تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     16-10-2018

سیدۂ خواتین جنت ؓ

شہید کربلا نے میدان کارزار میں جو عظیم نمونہ پیش کیا‘ وہ کوئی معمولی بات نہیں‘ مگر سیدنا حسین ؓ اچانک کہیں سے رونما نہیں ہوئے تھے‘ جس ماں نے انہیں جنم دیا‘ دودھ پلایا‘ لوریاں سنائیںاور تربیت کی‘ وہ خواتین ِ جنت کی سردار اور نبیٔ رحمت ؐکی لختِ جگر تھیں۔نبی کریمؐ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ سَیّدَۃُ نِسَائِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَاطِمَۃ۔ فاطمۃ الزہراؓ اپنے عظیم باپ‘ حاصل ِکائنات‘ محمدعربیؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کی تمام عادات وخصائل کی سچی تصویر تھیں۔ بچپن ہی میں ماں کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو شاہ عرب و عجمؐ نے ننھی فاطمہؓکو شفقتِ پدری کے ساتھ مامتا کی شیرینی بھی عطا کی۔ آپؐ نے ہمیشہ فاطمہؓ کی دلجوئی فرمائی۔ آپؐ نے جس انداز میں ان کی تربیت کی تھی‘ اسی کا نتیجہ تھاکہ وہ جنت میں جانے والی خواتین کی سردار کہلائیں۔ دنیا اور اس کی دولت سے انہیں کوئی رغبت نہ تھی۔ آنحضور ؐ نے جب اپنے گھر سے بیٹی کو رخصت کرنے کا فیصلہ کیا ‘تو خوب سوچ سمجھ کر ان کے جیون ساتھی کا انتخاب کیا۔ 
آنحضورؐکی نظروں میں اپنی بیٹی فاطمہؓکے رشتے کے لیے اپنے پیارے صحابی حضرت علیؓ کے سوا کوئی اور نوجوان نہیں تھا۔ ادھر علیؓ ابن ابی طالب کا معاملہ یہ کہ وہ فقر وفاقہ میں گرفتار تھے۔ والدین اپنی بیٹیوں کو گھروں سے رخصت کرتے ہیں تو اس الوداع کے وقت عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ ابو القاسمؐ بھی اس کیفیت سے گزرے۔ حضرت علی ؓ کی اپنی ہی آزاد کردہ لونڈی نے انہیں ایک دن ترغیب دی کہ وہ ہمت کر کے آنحضورؐ کو فاطمہؓ کے رشتے کے لیے پیغام دیں‘ مگر حضرت علیؓ سوچتے تھے کہ گھر آباد کرنے کے لیے جو وسائل درکار ہیں‘ وہ کہاں سے آئیں گے۔ آخر ایک روز ہمت کر کے آنحضورؐکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عموماً جب آتے تو بات چیت بھی کرتے اور سوال بھی‘ مگر آج سر جھکائے‘ چپ چاپ بیٹھے رہے۔ سمجھ نہیں آ رہاتھاکہ سوال کس طرح کریں۔ آخر کار آقاؐ خود بولے اور فرمایا ''علی ؓ کیوں چپ سادھے بیٹھے ہو‘ کیا فاطمہ ؓ کے بارے میں بات کرنے آئے ہو؟‘‘آنحضور ؐکی زبان سے یہ الفاظ سن کر حضرت علیؓ نے عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ‘ اسی لیے آیا تھا ‘مگر سوال کی ہمت نہ پڑی۔ آنحضورؐ نے حضرت علیؓ کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ وہ آپؐ کے چچا زاد بھائی تھے‘ بچپن میں آپؐ ہی کے گھر میں آپ ؐ کے بچوں کی طرح پلے بڑھے تھے۔ آپ ؐکو حضرت علیؓسے بے پناہ محبت تھی اور ان کے جذبات کا بھی خیال رکھا کرتے تھے۔ اس موقع پر سیدنا مصطفی ؐ اور جناب مرتضیٰ ؓ کے درمیان‘ جو بات چیت ہوئی ‘وہ بڑی ایمان افروز ہے:۔ 
آپؐ نے پوچھا: ''علیؓ مہر ادا کرنے کے لیے بھی کچھ موجود ہے ؟‘‘ عرض کیا ''یار سول اللہ! آپؐ جانتے ہیں کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں‘‘ آپ ؐ نے فرمایا'' جو زرہ میں نے تمہیں ہدیہ کی تھی‘ وہی تم مہر میں دے دینا‘‘۔ حضرت علیؓ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا '' یار سول اللہ‘ میں وہ زرہ فروخت کر کے ابھی آتا ہوں؛ چنانچہ وہ بازار کی طرف روانہ ہو گئے۔ ذرا سوچیے کہ آنحضور ؐ کے اپنے مبارک گھر اور مقدس ذات کا یہ عمل کس قدر واضح ہے کہ حق مہر جو نکاح کے لیے ضروری ہے‘ اس کی مقدار کا کوئی تعین نہیں۔ استطاعت کے مطابق بڑی رقم بھی ہو سکتی ہے اور بالکل معمولی بھی۔ 
حضرت علی ؓ جو نہی بازار کی طرف چلے ‘راستے میں انہیں سیدنا عثمان غنیؓ مل گئے‘ ان کی عظمت کو سلام ! کیسے عظیم لوگ تھے۔ حضرت علی ؓ سے پوچھا: کہاں جارہے ہو ؟ جب انہو ں نے اصل بات بتائی تو کہا ''میں یہ زرہ خریدنا چاہتا ہوں‘‘ چنانچہ وہ زرہ اپنے بھائی سے خریدی اور پھر کہا :علیؓیہ لو اس کی قیمت چار سو اسّی درہم اور یہ لو زرہ کہ یہ میری طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے‘ اسی رقم سے مہر‘ خوشبواور دیگر اشیا ئے ضروریہ کااہتمام کیا گیا اور یوں بڑی سادگی سے خاتونِؓجنت اپنے بابا ؐکے گھرسے علیؓ کے گھر سدھارگئیں۔ نکاح کے وقت مہاجرین و انصار صحابہؓسبھی جمع تھے۔ آنحضور ؐ نے خطبہ نکاح پڑھا اور چار سومثقال چاندی حق مہرپر حضرت فاطمہؓکو حضرت علیؓ کے نکاح میں دے دیا۔ پھر آنحضور ؐ نے ان کے لیے دعائیں کیں۔ حضرت علیؓ کی عمراکیس سال اور حضرت فاطمہؓ کی عمر سولہ سال تھی۔ رخصتی کے وقت آنحضور ؐ نے اپنی بیٹی کی پیشانی پربوسہ بھی دیا اور ان کو نیک تمنائوں کے ساتھ حضرت علی ؓ کے ساتھ روانہ فرما دیا۔ 
ہمارے ہاں جہیز کے بارے میں بحث چلتی ہے۔ جہیز کتنا ہونا چاہیے؟ ہونا بھی چاہیے یانہیں؟ کیا یہ لازم ہے یا حرام؟ ہمارے معاشرے میں ہر طرح کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ جہیز کا تعلق نکاح کے ارکان و شرائط سے قطعاً نہیں ‘لیکن یہ خیال بھی باطل ہے کہ جہیز بالکل ممنوع ہے اور خلاف اسلام ہے۔ بیٹیوں کا وراثت اور جایداد میں حصہ متعین ہے۔ اس کی ادائیگی توفرض ہے اور اس سے انکارحکمِ الٰہی کی صریح نافرمانی ہے۔ جہیزحسبِ ضرورت دیا جاسکتاہے۔ وہ فرض اور واجب کے زمرے میں نہیں آتا؛ چونکہ حضرت علی ؓ کے گھر میں ایک خاندان کی ضروریات کے لیے ضروری سامان موجود نہیں تھا‘ اس لیے رسالت مآب ؐ نے رخصتی کے وقت اپنی بیٹی کو گھریلو ضروریات کا سامان دیا۔ 
حضورؐ نے اپنی بیٹی کو جہیز میں جو چیزیں دیں ان میں کوئی بھی فضول یا غیر مفید شے نہیں تھی۔ آپ ؐ نے اپنی بیٹی کو ایک چکی بھی عطا فرمائی تھی۔ خاتون ِ جنتؓ کو جب کبھی غلہ ملتا تو اپنی اسی چکی پر پیستیں اور اس سے روٹی بناتیں۔ حسن ؓ اور حسین ؓ بچپن میں گود میں ہوتے‘ چکی پیسی جا رہی ہوتی اور قرآنی آیات کی لوریاں زبان اقدس پر ہوتیں۔ حسین ؓ نے کربلا میں تیروں کی بوچھاڑ‘ تلواروں کی یلغار اور نیزوں کی بھر مار میں قرآن مجید کی جو تلاوت کی تھی‘ تو یہ اسی تربیت کا ثمرہ تھا‘ جو ماں کی گود سے انہیں حاصل ہوئی تھی۔ 
مزرعِ تسلیم را حاصل بتولؓ
مادراں را اسوۂ کامل بتولؓ
چکی ایک بنیادی ضرورت تھی‘ لیکن اس کے علاوہ بھی جتنی چیزیں دی گئیں‘ وہ روز مرہ کے استعمال کی تھیں۔ آرائش و زیبائش اور تصنع کے لیے کوئی چیز نہیں دی گئی۔ ایک جائے نماز تھا اور ایک پیالا۔ ایک تکیہ تھا جس کا غلاف چمڑے کا تھا اور جس کے اندر کھجور کی چھال بھری گئی تھی۔ اس کے علاوہ ایک پلنگ اور ایک گرم بستر۔ ایک مشکیزہ اور دو گھڑے‘ دو عام چادریں اور دو چاندی کے کنگن۔ یوں ایک جانب سے یہ جہیز تھا اور دوسری جانب سے حضرت علیؓ نے مسنون طریقے کے مطابق ولیمے کا اہتمام کیا تھا۔ اسی رقم سے یہ سارے کام ہو گئے‘ جو انہیں زرہ بیچنے سے ملی تھی۔ ولیمے میں کھجور اور گوشت کے علاوہ‘ مکھن‘ پنیر اور جو کی روٹی بھی تھی۔ صحابہؓ کہا کرتے تھے کہ یہ ایک بہترین ولیمہ تھا۔ 
حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ نے کبھی فقر و فاقہ پر شکایت نہیں کی۔ ان کے خاوند اگرچہ متمول نہیں تھے‘ مگر عظمت کی اعلیٰ چوٹیوں کو چھوتے تھے۔ ان کے پیوند لگے کپڑے‘نانِ جویں اور سادہ زندگی ایک جانب ‘مگر ان کا رعب ایسا کہ کوئی بڑے سے بڑا خنّاس بھی آنکھوں میں آنکھیں نہ ڈال سکتا تھا۔ آنحضورؐ نے اپنی بیٹی کو ایک دن خطاب کر کے فرمایا ''جانِ پدر! میں نے تمہیں اپنے خاندان کے سب سے بہترین شخص کے عقدِ نکاح میں دیا ہے۔‘‘ کیا عظیم لوگ تھے‘ جو روشنی کے مینار تعمیر کر گئے۔ حضرت ابو ذر غفاریؓبیان کرتے ہیں کہ میں آنحضورؐکے حکم سے کبھی حضرت علیؓکو بلانے ان کے گھر جاتا تو بنتِ رسولؐ کو حسنین ؓ میں سے کسی ایک جنتی پھول کو گود میں لیے چکی پیسنے میں مصروف دیکھتا۔ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ ؓ نے جو کی کچھ روٹیاں پکائیں۔ جب بچوں کو کھلا چکیں اور خود کھانے لگیں تو خیال گزرا کہ ابا حضور ؐ کے ہاں بھی فاقہ ہوگا۔ سوچا کہ چلو روٹی کا کچھ حصہ خدمت اقدس میں پیش کر دوں۔ جب دربار ِمصطفی ؐمیں پہنچیں توآپ ؐ نے ان کے ہاتھ سے بڑی محبت سے وہ روٹی لی اور فرمایا: ''یہ روٹی کہاں سے آئی؟‘‘سیدہ ؓ نے جب بتایا کہ گھر میں پکائی تھی اور ہمیں تین وقت کے فاقے کے بعد یہ نصیب ہوئی ہے‘ تو آنحضور ؐ نے سر پہ دستِ شفقت پھیرتے ہوئے کہاکہ ''لختِ جگر! تمہارے باپ کو چار فاقوں کے بعد یہ ٹکڑا نصیب ہواہے۔‘‘ 
آپ سوچیے کہ جوسرورِ کائنات تھے‘ وہ کیسی زندگی گزار کے گئے اور ہم کن وادیوں میں سرگرداں ہیں ؟ انہیں دنیا کی حقیقت بھی معلوم تھی اور آخرت کے اجر پر بھی ان کی نظر تھی۔ وہ عظیم لوگ تھے۔ پستیوں سے انہیں کیا تعلق‘ ان کا مقدر رفعتیں تھیں اور ان کا نصیب جنت۔ ہم دنیا میں کھو گئے اور اپنی اصل کو بھول گئے۔ اے کاش! ہمیں وہ بھولا ہوا سبق پھر یاد آجائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved