تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     18-10-2018

تجاوزات

بنی گالہ سے شیخوپورہ تک۔ وزیر اعظم سے بے زبان رہڑی بان تک... کیا یہاں ہر شخص متجاوز ہے؟
اس کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ مجھے صرف یہ معلوم ہے کہ تجاوز، آئینی ہو یا اخلاقی‘ قانونی ہو یا سماجی ناجائز ہی ہوتا ہے۔ میں جب اپنی جائز حد سے باہر قدم رکھتا ہوں تو میرے لیے تجاوزات کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ ان دنوں مگر ایک خاص تجاوز زیرِ بحث ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ کچھ لوگ ایسی زمینوں پر قابض ہیں، جو قانوناً ان کی ملکیت نہیں ہیں۔ ان کے خلاف ہر شہر میں انتظامیہ متحرک ہے۔ کہیں گھر گرائے جا رہے ہیں اور کہیں سامان سے لدی رہڑیاں اور ٹھیلے اٹھائے جا رہے ہیں۔
آج، بدھ کے اخبارات میں اسلام آباد کی ایک تصویر شائع ہوئی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ پشاور موڑ کے قریب ان ٹھیلوں کا سوختہ سامان بکھرا پڑا ہے جنہیں تجاوزات کہہ کر جلا دیا گیا۔ لوگ راکھ میں سے ادھ جلا سامان نکال رہے ہیں کہ شاید کسی کام آ سکے۔ ہمارے لوگ موت سے زندگی تلاش کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ یہ مشق آج بھی جاری ہے۔
متجاوز کا ہاتھ روکنے اور تجاوزات ختم کرنے سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ اس میں مگر ایک پیچیدگی آن پڑی ہے۔ ایک واقعہ کئی سال پہلے ہوا۔ جزا سزا کا نفاذ آج ہو رہا ہے۔ یوں سمجھیے کہ کئی سال پہلے ایک ہائوسنگ سکیم کا اعلان ہوا۔ اخبارات میں اشتہار شائع ہوا۔ لوگوں نے پلاٹ خریدے۔ حکومت بھی یہیں تھی اور باقی سب ادارے بھی۔ جگہ خریدنے کے بعد تعمیرات کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک غریب خاندان عمر بھر کی جمع پونجی لگا کر گھر بناتا ہے۔ سارا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔ لوگ رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر ایک صبح یہاں کے مکین عجیب منظر دیکھتے ہیں۔
دیکھتے ہیں کہ دیوہیکل مشینیں ان کے دروازے پر کھڑی ہیں اور ان کے گھر مسمار کرنا چاہتی ہیں۔ لوگ خوف زدہ اور حیرت زدہ ہو کر باہر نکلتے ہیں کہ ماجرا کیا ہے۔ معلوم ہوتا کہ ان کا گھر ایک ایسی زمین پر کھڑا ہے جو ان کی ملکیت نہیں ہے۔ وہ واویلا کرتے ہیں کہ انہوں نے رقم دے کر یہ جگہ خریدی ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ جس کی دراصل یہ جگہ تھی، اسے تو کوئی رقم نہیں ملی۔ اس کی زمین پر قبضہ ہوا۔ چونکہ اس وقت آپ قابض ہیں اس لیے آپ کا گھر غیر قانونی ہے۔ اب اس آدمی کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ پوری رقم دینے کے باوجود زمین اس کی کیوں نہیں؟
ایک پہلو اور بھی ہے۔ ملک سے باہر رہنے والا اخبارات میں اشتہار دیکھتا ہے کہ 'بہتے جھرنوں اور آبشاروںکے کنارے‘ کوئی ہاؤسنگ سکیم بن رہی ہے۔ وہ متاثر ہوتا اور پلاٹ خرید لیتا ہے۔ اسے قانون اور ضابطے کی کچھ خبر نہیں۔ وہ گھر بھی بنا لیتا ہے۔ اس دوران میں سارا قانونی عمل بظاہر شفاف ہے۔ رجسٹری بھی اس کے نام ہے۔ کچھ عرصے کے بعد اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا گھر نالے کی قریب ہے جبکہ وہ قانوناً نالے کے دو سو فٹ کے اندر تعمیر نہیں کر سکتا۔ لہٰذا یہ گھر اب گرایا جائے گا۔ اسلام آباد میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایک کالونی میں داخلے کا راستہ نالے کے ساتھ ہے۔ کل اگر اسے غیر قانونی قرار دے کر بند کر دیا جائے تو کالونی کے مکین اپنے گھروں میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ 
ممکن ہے انتظامیہ سب کچھ قانون کے دائرے میں کر رہی ہو اور قانون کا منشا بھی یہی ہو؛ تاہم نفاذِ قانون کے لوازمات میں ایک اور شے بھی شامل ہے جسے حکمت کہتے ہیں۔ اگر حکمت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے قانون کی لٹھ اٹھا لی جائے تو پھر المیے جنم لیتے ہے۔ لوگ اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ قانون معاشرے کے لیے ہوتا، معاشرہ قانون کے لیے نہیں۔
قانون کا نفاذ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری مگر ریاست کی دیگر ذمہ داریوں سے بے نیاز نہیں ہے۔ قانون میں ہمیشہ استثنا موجود ہوتا ہے۔ حکمرانوں کو حکمت کے ساتھ اس کا ادراک کرنا ہوتا ہے۔ حکومت نفاذ سے زیادہ قانون کے رعب کا نام ہے۔ اچھی حکومت وہی ہے جو اس کا موقع کم آنے دیتی ہے جب قانون کو نافذ کیا جائے۔ اس باب میں سیدنا عمرؓ کے فیصلوں کو ہمیشہ بطور نظیر پیش کیا جاتا ہے۔ انہوں نے چوری کی حد کا نفاذ کرتے وقت عمومی معاشی حالات کو پیشِ نظر رکھا۔ انہوں نے قانون کو معطل کیا نہ اس میں تبدیلی کی۔ صرف اس حق کو استعمال کیا جو قانون میں فطری طور پر قانون کا نفاذ کرنے والے کے پاس موجود ہوتا ہے۔
اس وقت حکومت کے سامنے مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ناجائز تجاوزات کو ختم کرنا ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ جنہیں بے گھر کیا جا رہا ہے اور بظاہر ان کا کوئی قصور بھی نہیں، ان کے حق کا تحفظ کیسے ہو۔ گویا ایک طرف ناجائز قبضہ ختم کرنا ہے اور دوسری طرف عام شہریوں کو بے گھر بھی نہیں کرنا۔ شہروں کی توسیع کرتے وقت حکومت لوگوں سے ان کی مرضی کے خلاف زمین لے لیتی ہے لیکن انہیں معاوضہ دیتی ہے یا متبادل جگہ۔ اس وقت جن کے گھر گرائے جا رہے ہیں، ان کو ایسا کوئی متبادل نہیں دیا جا رہا۔ اس پہلو سے صرفِ نظر کرنے کا ایک نتیجہ عوامی اضطراب کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
رہڑی بانوں کا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ اکثر سڑکوں پر قابض ہو جاتے ہیں اور عام لوگوں کے لیے آمد و رفت کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ انہیں ہٹاتے وقت مگر متبادل جگہ یا روزگار کی فراہمی بھی تو حکومت کی ذمہ داری ہے۔ شیخوپورہ کے اس بے زبان ریڑھی بان کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی جس کی ریڑھی اس سے چھینی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی اس پر تشدد کیا جا رہا ہے اور اسے گالیاں دی جا رہی ہیں۔
قانون کی موجودگی اس کو لازم نہیں کرتی کہ اسے نافذ بھی کیا جائے۔ قانون دراصل سدِ ذریعہ کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون ہو گا تو جرم کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ لوگ سزا کے خوف سے جرم نہیں کریں گے۔ قانون کے پیچھے حکومت کی اخلاقی قوت ہوتی ہے‘ جو قانون کا احترام پیدا کرتی ہے۔ یہ عمرؓ ابن خطاب کا کوڑا نہیں تھا جس کا رعب تھا۔ یہ مبالغہ ہے کہ وہ ہر وقت لوگوں کی پیٹھ پر برستا رہتا تھا۔ یہ امیرالمومنین کا اخلاقی وجود تھا جس نے ان کے کوڑے کو قانون کی علامت بنا دیا تھا۔
اچھے حکمران نفاذِ قانون سے زیادہ اپنی اخلاقی ساکھ کو بہتر بنانے پر توجہ دیتے ہیں۔ اس سے خود بخود جرم کی شرح کم ہونے لگتی ہے۔ اس کے ساتھ اہم بات معاشرے کی عمومی اخلاقی ساکھ اور معاشی حالات ہیں۔ اگر کسی ملک میں حکومت روزگار نہیں فراہم کر سکتی تو اسے غیر قانونی رہڑیوں کے بارے میں اقدام کرتے وقت سو بار سوچنا چاہیے۔ دوسری طرف اگر حال یہ ہو کہ بڑے بڑے تجارتی اور ریاستی ادارے تجاوزات سے مستثنیٰ ہوں تو پھر صرف عام لوگوں پر قانون کا اطلاق عوامی سطح پر اضطراب کو جنم دیتا ہے۔
سماج اور معیشت میں باہمی تعلق ہے۔ جسے سمجھنا ہو، اسے غلام عباس کا افسانہ 'آنندی‘ ضرور پڑھنا چاہیے۔ میرے بس میں ہو تو میں اسے سی ایس ایس کے نصاب میں شامل کروا دوں۔ فلسفہ اور ادب دراصل وہ حکمت پیدا کرتے ہیں جو ایک کامیاب حکومت کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ریاست کے اداروں کو قانون تو پڑھا دیا جاتا ہے، ادب، فلسفہ اور سماجی علوم نہیں پڑھائے جاتے۔ یوں انہیں یہ تو معلوم ہے کہ ملزم کو ہتھکڑی لگانا ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ ملزم اگر کسی یونیورسٹی کا استاد ہے تو اس کو ہتھکڑی لگانے کے سماجی مضمرات کیا ہوتے ہیں۔
تجاوزات کے خلاف اقدام ضرور ہو لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ایک ظلم کے خاتمے کے لیے کیا جانے والا اقدام، کسی دوسرے ظلم کی بنیاد نہ بن جائے۔ جو رعایت بنی گالہ کے مکین کو ملی ہے، ویسی ہی رعایت شیخوپورہ کے بے زبان رہڑی بان کو بھی ملنی چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved