دن کام کا استعارہ ہے‘ رات آرام کا۔ دن توانائی کی علامت ہے‘ رات تھکن کی۔ دن کے حوالے سے تابندگی اور خوش حالی کا تصور پایا جاتا ہے اور رات کا ذکر چھڑتے ہیں‘ ذہن میں واماندگی‘ پژمردگی اور بے بضاعتی کا خیال ہیولا بن کر ابھرتا ہے۔ رات کے اندھیرے کو رنج و غم کی توانا ترین علامت گردانتے ہوئے ہمارے شعراء نے بارہا یہ کہتے ہوئے حوصلہ افزائی کی کوشش کی ہے کہ رات بس بھر کی ہے اور اِس کا اندھیرا بھی زیادہ ٹھہرنے والا نہیں ؎
رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا
کس کے روکے رکا ہے سویرا
رات کے بارے میں اردو کے کلاسیکی شعراء نے ایسی ایسی مو شگافیاں کی ہیں کہ پڑھ کر ذہن پر غشی سی طاری ہونے لگتی ہے۔ ایک تو رات اور وہ بھی ہجر کی رات! غالبؔ نے ہجر کی رات کا دکھ یوں بیان کیا ہے کہ قلم توڑ ڈالا ہے ؎
کب سے ہوں‘ کیا بتاؤں‘ جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
فارسی کی طرح اُردو کے بیشتر شعراء کے ہاں بھی طویل اور ناقابلِ برداشت دکھ بیان کرنے لیے شبِ انتظار کا استعارہ بروئے کار لایا جاتا ہے۔ فیضؔ نے کہا ہے ؎
تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سَحر‘ بار بار گزری ہے
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ رات آتی ہے اور متعلقین دعاگو رہتے ہیں کہ یہ نہ گزرے اور اگر گزرے‘ تو یوں کہ ہزار راتوں پر بھاری ہوجائے! یہ ہے وصل کی رات۔ شعراء کے ہاں وصل کی رات کے حوالے سے خدا جانے کیسی کیسی فکری اٹکھیلیاں ملتی ہیں‘مثلاً :؎
حیرت سے مر نہ جائیں کہیں ہم شبِ وصال
آنے سے بڑھ کے اُن کا نہ جانا عجیب ہے!
وصل کی رات کو بیان کرنے میں ہمارے شعراء نے حُسنِ بیان کی انتہا کردی ہے۔ حد یہ ہے کہ نصیب سے عطا ہونے والی اس رات کو زندگی سے مانگا ہوا قرض گرداننے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ ؎
ہے رات رات بھر کی‘ کاٹیں نہ کیوں خوشی سے
یہ رات قرض ہم نے مانگی ہے مانگی ہے زندگی سے
وصل کی نہ ہو تو پھر کیسی ہی ہو‘ رات صرف رات ہوتی ہے‘ جس کے گزرنے ہی پر کچھ بہتری کے آثار ہویدا ہوسکتے ہیں۔ رات تاریکی سے عبارت ہے اور تاریکی ڈراتی ہے‘ سکون چھین لیتی ہے۔ ؎
رات کی بے سکوں خموشی میں رو رہا ہوں کہ سو نہیں سکتا
راحتوں کے محل بناتا ہے دل جو آباد ہو نہیں سکتا
رات کی زندگی تاریک اور دن کی زندگی روشن ہوتی ہے۔ یہ حقیقت دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہے۔ ہمارے ہاں‘ البتہ معاملہ کچھ اور ہے۔ یہاں رات کو زندگی کی تابندہ ترین علامت سمجھ کر قبول کرلیا گیا ہے اور یہ قبولیت دن بہ دن پختہ تر ہوتی جارہی ہے۔
پاکستان بھر کے شہروں اور شہروں سے جُڑے ہوئے علاقوں میں ایک نیا کلچر بہت تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ یہ نیا کلچر ہے‘ دن میں کام سے گریز اور رات بھر آرام سے رغبت کا۔ کراچی اس معاملے میں سرخیل کا درجہ رکھتا ہے۔ رات رات بھر ہوٹلوں پر بیٹھ کر زمانے بھر کی بے سَر و پا باتوں سے دل بہلانا‘ یعنی زندگی جیسی نعمت کو لایعنی معاملات کی نذر کرنا۔ استغفراللہ۔ رات کو سو جائیے تو خواب دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ رات جاگتی آنکھوں میں سپنے سنجونے پر تُل گئی ہے۔ ؎
رات نے کیا کیا خواب دکھائے رنگ بھرے سو جال بچھائے
آنکھیں کھلیں تو سپنے ٹوٹے‘ رہ گئے غم کے کالے سائے
ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ کلچر پروان چڑھ رہا ہے یا چڑھایا جارہا ہے؟ اب تو عادت سی ہوگئی ہے کہ ہر بات میں‘ ہر معاملے میں کسی ایجنڈے کی بُو سُونگھی جائے! رات رات بھر نئی نسل کو جگائے رکھنے کا ماحول پیدا یا فراہم کرنا‘ کہیں کسی پوشیدہ ایجنڈے کا حصہ تو نہیں؟ دنیا بھر میں لوگ علی الصبح بیدار ہوتے ہیں۔ عبادت یا مراقبے کے بعد تھوڑی بہت ورزش کرتے ہیں‘ پھر ناشتہ کرکے رزقِ حلال کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ دن بھر کی اعصاب شکن‘ بلکہ ہڈی توڑ محنت کے بعد شام کو گھر واپسی پر کھانے پینے کے بعد کچھ دیر چہل قدمی کرکے جلد سو جانے کا چلن عام ہے۔ فطرت سے مطابقت رکھنے والی زندگی تو ایسی ہی ہوتی ہے‘ تو پھر ہمارے ہاں فطرت کے بالکل برعکس طرزِ فکر و عمل کیوں اپنائی گئی ہے؟ رات بھر جاگنے اور بتیانے کا کلچر عام کیوں ہوتا جارہا ہے؟ رات کے وقت بات کرنے میں زیادہ لطف یوں آتا ہے کہ گاڑیوں کی آمد و رفت کم ہوتی ہے‘ شور و غل کا گراف نیچے آ جاتا ہے۔ موسم بھی معتدل ہوتا ہے۔ یہ سب اپنی جگہ درست ‘مگر باتیں ہی باتیں کیوں اور کس حد تک؟ کوئی اگر کسی سے پندرہ بیس دن کے بعد ملے تو سُننے اور سُنانے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ روز ملنے میں کیا مزا؟ آخر وہ کون سی باتیں ہیں ‘جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں؟ ؎
بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے
زندگی رات کے سانچے میں ڈھلی جاتی ہے
بہت سے دوسرے معاملات کی طرح رات کے معاملے میں بھی ہمارا چلن یا رویّہ اس دل خراش حقیقت کا عکاس ہے کہ ہم زندگی کے بارے میں کسی بھی سطح پر سنجیدہ نہیں۔ میڈیا کے ذریعے ذہنوں میں ‘جو کچھ انڈیلا جارہا ہے وہ معاملات کو مزید خرابیوں کی طرف لے جارہا ہے۔ ایک زمانے سے یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ کراچی روشنیوں کا شہر ہے اور راتوں کو جاگتا ہے۔ ذرا سی بھی فہم رکھنے والا ذرا غور تو کرے کہ کسی شہر کا رات بھر جاگنا کوئی قابلِ فخر بات ہوسکتی ہے! یہ کہاں کی دانش ہے کہ رات جاگ گزاری جائے اور دن بھر جھونکے مارے جائیں؟ رات آرام کے لیے بنائی گئی ہے‘ جس نے دن بھر ہڈیوں میں جھنجھناہٹ پیدا کردینے والی محنت کی ہے وہ رات کو ایک جامع ذریعۂ تسکین کے طور پر لیتا ہے۔ ہمارے عجیب دن چل رہے ہیں۔ اول تو محنت سے جی چرایا جاتا ہے اور اگر محنت کرنے پر طبیعت مائل بھی ہو تو محنت کم کی جاتی ہے اور لاحاصل معاملات پر سوچ بچار میں زیادہ وقت ضائع کیا جاتا ہے اور یوں دن گزر جانے پر جب رات آتی ہے‘ تو آرام کے بجائے اگلے دن کے لیے تھکن کا اہتمام کیا جاتا ہے! ہمارے معمولات میں رات ٹھہر سی گئی ہے۔ اور ہم اُس میں اٹک کر رہ گئے ہیں۔
آج پاکستانیوں اور بالخصوص شہروں اور قصبوں میں رہنے والے پاکستانیوں کی واضح اکثریت کو یہ نکتہ سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ صبح سویرے بیدار ہوکر رزقِ حلال کی تلاش میں نکل پڑنا‘ دن بھر محنت کرنا اور شام کو واپسی کے بعد کھا پی کر تھوڑے بہت معاشرتی لمحات گزارنے کے بعد جلد سو جانا ہی فطری طرزِ زندگی ہے۔ جاگ جاگ کر گزاری جانے والی رات اگر ہماری نفسی ساخت نہ نکلی تو ہم اٹکے رہیں گے ۔ع
رات کیا گزرے گی‘ ہم جاں سے گزر جائیں گے