جس نے بھی سنا وہ حیران رہ گیا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے معزز اراکین کرپشن کے بادشاہوںکی رہائی کیلئے ملک میں فتنہ فساد پھیلانے کے اقدامات کر رہے ہیں۔ آصف زرداری سے سراج الحق تو مولانا فضل الرحمن سے اچکزئی اور اسفند یار ولی تک ‘سب میاں شہباز شریف اور نواز شریف کی گرفتاریوں اور مقدمات کو جمہوریت پر حملہ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ ان سب جسے یونین آف لوزرزکے نام سے پکارا جاتا ہے‘ کا کہنا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی سے پوچھے بغیر نیب نے شہباز شریف کو کیسے گرفتار کیا ؟ کیا اراکین پارلیمنٹ آسمان سے اترے ہوئے فرشتے ہیں کہ وہ سب کچھ لوٹ کر پاکستان کو 98 ارب ڈالر کا بیرونی مقروض کر دیں اور 34 کھرب کے اندرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیں اور بدلے میں انہیں ریڈ کارپٹ دیاجائے ۔ خلاف قانون ‘لاہور ویسٹ کمپنی کے70 ارب اور سستی روٹی سکیم کے تندور وں میں 40 ارب روپے کی مبینہ کرپشن کے مقدمات تو ابھی آنے والے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ مہنگائی ہو رہی ہے۔
اب غریب اور لا وارث عورتوں اور مردوں کو ہسپتالوں کے بر آمدوں اور سڑکوں پر ڈرپیں لگواتے یا بچے جنتے ہوئے نہیں دیکھا جا سکتا ۔ صدر مملکت عارف علوی اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے اپیل ہے کہ ملک میں اس نکتے پر ریفرنڈم کرا لیا جائے کہ پاکستان کی دولت لوٹنے والا شخص چاہے اسمبلی‘ سینیٹ کا رکن یا صدر مملکت اور وزیر اعظم ہو‘ تب بھی اس کے جرائم کے خلاف قانون کو بھر پور طریقے سے حرکت میں آنا چاہئے اور اس کیلئے کسی کی اجا زت ضروری نہ سمجھی جائے اور آئین میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے لکھ دیا جائے کہ کسی بھی خائن کو دی جانے والی یہ فرسودہ مراعات واپس لی جاتی ہیں اوراب خلیفہ وقت کی طرح سب کو انصاف کے کٹہرے میں آنا ہو گا۔ غضب خدا کا‘خورشید شاہ اور ایاز صادق کہتے ہیں کہ شہباز شریف کو گرفتار ی سے پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے۔ ایاز صادق کو نہیں بھولنا چاہئے کہ مولڈوا کے سابق وزیر اعظم ویلاد فیلات کو 2015ء میں کرپشن کے الزامات پر پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتار کیا گیا تھا اووہ ملک تو لا الہ اللہ کے نام پر نہیں بنا تھا۔ کوئی بھی رکن پارلیمنٹ خلیفہ وقت حضرت عمر ؓاور حضرت علی ؓ سے زیا دہ مرتبہ اور توقیر کا حامل نہیں ہو سکتا‘ جو قاضی وقت کے سامنے خود پیش ہوئے۔ اب خورشید شاہ کو کون بتائے کہ جناب ‘آپ سجائی گئی ٹرے میں انگور کی پیٹی کا تحفہ جب قبول کرتے ہیں‘ تو یہ بھی جرم ہے کہ یہ غیر ملکی برانڈ کہاں سے سمگل ہو کر آپ تک پہنچ رہی ہے؟ ایاز صادق صاحب کو یہ بھی بتا دیں کہ پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتار کئے جانے والے رکن ویلاف فیلات کو ان کی عدالت نے 9 سال قید با مشقت سخت کی سزا بھی سنادی ہے۔
افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ ایسا شخص‘ جس پر کرپشن کے الزامات کی فرد جرم ہوں‘ اس کو پارلیمنٹ کی عزت کہا جا رہاہے ؛اگر ایمان کی ایک رتی بھی سلامت ہو تو ایسا شخص چاہے کوئی بھی ہو‘ اس کا پارلیمنٹ کے اندر بیٹھنا‘ آئین کی رکھوالی کرنے والی پارلیمنٹ کے چہرے پر ایک بد نما داغ ہے۔ پاکستان کی سیا سی جماعتوں اور مذہب کے نام پر سیا ست کرنے والی مذہبی جماعتوں کی آئین پاکستان سے وفا داری دیکھئے کہ ایمان کی کسوٹی پر چلنے کی بجائے اس کے بر عکس الٹی گنگا بہاتے ہوئے پاکستان کے غریب اورقرض کی دلدل میں پھنسی ہوئی قوم کی رہی سہی دولت لوٹنے والوں کو تمغوں سے نوازرہے ہیں ۔اس کے حق میں جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ صدر مملکت اور وزیر اعظم سے درخواست ہے کہ تحریک انصاف کے پاس اس وقت چونکہ قانون منظور کرانے کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اکثریت نہیں ‘اس لئے اس تجویز کو ریفرنڈم کے ذریعے عوام سے منظور کرایا جائے کہ ملکی دولت لوٹنے والا چاہے کوئی بھی ہو اسے کوئی رعائت نہیں مل سکتی ۔ پاکستان ہی نہیں دنیا کا کوئی بھی آئین‘ خائن کیلئے اپنے اندر ایک رتی بھی احترام نہیں رکھ سکتا‘ کیونکہ خائن تو آئین کا دشمن ہوتا ہے۔
میاں شہباز شریف کی گرفتاری میں بہت دیر کر دی گئی‘ نہ جانے اس کی کیا وجوہات تھیں۔ ان کی گرفتاری اپریل میں اس وقت یقینی ہو گئی تھی‘ جب نیب ہیڈ کوارٹر لاہور میں انہیں احد چیمہ کے مہیا کیے ہوئے میٹرو لاہور‘ قائد اعظم پاور پلانٹ‘ میٹرو ٹرین‘ آشیانہ اور ایل ڈی اے پلازہ میں لگائی جانے والی آگ اور اس میں زندہ جلا دیئے جانے والے34 غریب ملازمین کے جل کر راکھ کو ڈھیر بن جانے کے حقائق ‘ان کے سامنے مکمل ثبوتوں کے ساتھ رکھ دیئے گئے تھے اور ساتھ ہی پیرا گون کی مکمل تفصیلات چیمہ صاحب کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ان کے سمامنے رکھ دی گئی تھیں‘ جس کے بعد ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔جونہی میاں شہباز شریف نے احد چیمہ کے تسلیم کئے گئے ثبوت دیکھنے شروع کئے تو کالے رنگ کے چمڑے کے صوفے پر بیٹھے ہوئے ان کاغذات کو دیکھتے ہوئے ان کی حالت غیر ہو گئی۔ ایسے لگا کہ خدا نخواستہ کچھ ہو نہ جائے‘ کیونکہ ان کے تو وہم و گمان میں نہیں تھا کہ احد چیمہ اس قدر باریکیوں سے تمام سربستہ راز کھول سکتا ہے ۔ یہ تو وہ راز تھا‘ جس کے بارے وہ ہی جانتے تھے کہ یہ ہم دونوں کا راز ہے۔میاں شہباز شریف کو احد چیمہ کے لکھے گئے یہ ثبوت پڑھتے ہوئے پسینے آنے لگے ‘تو نیب کے اعلیٰ افسران گھبرا گئے اور انہیں چائے اور کافی کا پوچھاگیا ‘لیکن پھر ان کی فرمائش پر پہلے پانی اور بعد میں قہوہ پلانے کے بعد عزت و احترام سے جانے کی اجا زت دے دی گئی۔ میاں شہباز شریف کو7 ماہ بعد نیب کی جانب سے گرفتارنہ کرنے کی نہ جانے کیا وجوہات تھیں کہ سات ماہ تک ان کے معاملے کو لٹکائے رکھا گیا ‘لیکن جب فواد حسن فواد نے بھی زبان کھولی تو پھر نیب کو یہ قانونی اقدام مجبوراَ اٹھا نا پڑا‘ کیونکہ ایسا نہ کیا جاتا تو احد چیمہ اور فواد حسن فواد کی گرفتاری کا قانونی اور اخلاقی جواز ختم ہو جانا تھا۔
ایک اطلاع کے مطا بق نیب پنجاب اب شیخو پورہ اور قصور میں 12 ارب روپے کی کرپشن کے ثبوت ملنے پر ان اضلاع سے نواز لیگ کے گزشتہ دس برس سے چلے آ رہے‘ اراکین اسمبلی اور مارکیٹ کمیٹیوں کے چیئر مینوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے جا رہی ہے۔ شہباز شریف کی گرفتاری پر جمہوریت اور پاکستان کو خطرے میں ڈالنے والی اپوزیشن کی گردان سن کر عوامی شاعر حبیب جالبؔ مرحوم کا مشہور شعر یاد آرہا ہے‘ جو انہوں نے بھٹو کے خلاف مذہبی جماعتوں کے اس نعرے کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا: ''خطرہ ہے زردداروں کو رنگ برنگی کاروں کو خطرے میں اسلام نہیں ‘‘۔ جنوبی کوریا کے سابق صدر جسے کرپشن کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا‘ کوریا کی چیف عدالت نے کرپشن ثابت ہونے پر اسے15 سال قید سخت کی سزا سنا دی ہے‘ لیکن اس کی سزا کے خلاف جنوبی کوریا میں جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ملائیشیا کاوزیر اعظم منتخب ہونے کے اگلے ہی روز مہاتیر محمد نے سابق وزیر اعظم نجیب کو گرفتار کرلیا اور اب گزشتہ ہفتے نجیب کی اہلیہ کو بھی کرپشن کے الزامات میں ملائیشیا پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ جمہوریت وہاں ‘اسی طرح پھل پھول رہی ہے‘جبکہ کوریا کے ایک سابق صدر ROH MOO-HYUN نے کرپشن کے الزامات سامنے آنے پر خود کشی کر لی تھی۔