تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-10-2018

یہ بغلیں بجانے کا موسم نہیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے معاملے میں ایک بار پھر جو جُوا کھیلا ہے‘ اُس کی ڈیڈ لائن نزدیک آرہی ہے۔ 2015 میں طے پانے والے 6 فریقی جوہری معاہدے سے الگ ہونے کے بعد صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔ اب جو بھی ملک ایران سے تیل خریدے گا ‘اُسے امریکی اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان پابندیوں کا نفاذ 4 نومبر 2018 ء سے ہوگا۔ 
ایران کے خلاف امریکی اقدامات پر سب سے زیادہ تشویش بھارت کو ہے۔ یہ تشویش ایران سے ہمدردی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر ہے۔ بھارت اپنی ضرورت کے تیل کا بڑا حصہ ایران سے خریدتا ہے۔ ایران سے تیل خریدنے میں ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ترسیل پر زیادہ خرچ نہیں آتا۔ ایران تیل کم نرخ پر دیتا ہے اور وہ بھی آسان شرائط پر۔ ایران اور بھارت کے تعلقات عشروں سے بہت بہتر چلے آرہے ہیں اس لیے لین دین بھی اچھا رہا ہے۔ 
امریکی پابندیوں کے نفاذ کی ڈیڈ لائن قریب آنے سے بھارتی قیادت پریشان ہے کہ تیل کی سپلائی کا کیا ہوگا۔ بھارت میں تیل صاف کرنے کے دو بڑے کارخانوں نے ایران سے نومبر کے دوران بھی تیل خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے امریکا اور بھارت کے درمیان بات چیت بھی ہوئی ہے‘ تاہم کچھ واضح نہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے۔ بھارت کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ تیل کی رسد جاری رکھنے کا اہتمام کرے۔ سعودی عرب سے بات کی گئی ہے۔ ایران سے تیل کی رسد بند ہونے کی صورت میں جو بحرانی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے اُس کی روک تھام کے طور پر سعودی عرب نے نومبر کے دوران بھارت کو 40 لاکھ بیرل اضافی خام تیل فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ 
مگر جناب‘ معاملہ یہاں ختم نہیں ہو جاتا۔ بھارتی قیادت کو اندرونی اور بیرونی بحرانوں کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ دو دن قبل بھارتی وزیر اعظم نے تیل فراہم کرنے والے ممالک کے نمائندوں سے بات کی اور ان کے سامنے بھارت کی معاشی اور مالیاتی مشکلات رکھیں۔ اجلاس مقصود یہ تھا کہ تیل فراہم کرنے والے ممالک واجبات کا نرم شیڈول تیار کریں تاکہ بھارت کو کچھ ریلیف مل سکے! 
کم و بیش 6 ماہ قبل امریکا اور چین کے درمیان تجارتی معاملات پر تنازع پیدا ہوا جس نے بڑھتے بڑھتے اضافی درآمدی ٹیکس نافذ کیے جانے کی راہ ہموار کی۔ امریکا نے جب چین سے منگوائی جانے والی 200 ارب روپے کی مصنوعات اضافی درآمدی ڈیوٹی لگائی تو جواب میں چین نے بھی 60 ارب ڈالر کی امریکی مصنوعات پر اضافی درآمدی ڈیوٹی نافذ کی۔ کچھ دن تک تو یہ تماشا بھارت کو بہت اچھا لگا۔ نئی دہلی میں یہ بھی کہا جانے لگا کہ امریکا کو اگر کچھ چاہیے تو چین کی طرف نہ دیکھے‘ بھارت سے لے۔ دو ڈھائی ماہ قبل امریکا اور ترکی کے درمیان بھی مالیاتی و تجارتی محاذ آرائی شروع ہوئی تو بھارت میں پھر بغلیں بجائی جانے لگیں کہ چین کے بعد اب ترکی سے تجارت خراب ہوگی تو مفت میں نئی دہلی کی مراد بر آئے گی۔ 
بھارت کے پالیسی میکرز یہ بات بھول گئے تھے کہ آج کی دنیا میں سب کچھ آپس میں جُڑا ہوا ہے۔ اب اگر کسی ایک ملک میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو کئی ممالک اُس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ چین ایک بڑا ملک ہے۔ اگر امریکا نے چین کو دبوچنے کی کوشش کی ہے تو چین کا کچھ زیادہ نہ بگڑے گا مگر چین یا امریکا کے مفادات سے جُڑے ہوئے بہت سے ممالک کے پیروں تلے سے زمین سرک جائے گی۔ 
ترکی کے خلاف اقدامات شروع ہوئے تو بھارتی روپے نے ڈالر کے مقابلے میں گرنا شروع کیا۔ دو ماہ کے دوران بھارتی کرنسی خطرناک حد تک نیچے آچکی ہے۔ دوسری طرف بھارتی اسٹاک مارکیٹ کا بھی برا حال ہے۔ پاکستان ایسے بحرانوں کا عادی ہے۔ اس کے لیے خرابی کچھ زیادہ مفہوم نہیں رکھتی۔ بھارتی جیسی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے کوئی بھی بڑا جھٹکا قابلِ برداشت نہیں ہوتا۔ امریکا سے تجارتی جنگ کے 6 ماہ کے دوران چین کی اسٹاک مارکیٹ نے کم و بیش تین ہزار ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے۔ چین جیسے مضبوط ملک کے لیے بھی یہ نقصان بہت بڑا ہے۔ ممکن ہی نہیں کہ اس صورتِ حال کا بھارت‘ پاکستان اور دیگر ممالک پر منفی اثر مرتب نہ ہو۔ بھارتی اسٹاک مارکیٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل کرنے کیلئے کافی ہے۔ مودی سرکار بھی پریشان ہے کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ عام انتخابات نزدیک آرہے ہیں۔ ایسے میں معیشت کا بگڑنا بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ 
ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں وہ ''ڈومینو ایفیکٹ‘‘ کی دنیا ہے‘ یعنی کسی ایک چیز کو دھکّا ماریے تو بہت سی چیزیں گرتی چلی جاتی ہیں۔ اب یہ ممکن نہیں رہا کہ چند ایک ممالک کی ناکہ بندی کرکے اُنہیں تو ترقی کے ثمرات سے محروم رکھیے اور دوسروں کو پنپنے کا بھرپور موقع فراہم کیجیے۔ بھارت کے پالیسی میکرز اب تک چالیس پچاس سال پہلے کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے جہاں بہت سے سی آسانیاں پیدا کی ہیں‘ وہاں چند بڑی مشکلات کو بھی جنم دیا ہے۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اب کوئی بھی ملک جزیرہ نہیں یعنی دوسروں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ڈھنگ سے جی نہیں سکتا۔ عالمگیریت نے تمام ممالک کے لیے لازم کردیا ہے کہ ایک دوسرے سے جُڑے رہیں‘ مل کر کام کریں اور جہاں تک ممکن ہو ایسا اشتراکِ عمل کریں جو سب کے لیے مفید ہو۔ اگر کوئی ریاست صرف اپنے مفاد کو ذہن نشین رکھے گی تو خسارے سے دوچار ہوگی۔ اس روش پر گامزن ہونا تو ترقی یافتہ دنیا کے لیے بھی فائدے کا سودا نہیں۔ ایسے میں کیونکر فرض کرلیا جائے کہ چین یا کسی اور ملک کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے اثرات اُسی تک محدود رہیں گے؟ 
جو کچھ امریکا کر رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے اور اُس کے منفی اثرات کا کسی ایک ملک تک محدود رہنا ممکن نہیں۔ یہ صورتِ حال اس امر کی متقاضی ہے کہ امریکا اور یورپ کو لگام دینے کی کوشش کی جائے۔ بھارت کے لیے اب بھی کام کی بات یہ ہے کہ چین سے مخاصمت و معاندت پر مبنی تعلقات استوار رکھنے کے بجائے اشتراکِ عمل کی پالیسی اپنائے۔ امریکا اور یورپ جو کچھ چاہتے ہیں وہ اگر ہو جائے تو دنیا کہیں کی نہ رہے۔ وقت کا تقاضا اشتراکِ عمل ہے نہ مخاصمت اور معاندت۔ مسابقت ایک ناگزیر معاملہ ہے مگر اس کا مطلب لازمی طور پر یہ نہیں کہ مدمقابل کو موت کی نیند سلادیا جائے۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ اب ''ڈومینو ایفیکٹ‘‘ سے محفوظ رہنا انتہائی دشوار ہے۔ بقول فرازؔ ع 
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو 
چراغ سب کے بجھیں گے‘ ہوا کسی کی نہیں 
ایشیائی ممالک کے لیے یہ وقت ایک دوسرے کی تباہی پر خوش ہونے‘ بغلیں بجانے کا نہیں بلکہ مل جل کر کچھ کر گزرنے‘ کر دکھانے کا ہے۔ ہر دور کے کچھ نہ کچھ ایسے تقاضے ہوتے ہیں جن سے صرفِ نظر ممکن نہیں ہوا کرتا۔ ایشیا کے لیے یہ وقت بھی ایسا ہی ہے۔ میرؔ کہہ گئے ہیں ؎ 
غیرتِ یوسف ہے یہ وقتِ عزیز 
میرؔ اس کو رائیگاں کھوتا ہے کیا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved