تحفے کی قیمت نہیں‘ دینے والے کا دل دیکھا جاتا ہے۔ زندگی کیا ہے؟ نعمت یا پھر تحفہ۔ اور اس تحفے کی قیمت کا کچھ اندازہ ہے؟ ظاہر ہے‘ بالکل نہیں۔ اس لیے کہ زندگی کی قیمت آنکی ہی نہیں جاسکتی۔ ایسے میں ہمیں زندگی کی قیمت کے بارے میں سوچنے کے بجائے اپنے خالق و مالک کے کرم اور اخلاص ہی پر غور کرنا چاہیے۔
جو کچھ محنت سے حاصل کیا جائے اُس کی قدر کی جاتی ہے؛ اگر کوئی معیاری اور مفید چیز مفت مل جائے ‘تو انسان دل سے اُس کی قدر نہیں کرتا اور لاپروائی سے اُسے ضائع کر بیٹھتا ہے۔ زندگی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہمیں مفت ملی ہے ‘اس لیے ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔ یہی زندگی جب خطرے میں پڑ جاتی ہے تو اسے بچانے کے لیے سو جتن کرنے پڑتے ہیں۔ تب کچھ کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نے ہمیں کس نعمت سے نوازا ہے۔ مگر خیر‘ کچھ دن گزرتے ہیں کہ پانی پھر اپنی پنسال میں آ جاتا ہے اور پرنالہ بھی پھر اپنے اصل مقام پر بہنے لگتا ہے۔
ہم زندگی کا تحفظ یقینی بنانے اور اس کا معیار بلند کرنے کے معاملے میں کبھی کبھار ہی حقیقی مفہوم میں سنجیدہ ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ معمول کے سانچے میں ڈھلتے جانے کا ہے۔ کسی کی جانب سے تحریک ملنے کی صورت میں یا مطالعے و مشاہدے کی بنیاد پر ہم وقتاً فوقتاً کچھ پُرجوش ہو جاتے ہیں ‘مگر پھر کچھ ہی دیر یا تھوڑی مدت میں یہ جوش دم توڑنے لگتا ہے اور یوں معاملات وہیں آجاتے ہیں ‘جہاں سے چلے تھے۔
معمولات کی اسیری ہمیں زندگی جیسی نعمت کے معاملے میں مالِ مفت را دلِ بے رحم والی سوچ اپنانے کی راہ سُجھاتی ہے۔ جب ہم زندگی کے حوالے سے سنجیدگی نہیں اپناتے تب اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار بیٹھتے ہی۔ کچھ دن قبل ممبئی کے دادر ریلوے سٹیشن پر رونما ہونے والے ایک حادثے نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ انسان جب زندگی کے معاملے میں لاپروائی برتتا ہے‘ تو انجام کتنا بھیانک ہوتا ہے اور کس قدر نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
عالمی شہرت یافتہ کاروباری ادارے انٹر نیشنل بزنس مشین (آئی بی ایم) سے تربیت یافتہ 31 سالہ انجینئر سُدرشن چودھری دادر کے ریلوے سٹیشن پر دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ سب کو کہیں جانا تھا۔ لوکل ٹرین آئی اور دوست ٹرین میں سوار ہوگئے۔ سُدرشن پلیٹ فارم پر رہ گیا۔ ٹرین چلنے لگی۔ اگلی ٹرین محض پانچ منٹ بعد تھی ‘مگر سُدرشن دوستوں کے ساتھ ہی جانا چاہتا تھا‘ اُس نے چلتی ٹرین پر چڑھنے کی ٹھانی۔ ٹرین کی رفتار بڑھتی گئی اور سُدرشن کے دوڑنے کی رفتار بھی تیز ہوتی گئی‘ پھر وہ ہوا جس کا ٹرین پر سوار اور پلیٹ پر موجود افراد میں سے کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ سُدرشن دوڑتے دوڑتے توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ اتناہی نہیں‘ وہ خود کو پلیٹ فارم پر رکھنے میں بھی ناکام رہا اور ٹرین کی زد میں آگیا! اور جب تک ٹرین رکتی‘ سُدرشن کی لاش انتہائی مسخ ہوچکی تھی!
سُدرشن کی آنکھوں میں تابناک مستقبل کے خواب تھے۔ ان خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے سُدرشن نے ناگپور سے رختِ سفر باندھا اور ممبئی کی راہ لی۔ وہ اکلوتی اولاد تھا۔ بے صبری کہیے یا جذباتیت‘ بدحواسی کہیے یا بے حواسی ... ایک ذرا سی لاپروائی نے ایک پڑھے لکھے‘ باصلاحیت نوجوان کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ سب کچھ خاک میں مل گیا۔ والدین کیلئے ڈھلتی عمر کا سہارا چِھن گیا اور سہارا کیا گیا‘ اُن کی تو دنیا ہی اندھیروں کی نذر ہوگئی۔ اب انہیں ایک ایسے غم کے ساتھ جینا ہے ‘جو انہیں چُپکے چُپکے‘ دھیرے دھیرے کھاتا رہے گا۔
یہ سب کچھ ایک لمحے کی لاپروائی‘ جذباتیت اور بے صبری سے ہوا۔ اب یہ بحث لاحاصل ہے کہ سُدرشن نے خالص مادّی نقطۂ نظر سے خود کو بلند کرنے کے لیے جدید ترین علوم و فنون سے متعلق مہارت کے حصول کو تو ترجیح دی‘ مگر عقلِ سلیم کی منزل تک پہنچنے کے لیے ''ایموشنل انٹیلی جنس‘‘ کے حوالے سے تربیت پانے کی زحمت گوارا نہ کی۔ معاملہ یہ ہے کہ ہر دور میں انسان ایسی ہی بے صبری‘ بے حواسی اور لاپروائی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ انسانی مزاج کی کجی کم ہونے کی بجائے بڑھتی گئی ہے۔ مادّی ترقی نے روح کی بالیدگی کو ہڑپ کرلیا ہے۔ کل کی طرح آج کا انسان بھی بار بار کمزور لمحات کے شکنجے میں پھنس جاتا ہے اور اس شکنجے سے نکلنے کی بے ڈھنگی کوشش اُسے مزید الجھنوں سے دوچار کرتی ہے۔
اپنے معمولات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیے اور پھر اپنے ماحول کو دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ کسی جواز کے بغیر بے عقلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور شدید نوعیت کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔ مرزا اسد اللہ خاںغالبؔ نے کہا تھا ؎
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ایک عاشقی ہی نہیں‘ ہر معاملہ صبر طلب ہے اور ہر معاملے میں تمنا بے تاب ہی رہتی ہے۔ خونِ جگر ہونے تک صبر کرنا ہوتا ہے‘ مگر لوگوں سے صبر ہوتا نہیں۔ عمل کے ساتھ ساتھ نتائج کے حصول کی خواہش انسان کے پورے وجود کو عجلت پسندی کی نذر کردیتی ہے۔
اگر آپ غیر جانب داری سے جائزہ لیں گے‘ تو اندازہ ہوگا کہ یہاں قدم قدم پر سُدرشن پائے جاتے ہیں‘ جو بات بے بات حالات کی رفتار پکڑتی اور دسترس سے باہر ہوتی ہوئی ٹرین پر چڑھنے کی دُھن میں توازن کھو بیٹھتے ہیں اور پھراپنے معاملات کو اِس ٹرین کی زد میں آکر مسخ ہونے سے بچا نہیں پاتے۔ مشکل یہ ہے کہ اب کوئی معاملہ بگڑتا ہے‘ تو اُس کے اثرات صرف اُس تک محدود نہیں رہتے ‘بلکہ دوسرے بہت سے معاملات بھی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔
زندگی توجہ بھی چاہتی ہے اور تحمل بھی۔ ہمیں اِس دنیا میں گزارنے کے جو وقت ملا ہے وہ خیرات میں دی جانے والی کوئی چیز نہیں بلکہ میعادِ عمل ہے۔ وقت کے ضیاع کا ہم سے حساب لیا جائے گا۔ یوں تو ہر نعمت کا حساب لیا جانا ہے‘ تاہم زندگی کا معاملہ سب سے بڑھ کر ہے۔ ہم روئے ارض پر اپنے قیام کے دوران کسی بھی مرحلے پر زندگی سے بے نیاز ہونے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس حوالے سے ہر کوتاہی پر ہماری گرفت ہوگی۔ زندگی جیسی نعمت سے کماحقہ فیض یاب ہونے اور اِس کا مکمل و بے داغ تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہمیں قدم قدم پر غیر ضروری بے صبری اور عجلت پسندی سے بچنا ہے۔ سُدرشن کی سی ذہنیت کے ساتھ جینا نہ جینا برابر ہے۔ ایسی بے صبری اور بے حواسی ہمیں بے موت ہی مارے گی۔ ایسے کمزور لمحات سے بچنا ہے‘ دور رہنا ہے۔ نئی نسل کو اِس حوالے سے خصوصی طور پر تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
اور کچھ یاد رہے نہ رہے‘ اِتنا ضرور یاد رہنا چاہیے کہ جو ہمیں نصیب ہوئی ہے‘ وہ کچھ اور نہیں زندگی ہے‘ زندگی۔ یہ نعمت ترجیحات کے اعتبار سے سرد خانے میں ڈالنے کے لیے نہیں بلکہ بھرپور عمل نواز رویّے کے ساتھ برتنے کے لیے ہے۔ اس معاملے میں غلطی کی گنجائش ہے نہ معافی۔ جو کرنا ہے‘ وہ کرنا ہی ہے اور جو نہیں کرنا وہ کسی بھی حال میں نہیں کرنا؛ اگر یہ اصول نظر انداز کیا تو آپ زندگی کی ٹرین پر چڑھنے میں ناکام ہوکر بالآخر شدید خسارے کے پہیّوں تلے کچلے جائیں گے۔