ایک بادشاہ نے اپنے امراء میں سے ایک امیر کی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر اسے وزیر اعظم بنانے کا سوچا اور اسے بلا کر اس کی رائے معلوم کی۔ امیر نے اس محترم منصب کے لیے بلا جھجک اپنی آمادگی ظاہر کردی اور سلطنت کی مضبوطی کے لیے محنت سے کام کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ کیا تم نے کوئی جنگ لڑی ہے؟ امیر نے نفی میں جواب دیا۔ بادشاہ نے سوال کیا کہ کبھی کوئی ایسا الزام لگا کہ تمہیں عدالت میں بطور ملزم پیش ہونا پڑا ہو؟ امیر نے اس کا جواب بھی نفی میں دیا۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ بھوک نے گھر میں ڈیرے ڈال لیے ہوں؟ امیر نے کہا ،ظل الٰہی ، میری سات پشتوں میں کسی نے غربت نہیں دیکھی۔ یہ سن کر بادشاہ نے کہا کہ تم اس عہدے کے لیے موزوں نہیں ہو ۔ امیر جو وزیر اعظم بننے کے لیے آیا تھا مایوسی کا شکار ہوگیا اور اس نے دنیا چھوڑ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ سوچ کر وہ اپنے شہر کے درویش کی خدمت میں حاضر ہوا او رترکِ دنیا کے لیے مرید کیے جانے کی درخواست کی۔ درویش نے پوچھا کہ ارادت کھینچ لائی ہے یا واقعی اپنے پیدا کرنے والے کی محبت دل میں جاگ اٹھی ہے؟ رئیس نے اپنا حال سنایا تو درویش نے اس راستے کی اونچ نیچ سمجھاکر واپس بھیجنا چاہا لیکن اس کا دھیان نہ ہٹا۔ آخرکار صاحب ِ حال نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا کہ بیعت کر لے اور مریدوں میں شامل ہوجا۔ چند روز بعد اس نئے مرید نے اپنے پیر کو بتایا کہ اس کی بے چینی کسی طور کم نہیں ہوپارہی۔ حکم ملا کہ اپنی ساری کی ساری دولت غریبوں میں بانٹ دو ۔ مرید کی دلیل تھی کہ شریعت کا تقاضا تو یہ نہیں۔ پیر نے کہا بیعت کے بعد دلائل نہیں دیے جاتے ، صرف حکم مانا جاتا ہے۔ سو اپنا سب کچھ لٹا کر مرید حاضر ہو ا تو مرشد نے ایک کشکول ہاتھ میں پکڑا کر کہا کہ شہر سے بھیک مانگ کر لاؤ اور اسی پر گزارا کرو۔ دل پر یہ حکم گراں تو بہت گزرا لیکن پیالہ لے کر اسی شہر میں گھومنے لگا جہاں کا بچہ بچہ اس کی سخاوت کے گُن گاتا تھا۔ پہلے پہل تو لوگوں نے خوب بھیک دی لیکن کچھ دن بعد ایسا وقت بھی آیا کہ لوگوں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کردیا کہ ہٹا کٹا ہو کر کوئی کام کرنے کی بجائے خیرات مانگتا ہے۔کچھ عرصہ مزید گزرا تو لوگ یہ بھول گئے کہ یہ فقیر کبھی بہت بڑا رئیس تھا۔ ایک دن بارگاہِ درویش سے حکم صادر ہوا کہ اپنی ڈاڑھی منڈوا دو۔ ایک بار پھر عرض کی کہ خلاف شرع کام ہے ،لیکن حکم واپس نہ لیا گیا ۔ ناچار ڈاڑھی منڈوا کر بھیک مانگنے لگا۔ لوگوں نے اسے ڈاڑھی کے بغیر دیکھ کر اتنا برا منایا کہ اسے خیرات ملنا بند ہوگئی اور تو اور خود اس کے مرشد نے منہ موڑ لیا اور حکم دیا کہ اسی وقت حاضر ہو جب بلایا جائے۔اب یہ مسکین ہر روز بازار سے گالیاں کھا کر خالی ہاتھ دوسرے درویشوں کے ساتھ خانقاہ پر آجاتا اور اپنے حال پر روتا رہتا۔ پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ وہ خود بھی فراموش کر بیٹھا کہ کبھی وہ بہت بڑا رئیس تھا اور اس خانقاہ کا لنگر اسی کے دیے ہوئے پیسوں سے چلتا تھا۔ایک دن اسے محسوس ہوا کہ جو بے چینی اسے مرشد تک لائی تھی وہ ختم ہوچکی ہے۔ کچھ دنوں بعد مرشد نے اسے بلایا اورپوچھا کہ اس کے پاس دولت، جاہ وحشمت یا عزت میں سے کچھ بچا ہے؟ جواب دیا :’شیخ ‘شہر کا سب سے ناپسندیدہ شخص ہوں جسے کوئی خیرات بھی نہیں دیتا‘۔ سوال ہوا کہ تمہاری امارت یا مفلسی کی وجہ سے دنیا کے اس نظام میں کوئی خرابی پیدا ہوئی؟عرض کی ’ آقا معمولی سی تبدیلی بھی نہیں آئی‘۔ حکم ہو اکہ اب اسی دنیا میں واپس لوٹ جاؤ جہاں سے آئے تھے ۔ مرید نے کہا ’میں جان چکا ہوں کہ میرے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر لوٹ جانے کا حکم کیوں؟‘ درویش نے کہا کہ تم نے اپنی جدی پشتی خوشحالی کی صورت میں اس دنیا کا ایک رُخ دیکھا تھا مگر دوسر ے رخ یعنی مفلسی سے ناواقف تھے۔اب تم نے دنیا کا دوسرا رخ دیکھ لیا ہے سو تمہارے دل سے عزت و دولت کے چھِن جانے کا خوف نکل چکا ہے۔ اب دنیا کی کوئی طاقت یہ خوف دلا کر تمہیں راہِ حق سے نہیں ہٹا سکتیــ، تم ایک قیمتی آدمی ہوچکے ہو جسے درویشوں کی منڈلی میں برباد نہیں ہونا چاہیے ،جاؤ اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کرو، وزیر اعظم کا عہدہ تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی ایسا بادشاہ یا درویش نہیں جو حکمرانی کے خواہشمندوں کو خاندانی خوشحالی کے بر عکس قومی مفلسی سے بھی آگاہ کرسکے۔ ہماری بدقسمتی کے سوا اسے اور کیا کہیے کہ جمہوریت ہو یا آمریت ،ہمارے حکمران ہمیشہ ایک ایسے طبقے سے آتے ہیں جسے قانون کی کی حکمرانی کی عادت ہے نہ قرضے لے کر واپس کرنے کا خیال۔ یہ طبقہ حکومتوں میں آکر رعایا پر ٹیکس تو لگاتا ہے لیکن خود ٹیکس دینا گوارا نہیں کرتا۔کوئی سرکاری ضابطہ ان کی خواہشات کے راستے میں حائل نہیں ہوسکتا ، کسی سرکاری اہلکار کی یہ مجال نہیں کہ انہیں قانون شکنی سے روک سکے حتٰی کہ پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنے والے فوجی حکمران بھی اپنی پوری طاقت کے باوجود اس طبقے کو قانون کی پابندی پر مجبور نہیںکرسکے۔ لیکن اب یوں لگتا ہے کہ حالات بہتری کی طرف مائل ہورہے ہیں، الیکشن کمیشن کو حکمران بننے کے خواہشمندوں سے بے رحم سوال کرتے ہوئے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ لا قانونیت کے سمندر میں بھٹکے ہوئے ہمارے جہاز نے آخرکار تہذیب و تمدن کی سرزمین کا رُخ کر لیا ہے۔اب وہ لوگ بھی قانون کو ماننے پر مجبور ہورہے ہیں جن کے لیے یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو اس دورِ جدید میں مخالفوں کو سبق سکھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ کیا یہ منظر دل کو خوش کرنے والا نہیں کہ چودھری نثار علی خان سے لے کر جمشیددستی تک کو اپنے تعلیمی دعووں کو ثابت کرنا پڑ رہا ہے اور ثابت نہ کرپانے والا جیل بھیجا رہا ہے؟ یہ ایک مہذب ملک میں ہی ہوسکتا ہے کہ آپ کو اپنے شاہانہ طرزِ زندگی پر اٹھنے والے اخراجات کا حساب بھی دینا پڑے۔ یہ زندہ معاشروں کی روداد ہے کہ جو عنانِ حکومت سنبھالنے کے دعویدار ہیں ان سے پوچھا جائے کہ کیاوہ ہمارے بنیادی رسم ورواج سے آگاہ بھی ہیں یا نہیں۔ ہمیں اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار قانون ان لوگوں پر نافذ ہورہا ہے جن کے چہرے ہی ان کی ’بے گناہی‘ کی دلیل ہوا کرتے تھے۔ذرا غور کیجیے کہ ہمارے ملک میں جب اسمبلیاں ایسے افراد پر مشتمل ہوں گی جن کے دامن بظاہر آلودہ نہ ہوں تو پھر ہماری انتظامی مشینری بھی بدعنوانوں سے پاک ہونے لگے گی۔جس اسمبلی میں جعلی ڈگریوں والے نہیں ہوں گے وہ بآسانی ان لوگوں کا بھی سراغ لگا لے گی جو مشکوک تعلیمی اسناد پر اعلٰی عہدوں پر فائز ہیں۔ جب یہاں کوئی دہری شہریت والا نہیں بچے گا تو پھر دہری شہریت والے اعلیٰ سرکاری عہدوں پر بھی نظر نہیں آئیں گے۔ اپنی آمدن کا حساب دینے والے جب قانون ساز ہوں گے تو پھر کسی اور کو بھی جرأت نہیں ہو گی کہ وہ ٹیکس دینے سے پہلو تہی کرے۔ہم نے جمہوریت کے نام پر جو بدتمیزی گزشتہ پانچ سال برداشت کی ہے اب وقت آگیا ہے کہ اس کا کچھ ازالہ ہوسکے۔ہمیں ان لوگوں کی چیخ وپکار پر کوئی توجہ نہیں دینی جن پر قانون کا تازیانہ برس رہا ہے۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ بھینسوں کی زچگی کے ذمہ دار بچھڑے نہیں ہوا کرتے۔ یہ بھینسوں کا اپنا کیا دھرا ہے جو ان کے سامنے آرہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved