ملکی مسائل حل کرنے ہیں ‘تو نواز شریف کو واپس لانا ہوگا: خاقان
سابق وزیراعظم اور نومنتخب رکن قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''ملکی مسائل حل کرنے ہیں‘ تو نواز شریف کو واپس لانا ہوگا‘‘ کیونکہ جس نے ملک کو مسائل میں مبتلا کیا ہے‘ وہی ان مسائل سے ملک کو نکال بھی سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام نے ثابت کر دیا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ ہیں‘‘ اور جن سیٹوں پر ہم ہارے ہیں‘ وہاں کے عوام اب پچھتا رہے ہیں‘ جبکہ ہمیں جتوانے والے عوام بھی اپنے کیے پر نادم ہیں کہ وہ کیا کرنے آئے تھے اور اُن سے کیا ہو گیا‘ کیونکہ وہ بھی نواز شریف کے پرستار ہیں اور کام پہلے کرتے ہیں اور اُن کی طرح سوچتے بعد میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت ہمارا راستہ نہیں روک سکتی‘‘ کیونکہ یہ راستہ ہی ایسا ہے‘ جو کسی طرف بھی نہیں جاتا‘ اس لیے حکومت کو اس راستے سے روکنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان چور دروازے سے آئے تھے‘ اس لیے عوام نے مسترد کر دیا‘‘ اور‘ ایک طرح سے انہوں نے ہماری نقل اتاری ہے کہ دراصل یہ دروازہ ہمارا تھا‘ جس میں وہ پھرتی سے داخل ہو گئے اور ہم دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے۔آپ الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی ‘یوٹرن پارٹی ہے‘ ان سے کام نہیں ہوگا: مراد علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی یوٹرن پارٹی ہے‘ ان سے کام نہیں ہوگا۔ اللہ خیر کرے‘‘ ہمارے ہاں تو اگر غلط بھی ہوں اور اکثر اوقات غلط ہی ہوتے ہیں تو بھی یوٹرن نہیں لیا جاتا اور ہمارے جو جو کارہائے نمایاں و خفیہ ہیں اور جو ہمارے زمانے میں مشہور ہیں‘ ان پر بھی ہم نے ہاہاکار کے باوجود کبھی یوٹرن نہیں لیا‘ جبکہ آدھا سندھ قبضہ مافیا کے زیر تسلط میں ہے‘ لیکن ہم اپنی روش پر قائم رہے اور انہیں پریشان نہیں کیا ‘کیونکہ انہوں نے بڑی محنت سے ان اراضیات پر قبضے کیے ہیں‘ لیکن اب ایک عدالتی حکم پر ان بے زبانوں کیخلاف کارروائی کر کے انہیں اُن کے خون پسینے کی کمائی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دس سال پہلے والا تھر اب بدل چکا ہے‘‘ کیونکہ اب وہاں فاقہ زدہ بچوں کی اموات زیادہ ہو گئی ہیں‘ جبکہ موت و حیات صرف اللہ میاں کے اختیار میں ہیں‘ بندہ بشر اس میں کیا دے سکتا ہے؟ آپ اگلے روز حیدر آباد میں میڈیا سے گفتگوکر رہے تھے۔
ایک بار پھر حق اور سچ کی فتح ہوئی: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ایک بار پھر حق اور سچ کی فتح ہوئی‘‘ لیکن مجھے کم بختوں نے ووٹ ہی نہیں ڈالنے دیا کہ شناختی کارڈ لاؤ‘ حالانکہ میں نے کہا کہ میں اگر کام کرنے دوں تو پھر پہچان لو گے؟ اس پر بھی انہوں نے معذوری ظاہر کی‘ پھر میں نے کہا کہ میں 'مجھے کیوں نکالا‘ کا نعرہ لگا کے دکھاؤں تو وہ بولے :یہ نعرہ آپ نے خود ہی ترک کر رکھا ہے‘ اس لیے اس کا کوئی فائدہ نہیں‘ جس پر میں نے کہا کہ دس آدمیوں کا کھانا میرے سامنے رکھ دو‘ میں اکیلا کھا کر دکھا دیتا ہوں ‘لیکن انہوں نے کہا کہ ہم اتنا کھانا کہاں سے لائیں؟پھر میں نے کہا کہ میں بین بجا کر دکھاؤں ‘جو میں اپنی بھینسوں کے آگے بجایا کرتا تھا‘ جنہیں حکومت نیلام کر کے ڈیم بنا رہی ہے‘ لیکن وہ پھر بھی نہ مانے۔ آپ اگلے روز لاہور میں کارکنوں کو مبارکباد دے رہے تھے۔
شہباز شریف کو قید میں مچھر کاٹتے ہیں: تہمینہ درانی
میاں شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کو قید میں مچھر کاٹتے ہیں‘‘ کیونکہ کچھ مچھر وہاں ملاقات کے وقت میں نے بھی دیکھ لئے جو ان کا خون پی پی کر سُوج کر کپّا ہو رہے تھے اور یہ خون کا وہ آخری قطرہ تھا‘ جسے وہ عوام کی خدمت میں بہانا چاہتے تھے ‘لیکن حاسد لوگوں نے ایسا نہیں ہونے دیا اور خون کا یہ آخری قطرہ بھی عوام کی بجائے مچھروں کے کام آیا‘ اس لیے نیب کو کم از کم ان مچھروں کے خلاف تو کارروائی کرنی چاہیے‘ جس کے لیے اگر کسی سازش کی ضرورت ہو تو وہ میں بنوا کر دے دیتی ہوں اور میں نے تو دونوں بھائیوں سے بار بار کہا تھا کہ احتیاط سے کام لیا کریں‘ لیکن بداحتیاطی کرنے سے تو انہیں مچھروں نے ہی کاٹنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''شوہر کی حالت دیکھ کر دُکھ ہوا‘‘ جبکہ اُن کی بے شمار دیگر خواتین کو بھی دُکھ ہوگا‘ جو اُن کی کارکردگی کی وجہ سے اُن کی بڑی فین ہیں۔ آپ اگلے روز نیب آفس میں شہباز شریف سے ملاقات کے بعد بیان دے رہی تھیں۔
عدالتی نظام فیل ہو چکا‘ جمہوری نظام خطرے میں ہے: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عدالتی نظام فیل ہو چکا ہے اور جمہوری نظام خطرے کی جانب بڑھ رہا ہے‘‘ اور جہاں پر چھوٹی موٹی بات کا سو موٹو ایکشن لیا جاتا ہو اور منی لانڈرنگ وغیرہ کرنے والوں کا جینا حرام کیا جا رہا ہو‘ وہاں عدالتی نظام فیل نہیں تو اور کیا ہو گا اور یہ بھی ایک طے شدہ بات ہے کہ چار پیسے بنانے والے معصوموں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے سے سب سے زیادہ خطرہ جمہوری نظام ہی کو لاحق ہوتا ہے‘ اس لیے عدالتوں کو کم از کم جمہوری نظام کا تو خیال رکھنا چاہیے‘ جبکہ یہ جمہوری نظام اس کی بدولت ہے کہ لیڈروں کو خوشحال ہونے کا موقع ملتا ہے‘ جو کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں ‘جبکہ انہیں یہ پیسہ واپس بھی لانا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عاصمہ جہانگیر کے نظریوں کا معترف ہوں‘‘ اگرچہ وہ بھی اکثر ہمارے خلاف ہی بولتی تھیں؛ حالانکہ ہم حکومت میں آ کر اپنے معمول کا کام ہی کیا کرتے تھے۔ آپ اگلے روز لاہور میں عاصمہ کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
ظفرؔ مرا اور اُس کا یہ نسخۂ محبت
الگ الگ اور جُدا جُدا ہے‘ یہی بہت ہے