تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     16-10-2018

یکساں نصاب:خواب سے تعبیر تک

وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں تعلیم کو اپنی تقریر کامرکزی نکتہ بنایا۔انہوںنے تعلیم سے متعلق تین ا ہم مسائل کاذکر کیا۔ جن کا حل فوری عمل کاتقاضا کرتا ہے ان میں آئوٹ آف سکول بچوں کی کثیرتعداد‘تعلیمی اداروں میں غیریکساں نصاب اورتعلیمی معیار کی کمی شامل ہیں یہ تینوں مسائل ایک عرصے سے ہمارے تعلیمی منظرنامے کاحصہ ہیں اوروقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔
اسی طرح وزیرتعلیم شفقت محمودصاحب نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی گریجویٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اس عزم کودہرایا کہ تعلیمی میدان میں ان کے تین بنیادی ہدف ہوںگے۔ آئوٹ آف سکول اڑھائی کروڑ بچوں کوسکول میںتعلیم کی سہولت مہیا کی جائے گی۔ مختلف تعلیمی اداروں میں بنیادی نصابCore Curriculumیکساں ہو گا اور تعلیمی اداروں میں تعلیم کے معیار کو بلندکیاجائے گا؛ چونکہ محترم شفقت محمود کو میںذاتی حیثیت میں جانتاہوں نہ صرف ایک بیوروکریٹ‘ سیاست دان اور کالم نگار کے طورپربلکہ ایک معلم کی حیثیت سے بھی۔ کم لوگوں کوپتہ ہوگاکہ انہوںنے گورنمنٹ کالج لاہور کے علاوہ لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں کئی سال پڑھایا۔ اتفاق سے میں بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھاتاتھا۔ میرا خیال ہے شفقت محمودصاحب کاوزارت تعلیم کے لیے انتخاب موجودہ دور حکومت کا بہترین فیصلہ ہے۔
آئیے اب ان اہم تعلیمی مسائل اوران کے ممکنہ حل کاجائزہ لیتے ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ اڑھائی کروڑ بچوںکاتعلیم سے محروم رہ جاناہے۔ بحیثیت قوم ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان بچوں کوسکولوں میںکیسے لایاجائے۔ اس سلسلے میں چیف جسٹس آف پاکستان محترم ثاقب نثارصاحب نے ماہرین تعلیم اورصوبائی اور وفاقی عہدیداروں پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی‘ جس کی قیادت وفاقی محتسب جناب طاہرشہبازصاحب کررہے تھے۔ اس کمیٹی نے انتہائی جانفشانی سے کام کیا اوراب اس کمیٹی کی سفارشات سامنے آگئی ہیں جن کا بنیادی محورآئین کے آرٹیکل 25-A کا نفاذ ہے‘ جس میں5سے16سال کے بچوں کے لیے تعلیم لازمی اورمفت قرار دی گئی ہے۔ توقع ہے کہ جناب شفقت محمودیقیناً ان سفارشات کوحکومتی ایکشن پلان کاحصہ بنائیں گے‘ جس کی بدولت آئوٹ آف سکول بچوں کی کثیرتعداد کوتعلیم مفت مہیاکی جاسکے گی۔
عمران خان نے اپنے خطاب میں جس دوسرے اہم مسئلے کی نشاندہی کی وہ پاکستان میں رائج مختلف النوح تعلیمی نظام ہیں جن میں مختلف طرح کے نصاب رائج ہیں عمران خان نے اس کا حل یکساں نصاب کوقرار دیا۔ ہمارے معاشرے میں معاشرتی اورمعاشی عدم مساوات باہمی آویزشوں کاایک اہم سبب ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں مختلف النوع تعلیم نظام اورنصاب ان معاشی اورمعاشرتی امتیازات کومزید گہراکررہے ہیں۔ پاکستان میں متعدد تعلیمی پالیسیاں آئیں لیکن کسی پالیسی نے اس اہم مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی۔مختلف نظام ہائے تعلیم کیسے معاشرے کوتقسیم درتقسیم کرتے ہیں اورکیسے امیروں اورغریبوں کے الگ الگ سکول ان کے لیے مختلف دنیائیں تشکیل دیتے ہیں اس کاتفصیلی تجزیہ میری کتاب:Education, Inequalities, and Freedom: A Sociopolitical Critique میں موجود ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ حکومتی سطح پراس اہم مسئلے کا ادراک کیاگیاہے اوراس کواپنے ایکشن پلان کاحصہ بنایاگیا‘جو ہمارے معاشرے میں تعلیم کے مختلف دھاروں کی شکل میں موجودہے ۔یہ دھارے کہیں ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہیں کہیں ایک دووسرے کا راستہ کاٹتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ تعلیم جس کا بنیادی مقصد معاشرے میں موجود معاشی اورمعاشرتی افراط وتفریط کوکم کرنا ہے‘ وہی تعلیم معاشرے میں ان امتیازات کوبڑھارہی ہے۔
ایک نصاب کاخواب دراصل اس بڑے خواب کاحصہ ہے جس میں معاشرے میں معاشی اورمعاشرتی عدم مساوات کوکم سے کم جائے۔مگرایک نصاب کے خواب کی تعبیر اتنی آسان نہیں۔ اس پرمزیدگفتگو سے پہلے ہمیں یہ دیکھناہوگاکہ نصاب سے کیامرادہے۔ نصاب کی ایک روایتی تعریف ہے جس کے مطابق نصاب ایک Course of Studyیعنی نصاب میں اس راستے اور سرگرمیوں کاتعین کردیاجاتاہے جواس تعلیمی ادارے کے مقاصد کے حصول میں مدددیتے ہیں۔نصاب کا پرانا تصورایک جامد دستاویز کاہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ نصاب کی یہ دستاویز کسی بھی تعلیمی ادارے کے بیشتراساتذہ کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ انہیں صرف ان درسی کتب سے غرض ہوتی ہے جنہیں وہ کلاس روم میں پڑھاتے ہیں اور جن کی بنیادپر امتحانی پرچے تیارکئے جاتے ہیں۔نصاب کاموجودہ تصور کینیڈین ماہرتعلیم کونلیConnelyکاہے جس کے مطابق نصاب استاد‘ طالب علم‘ پڑھائی کے مواد امتحانی نظام اورسکول کے ماحول کے درمیان Interactionکانام ہے۔ نصاب کایہ Dynamicتصور ہے جس میں نصاب کے مختلف اجزاء اپنی اپنی جگہ اہم کردارادا کرتے ہیں۔
نصاب کے اس تصور کوسامنے رکھیں تویکساں نصاب کامطلب نصاب سے وابستہ تمام چیزوںمثلاً طالب علم‘اساتذہ‘ درسی کتب‘ سکول کاماحول‘ امتحانی نظام سب میں برابری اورمساوات ہے یہ ایک خواب ایک دیرپا منصوبہ بندی کامتقاضی ہے۔ لیکن اگرنصاب کواس کے روایتی معنوں میں ہی لیاجائے تب بھی یہ ایک آسان عمل نہیںہوگا۔حقیقت پسندانہ بات یہ ہوگی کہ ہم ایک بنیادی نصابCore Curriculum کاتعین کر لیں جوتمام نظام ہائے تعلیم اپنائیں۔ اس وقت معاشرے میں بکھرائو اورافراط وتفریط کا عمل نظرآتا ہے یکساں بنیادی نصاب میں کسی حدتک کمی کاباعث بن سکتاہے۔
لیکن محض یکساں بنیادی نصاب کانفاذ اس بات کی ضمانت نہیں دیتاکہ تعلیمی اداروں میں مساوات آجائیگی اس کے لیے ضروری ہوگا کہ اساتذہ کا اورنظام تعلیم کامعیار بھی بہترہو۔ میرے خیال میں نصاب کے اجزائے ترکیبی میںاستاد کا کردارسب سے اہم ہوتاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اساتذہ کی تربیت کے معیاری قائم کئے جائیں جیساکہ آغاخان یونیورسٹی کاکراچی میںقائم کردہ تربیت اساتذہ کاادارہ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل ڈیویلپمنٹ(IED)ہے۔ مجھے خودبھی اس ادارے میں تین سال پڑھانے کاموقع ملا۔ہماری کوشش ہوتی تھی کہ اساتذہ میں تین سطحوں‘ Knowledge, Skills, Attitude کی سطح پرتبدیلی لائی جائے۔ اسی طرح موجودہ نظام امتحان جوصرف یادداشت کاامتحان ہوتاہے‘ کویکسر بدل دیاجائے اورایک ایسے نظام امتحان کی بنیادرکھی جائے جہاں طالب علموں کیHigher Order Thinking Skillکے جانچنے کااہتمام کیاجائے۔ جس طرح چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے اڑھائی کروڑ آئوٹ آف سکول بچوں کوسکولوں میںلانے کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی جس کی سفارشات ان کو پیش کردی گئی ہیں‘ اسی طرز پرایک مختصر مدت کے لیے یکساں بنیادی نصاب کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جائے جو ایک مہینے کے اندر ٹھوس سفارشات پیش کرے۔یہ امر باعث اطمینان ہے کہ عمران خان یکساں نصاب کے حوالے سے سنجیدہ ہیں اوراگر ہم اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو معاشرے کے اندر موجود تعلیمی‘معاشرتی اور معاشی امتیازات بھی کم ہونے کے امکانات ہیں اور یہ نئے پاکستان کی تشکیل کے لیئے ایک اہم ا قدم ہو گا۔عمران خان نے پنے خطاب میں جس تیسرے اہم تعلیمی مسئلے کی نشاندہی کی ہے وہ معیار(Quality)کاہے‘ جس کاتفصیلی ذکراگلے کالم میں ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved