تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     17-10-2018

پہلے تولو پھر بولو

گھڑیا ل کے پنڈولم کی طرح اِدھر اُدھر جھولتے جھالتے بالآخر تان آئی ایم ایف کے پاس جانے پر ہی ٹوٹی‘ دلائل کے ایک بڑے انبار کے ساتھ‘ جیسے کہ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر بس اتنے سے ہی رہ گئے ہیں کہ ان سے اس سال کے اختتام پر بمشکل ادائیگیاں ہی کی جاسکیں گی۔ جیسے کہ یہ فیصلہ بہت ہی مشکل صورت حال کے باعث کیا گیا ہے ‘جیسے کہ جانے والی حکومت خزانہ خالی چھوڑ کر گئی تھی‘ جس کے باعث 8سے 10ارب ڈالر کی فوری ضرورت تھی‘جیسے کہ اس کے لیے بڑی امیدوں کے ساتھ سعودی عرب کی یاترا بھی کی گئی تھی‘ لیکن امیدیں بر نہ آئیں ‘ جیسے کہ کہیں اور سے بھی ڈالر ملنے کی توقع نہیں رہی تھی‘ تو پھر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا راستہ ماپنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا تھا‘ وغیرہ وغیرہ۔وہی تاویلیں اور وہی دلائل‘ جو ایسے ہر موقع پر اقتدار رکھنے والوں کی طرف سے سننے میں آتے ہیں۔یہ وہی راستہ ہے ‘جو سب سے پہلے 1970ء کی دہائی میں ماپا گیا تھا‘ تو بعد میں آنے والے بھی گاہے بگاہے اس راستے کے راہی بنتے رہے۔1990ء کے بعد سے اب تک کوئی دس مرتبہ آئی ایم ایف سے ڈالر لیے جاچکے ہیں۔ نئے پروگرام کے تحت ایک مرتبہ پھر ملک میں ڈالر آئیں گے اور اپنے ساتھ جو کچھ لے کر آئیں گے‘ اس کی بہت سی جھلکیاں گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کی صورت سامنے آچکی ہیں۔نئے ڈالر آنے کی خوشی میں پرانے ڈالرز نے بھی بلند پرواز شروع کررکھی ہے‘ تو جلد ہی پوری فلم بھی دیکھنے کو ملے گی۔ہر صبح آنکھ اسی امید کے ساتھ کھلتی ہے کہ آج تو کچھ اچھا سننے اور دیکھنے کو ملے گا ‘ لیکن اب تک‘ بقول مرزا غالبؔ ک:؎
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
یہاں تک تو پھر بھی امیدیں برقرار ہیں کہ ہر آنے والی حکومت کو ایسی مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔جب یہ کہا جاتا ہے کہ جانے والی حکومت خزانہ خالی چھوڑ کرگئی ہے‘ تو اس میں بھی کچھ نیا نہیں ہوتا۔جب یہ کہا جاتا ہے کہ جلد ہی مشکلات پر قابو پالیا جائے گا‘ تو اس پر بھی حیرانی نہیں ہوتی ‘لیکن صورت حال دگرگوں تب ہونے لگتی ہے جب توقعات کا جوش مایوسی میں بدلنا شروع ہوجاتا ہے‘ وہی توقعات جن کے غبارے میں ‘جس حد تک ممکن ہوسکتا تھا‘ ہوا بھر دی گئی اور اب یہ پھٹنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔برسراقتدار آنے کے فورا بعد سے جس طرح کے حالات پیدا کیے گئے‘ جس طرح کے فیصلے کیے گئے‘ان کے باعث حالات میں بہتری کی بجائے بے یقینی کا عنصر زیادہ نمایاں نظرآرہا ہے۔ امیدپھر بھی برقرار ہے کہ کبھی نہ کبھی کوئی تو ذمہ داران کو بتائے گا کہ مسائل کی گتھیاں جذبات اور بلند بانگ دعوؤں سے نہیں‘ بلکہ ہوش سے کھلتی ہیں۔ کبھی تو حکمرانوں کو احساس ہوہی جائے گا کہ زیادہ دیر تک صرف جانے والوں کے لتے لے کر کام نہیں چلایا جاسکتا ‘لتے بھی ایسے انداز میں کہ گویا کسی حکمران کی بجائے کوئی اپوزیشن رہنما عوام کو خوش کرنے کی کوشش کررہا ہو۔ہمیشہ یاد رہنا چاہیے کہ حکمرانوں کا ایک ایک لفظ اثر رکھتا ہے۔ چاہے ‘وہ موجودہ دور کے حکمران ہوں یا ماضی کے ان چند ایک ادوار کے ہوں‘ جنہیں آج بھی دنیا حیرانی کی نظرسے دیکھتی ہے ‘ وہ کہ جن کے قول وفعل میں تضاد نہ ہوتا تھا۔جوکہتے تھے وہی کرتے تھے اور جو نہیں کرسکتے تھے وہ کہتے نہیں تھے۔آج یہ عالم کہ رات کو کچھ کہا جاتا ہے اور صبح کوئی نئی تاویل پیش کردی جاتی ہے تو پھر بے یقینی کیوں اپنے پر نہ پھیلائے۔بلاشک موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے سے پہلے بیشتر اذہان میں یہ امید گھر کرچکی تھی کہ اگر پی ٹی آئی برسراقتدار آئی تو ملک میں مثبت تبدیلی ضرور آئے گی۔ یہ امید بلاوجہ اتنی مضبوط نہیں ہوئی تھی‘ بلکہ اسے جان بوجھ کر مہمیز دی گئی تھی۔ایسے ایسے بلند بانگ دعوے کہ جن کا حقیقت سے کافی دور کا واسطہ بھی نظرنہیں آتا تھا‘ ایسی ایسی باتیں کہ جن پر عمل ناممکن ہی نظرآتا تھا‘ لیکن پھر بھی یہ سب کیا گیا۔کہا گیا تھا کہ حالات چاہے ‘کتنے ہی برے کیوں نہ ہوجائیں‘ آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کیا جائے گا۔ نوید سنائی گئی کہ معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے سمندرپار پاکستانیوں کی مدد حاصل کی جائے گی۔سوروزہ پلان کے لیے چھ کلیدی نکات طشت از بام کیے گئے۔قرار دیا گیا کہ طرز حکومت میں تبدیلی اولین ترجیح ہوگی۔ ایک خوشخبری یہ بھی سنائی گئی کہ لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لائی جائے گی۔کتنا اچھا ہوتاکہ اپنے کہے کو عملی جامہ پہنانے پر پر توجہ مرکوز رکھی جاتی۔آج یہ عالم کہ حکومت نے اپنے لیے اتنے محاذ کھول لیے ہیں کہ اصل ایجنڈے پر عمل درآمد کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔سب سے ضروری ہے کہ عوام کو توقعات اور خواہشات کے جس گرداب میں پھنسا دیا گیا ہے‘ اس کی شدت میں کمی لائی جائے۔ امیدوں کے گھوڑے کی لگام کھینچی جائے۔ ایسا کرنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے‘ جب نا صرف حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھنا شروع ہوچکے ہوں ‘بلکہ اس کے لیے اپنادفاع کرنا بھی مشکل ہوتا جارہا ہو۔
معاشی صورت حال تو ایک طرف رہی ‘ کسی دوسری سمت سے بھی کوئی اچھی خبر سامنے نہیں آرہی ۔چاہے ‘میدان معیشت سے ہٹ کر میدان سیاست ومعاشرت و قانون ہی کیوں نہ ہو۔کون ایسا ہوگا جو بدعنوانوں کے احتساب سے بیر رکھتا ہوگا‘ لیکن اس عمل کو بھی ایسا مشکوک بنا دیا گیا ہے کہ اس کی صداقت پر یقین کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔خواہ مخواہ سے سیاسی مخالفین کو یہ موقع فراہم کیا جارہا ہے کہ عام انتخابات سے پہلے نواز شریف کو پابند سلاسل کیا گیا‘ تو ضمنی انتخابات کی وجہ سے شہباز شریف پر گرفت کڑی کرنی پڑی۔کون اس استدلال سے اختلاف کرے گا ‘تو پھر ایسا کیوں کیا گیا جس سے بہتوں کواحتساب کے عمل پر انگلیاں اٹھانے کا موقع ملا۔ لاکھ یہ کہا جائے کہ شہباز شریف کی گرفتار ی کا ضمنی انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جائے کہ پنجاب میں برسراقتدار جماعت کوبہت کم نشستوں سے برتری حاصل ہے‘ جبکہ ضمنی انتخابات میں ن لیگ نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔عبث نہیں تھا کہ اگر شہباز شریف پابند سلاسل نہ ہوتے تو کچھ فرق اور پڑ جاتا۔اب چاہے یہ تمام مفروضے غلط ہی کیوں ناں ہو ‘اپنا وجود تو رکھتے ہیں۔استدلال تو یہ بھی ہے کہ ضمنی انتخابات میں زیادہ سیٹوں پر مسلم لیگ ن کی کامیابی دراصل حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کا پیمانہ بھی قرار پائی ہے‘ جس سے بچاؤکے لیے قبل از وقت حفاظتی اقدامات و انتظامات ضروری تھے۔گویا اب ‘جبکہ سب سے مضبوط مخالف جماعت عملاً سیاسی یتیم بن کر رہ گئی ہے‘ تب بھی حکومت ضمنی انتخابات میں بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ان سب حالات کا پیدا ہونا اور پھر یہ خواہش بھی رکھنا کہ انہیں ویسے ہی سمجھا جائے‘ جیسے سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے‘ تو شاید اب یہ ممکن نہیں رہا۔
اس سب کے باوجود مثبت تبدیلی کی خواہش ابھی تک باقی ہے تو تبدیلی لانے کا دعویٰ کرنے والوں کے ہاتھ سے بھی وقت ابھی نکلا نہیں ہے۔آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ‘چلو کوئی بات نہیں‘کسی بھی دعوے کے عملی صورت اختیار کرنے کے ابھی آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے ‘ چلو کوئی بات نہیں کہ ابھی برسراقتدار آئے وقت ہی کتنا گزرا ہے۔کم از کم ایک سال تو دینا ہی چاہیے کہ مہینوں میں تو حکومتیں بمشکل معاملات کو سمجھ ہی پاتی ہیں۔چلو تھوڑا وقت گزرنے کے بعدسیاسی اور معاشرتی طور پر بھی مثبت تبدیلیاں ضرور سامنے آئیں گی ‘لیکن ایک کام تو ہوہی سکتا ہے۔ سوچ سمجھ کر بولنا کہ حکمرانوں کی زبان سے نکلے ہوئے ہرلفظ کے دورس اثرات سامنے آتے ہیں۔آج کے حکمران اپوزیشن میں رہتے ہوئے ‘جو الفاظ بولتے رہے ہیں ‘ ان کی ادائیگی کو ابھی اتنا عرصہ نہیں ہوا کہ اذہان سے محو ہوجائیں۔ اس روش کو اگر اب بھی ترک کردیا جائے ‘تو اسے احسن ہی قرار دیا جائے گا‘ ورنہ مرکز کے ساتھ صوبوں میں بھی بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ مخالفین کو بھی کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ حکومت برسراقتدار آنے کے بعد سے مسلسل بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔اب بھی کیا کچھ نہیں کہا گیا کہ جس کی بعد میں نہ صرف تردید کرنی پڑی ‘بلکہ ا س کے باعث سبکی کا سامنا بھی کرنا پڑا‘اسی لیے تو سیانے ہمیشہ سے ایک بات کہتے آئے ہیں کہ کم بولنا عقلمندی کی علامت ہوتا ہے‘ پھر وہ ایک اور نصیحت بھی کرتے ہیں کہ ہمیشہ پہلے تولو پھر بولو!۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved