تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     17-10-2018

’’آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ‘‘

اتوار کے ضمنی انتخابات کے اگلے روز نیب کورٹ میں پیشی پر، اخبار نویسوں سے گفتگو میں، میاں نواز شریف نے جو کچھ کہا، اس سے کسے اختلاف ہو گا؟ ایسا کب ہوا کہ کسی پارٹی کو حکومت میں آئے دو ماہ بھی نہ ہوئے ہوں اور وہ اپنی ہی جیتی ہوئی، قومی اسمبلی کی 3 اور صوبائی اسمبلی کی 6 نشستیں ہار جائے۔ قومی اسمبلی کی ان 3 میں سے 2 نشستیں خود پارٹی چیئرمین (اور نومنتخب وزیر اعظم) نے خالی کی تھیں، وزرائے اعلیٰ خود اپنے اپنے ضلعے میں، جیتی ہوئی صوبائی نشستیں بھی بچا نہ پائے۔ یہی حشر وفاقی وزیر اطلاعات کی چھوڑی ہوئی صوبائی نشست پر ہوا۔ راولپنڈی میں شیخ صاحب کو اپنے بھتیجے کو کامیابی دلانے کیلئے دانتوں تلے پسینہ آ گیا (حالانکہ اس کے پاس پی ٹی آئی کا ٹکٹ بھی تھا) ہمایوں اختر اس اپ سیٹ کو مہنگائی کی لہر کا نتیجہ دیتے ہیں‘ جس نے سفید پوش لوئر مڈل کلاس کی کمر ہی دہری نہیں کی، کھاتے پیتے مڈل کلاسیوں کی نیندیں بھی حرام کر دی ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو اسے 25 جولائی کے عام انتخابات کے تناظر میں دیکھتے ہیں، جب نصف شب کے بعد (الیکشن کمشن کے دعوے کے مطابق) آر ٹی ایس بیٹھ گیا تھا۔ پولنگ ایجنٹوں کے بغیر ووٹوں کی گنتی، بڑی تعداد میں ووٹوں کے مسترد ہونے اور فارم 45 کے حوالے سے کہانیاں الگ تھیں۔ 
ضمنی انتخاب سے ایک روز قبل کہا گیا کہ ووٹ کی طاقت کے ذریعے پہلے مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی، پھر تحریک انصاف نے اور مستقبل میں کوئی اور کرے گا۔ تو کیا اگلے ہی روز ضمنی انتخابات کا نتیجہ، اسی مستقبل کا اشارہ تھا؟ ضمنی انتخابات سے قبل نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں انتخابی مفاہمت کی خبر بھی آئی لیکن تاندلیانوالہ (فیصل آباد) میں مسلم لیگ (ن) نے جو نشست جیتی ہے، وہاں پیپلز پارٹی کا امیدوار بھی موجود تھا (اور ایم ایم اے میں شامل جماعت اسلامی، پی ٹی آئی کی حمایت کر رہی تھی) جبکہ اٹک میں (جہاں مسلم لیگ جیتی ہے) پی ٹی آئی کو پیپلز پارٹی کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ باقی رہا لاہور، تو یہاں پیپلز پارٹی کہاں ہے؟ مختلف حلقوں میں شاید ہی یہ کہیں ہزار، ڈیڑھ ہزار سے زائد ہو۔
لاہور کے حلقے این اے 124 میں معاملہ یک طرفہ تھا۔ جناب شاہد خاقان عباسی کی فتح روزِ اوّل ہی سے دیوار پر موٹے موٹے الفاظ میں لکھی ہوئی تحریر تھی جو اندھوں کو بھی نظر آ رہی تھی۔ 1985 کے (غیر جماعتی) انتخابات کی حلقہ بندیوں میں یہ حلقہ این اے 96 تھا (قیام پاکستان سے پہلے میاں محمد شریف (مرحوم) اور ان کے بھائیوں نے جاتی امرا امرتسر سے لاہور آ کر یہیں ایک بڑی سی حویلی کو اپنا مسکن بنایا تھا۔ تب سے شریف فیملی کے کچھ ووٹ اسی حلقے میں ہیں) میاں صاحب گزشتہ روز شاہد خاقان عباسی کو ووٹ ڈالنے پہنچے لیکن شناختی کارڈ پاس نہ ہونے کے باعث اپنا حق رائے دہی استعمال نہ کر سکے۔
میاں شہباز شریف نے 1990ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن اسی حلقے سے لڑا تھا۔ این اے 95، میاں نواز شریف کا حلقہ تھا‘ جو بعد میں حلقہ این اے 120 ہو گیا۔ میاں صاحب کی نااہلی (جولائی 2017) کے بعد یہاں ضمنی انتخاب میں محترمہ کلثوم نواز امیدوار بنیں۔ ان کی علالت کے باعث یہاں انتخابی مہم مریم نے چلائی اور سخت دیدہ و نادیدہ مشکلات کے باوجود ''تنہا لڑکی‘‘ نے یہ معرکہ جیت لیا۔ 1993ء کے عام انتخابات کے بعد محترمہ کی دوسری حکومت میں شہباز شریف نے پنجاب میں قائد حزب اختلاف بننے کا فیصلہ کیا تو این اے 96 کے ضمنی انتخاب میں جاوید ہاشمی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ 2008ء سے یہ حمزہ شہباز کا حلقہ ہے۔ 25 جولائی کے انتخابات میں حمزہ کو 1,46,294 ووٹوں کے ساتھ پی ٹی آئی کے نعمان قیصر پر 65 ہزار ووٹوں کی سبقت حاصل ہوئی تھی۔ حمزہ کو پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنانے کا فیصلہ ہوا تو قومی اسمبلی کے اس حلقے میں شاہد خاقان عباسی امیدوار بنے۔ 12 اکتوبر 1999 کی کارروائی کے وقت وہ پی آئی اے کے چیئرمین تھے۔ نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیکنگ کیس کے ملزمان میں ان کا نام بھی شامل ہوا۔ سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل چودھری امین کی طرح ان کے لیے بھی ''وعدہ معاف گواہ‘‘ بننے کی پیشکش موجود تھی لیکن انہوں نے قید و بند کو ترجیح دی۔ پانامہ میں میاں صاحب کی نا اہلی کے بعد وہ 10 ماہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر رہے لیکن اپنی جماعت اور لیڈر سے ان کی وفاداری میں ذرہ برابر فرق نہ آیا‘ حالانکہ اپنے عسکری پس منظر کے باعث وہ مقتدر حلقوں میں اپنے لیے ''گنجائش‘‘ پیدا کر سکتے تھے۔ ان کے والد پاک فضائیہ میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے تھے۔ جنرل ضیاء الحق سمیت اعلیٰ فوجی قیادت کے ساتھ ان کی گہری دوستی تھی۔ شاہد خاقان کی شادی بھی ایک اعلیٰ فوجی افسرکے ہاں ہوئی... لیکن شاہد خاقان مشرف دور کی طرح اس نئی ''آزمائش‘‘ میں بھی سرخرو رہے۔ ان کی کوئی تقریر، کوئی گفتگو نواز شریف کے ذکر کے بغیر نہ ہوتی۔ وہ انہیں اپنا اور پاکستانی عوام کے دلوں کا وزیر اعظم قرار دیتے اور اس کا خمیازہ بھی 25 جولائی کے انتخابات میں بھگت لیا جب وہ مری کی آبائی سیٹ بھی نہ بچا سکے، جہاں انہوں نے 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے صداقت عباسی کے 46,810 ووٹوں کے مقابلے میں 1,33,906 ووٹ حاصل کئے تھے۔ لاہور والوں نے مردِ وفا شعار کی قدر یوں کی کہ ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے مقابلے میں 45 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے این اے 124 کی سیٹ اس کی نذرکر دی۔
سعد رفیق والا حلقہ این اے 131 بھی ایک دنیا کی دلچسپی کا مرکز تھا، 1993 اور 1997 میں جنرل اختر عبدالرحمن کے صاحبزادے ہمایوں اختر، نوازشریف کی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر یہاں سے منتخب ہوئے۔ 2002ء میں وہ قاف لیگ کے امیدوار تھے، رات گئے ہار رہے تھے، اگلی صبح جیت گئے۔ 2008ء میں ان کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ 2013ء میں مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ حاصل نہ کر سکے، البتہ ان کے چھوٹے بھائی ہارون اختر سینیٹر (اور اقتصادی امور کے مشیر) ہو گئے۔ 2018ء میں ہمایوں کو پھر ن لیگ سے مایوسی ہوئی اور وہ 25 جولائی کے انتخابات سے اڑھائی تین ہفتے پہلے، پی ٹی آئی میں چلے گئے۔ تب عمران خان اس حلقے سے امیدوار تھے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے صاحبزادے ولید اقبال، روز اوّل سے پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں اور اس کے لیے مقدور بھر سرگرم عمل بھی رہتے ہیں۔ 25 جولائی کے انتخابات کے لیے عمران خان نے ولید کو اپنی مہم کا انچارج بنایا۔ ان کا وعدہ تھا کہ ضمنی انتخاب میں ولید ، اس سیٹ پر ان کے امیدوار ہوں گے۔
عمران خان کو یہاں خواجہ سعد رفیق کے ساتھ سخت مقابلہ درپیش تھا‘ جو 2008ء میں 70 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ یہاں سے منتخب ہوئے تھے۔ 2013 میں پی ٹی آئی کے حامد خان کو چالیس ہزار ووٹوں کی لیڈ سے شکست دی تھی۔ کینٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں بھی سعد رفیق کے امیدواروں نے کلین سویپ کیا۔ الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق عمران خان 680 ووٹوں کی لیڈ سے الیکشن جیت گئے (نیچے کی دونوں صوبائی سیٹیں مسلم لیگی امیدواروں نے جیت لی تھیں) ہائیکورٹ کے حکم پر دوبارہ گنتی شروع ہوئی تو عمران خان کی سبقت نیچے کو آنے لگی کہ اسی دوران بابر اعوان حکم امتناعی لے آئے۔ اب ضمنی انتخاب میں خواجہ سعد رفیق پھر امیدوار تھے لیکن پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہمایوں اختر لے اڑے تھے۔ (ولید کے ساتھ اس نا انصافی پر محترمہ ناصرہ جاوید اقبال کے آنسوئوں کا ذکر ہم ایک گزشتہ کالم میں کر چکے) انتخابی ماہرین کے خیال میں خواجہ سعد رفیق کے لیے اب یہ الیکشن پہلے کی نسبت آسان تھا۔ اس کی بھرپور انتخابی مہم بھی چوکھا رنگ لا رہی تھی۔ انتخابی مہم کا آخری ہفتہ سعد رفیق کے لیے خاصا بھاری بن گیا تھا۔ نیب کی طرف سے از سرِ نو انکوائری کی پریس ریلیز (جس میں سعد کا چھوٹا بھائی سلمان بھی ''ملزم‘‘ تھا) پھر دونوں بھائیوں کو ای سی ایل پر ڈالنے اور پاسپورٹ بلاک کرنے کی خبر آئی۔ نیب نے انہیں 16 اکتوبر کی پیشی کا نوٹس بھی بھجوا دیا تھا۔ ہمایوں کی انتخابی مہم میں قدرے جان پڑ گئی تھی۔ وہ لوگوں کو یہ نکتہ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ اس شخص کو ووٹ دینے کا کیا فائدہ جسے دو روز بعد گرفتار ہو جانا ہے۔ لیکن اس کا الٹا اثر ہو رہا تھا۔ سعد کے لیے ہمدردی کی لہر پھیلتی گئی‘ اور 14 اکتوبر کی نصف شب وہ اپنے دولت مند حریف پر دس ہزار ووٹوں کی سبقت سے جیت گئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved