے جھیل رہی ہیں۔ 
آر ایس ایس‘ مہا سبھا‘ وی ایچ پی‘ شیو سینا‘ بی جے پی اور دیگر انتہا پسند تنظمیں و جماعتیں ملک کو بند گلی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ ووٹ بینک مضبوط بنانے کے لیے جب کچھ بھی نہیں سُوجھتا تو اقلیتوں کو نشانے پر لیا جاتا ہے۔ عام ہندوؤں کو اس بات سے ڈرایا جاتا ہے کہ وہ بہت جلد اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے؛ اگر اس سے بھی مقصد حاصل نہ ہو تو دیگر مذاہب کی تعلیمات اور روایات سے ڈرایا جاتا ہے۔ عقل کی حدود میں رہتے ہوئے سوچنے والے کسی بھی انسان سے پردے کے بارے میں پوچھئے‘ تو متفق نہ ہونے پر بھی وہ یہی کہے گا کہ کسی بھی عورت کا اپنے آپ کو یوں ڈھانپنا اور زینت کا ظاہر نہ کرنا انتہائی پسندیدہ عمل ہے اور پھر اس لطیفے پر غور فرمائیے کہ پردے کے خلاف ایسی ویسی نظر ڈالنے سے برپا ہونے والے ہنگامے کی دلیل لائی جارہی ہے!
مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جانے میں بھارت کے انتہا پسند ہندو اب اُس مقام تک پہنچ گئے ہیں‘ جس کے آگے صرف بے عقلی ہے‘ جہالت ہے۔ ہندو ازم سمیت تمام مذاہب کی تعلیمات میں‘ جو اخلاقی اقدار تسلیم شدہ ہیں اُنہی کے خلاف جاکر انتہا پسند ہندو خدا جانے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ جب نفرت کی آگ بجھنے کا نام نہ لے رہی ہو اور مت ماری جاچکی ہو‘ تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved