انسان بظاہر بہت طاقتور ہے ۔ یہ زمین سے اٹھ کر خلا میں جا چکا ہے ۔ بڑی بڑی دوربینیں زمین کے مدار میں گھوم رہی ہیں ۔ انسان چاند اور دوسرے اجرامِ فلکی کے زیرِ زمین ذخائر سے فائدہ اٹھانے کی سوچ رہا ہے ۔ سکندرِ اعظم جیسے فاتحین کو دیکھیں تو وہ پورے کرہ ٔ ارض کو فتح کرنے کی تگ و دو میں لگے رہے‘ لیکن انسان بہت کمزور بھی ہے۔ اسی سکندرِ اعظم کو آپ ایک جرثومے کے ہاتھوں مرتا ہوا دیکھتے ہیں ۔ انسان اس قدر کمزور ہے کہ بلڈ پریشر ذرا سا بڑھ جائے تو اس کا پارہ ہائی ہو جاتاہے ۔گردے میں پتھری آجائے اور پیشاب رک جائے تو اس کا سارا اخلاق ختم ہو جاتا ہے ۔ ایسے کمزور لمحات ہم سب کی زندگی میں ہیں ۔ گو میں نرم مزاج بندہ ہوں اورمیں نے کبھی کسی ملازم کو بھی نہیں ڈانٹا‘ لیکن ایسے ہی ایک کمزور لمحے کو آپ سے شیئر کرتا ہوں ۔
غالباً دو سال پہلے کی بات ہے ۔ میں ایک ایسی انتہائی دلچسپ دستاویزی فلم دیکھ کر نوٹس لے رہا تھا ‘ جس نے ساری رات مجھے سونے نہیں دیا۔ فجر ہو گئی۔سورج کی روشنی پھیلنے لگی۔ تھک ہار کے جب میں سونے لگا ۔ اسی اثنا میں دروازہ کھلا ۔ والد صاحب میرے سامنے کھڑے تھے۔ کہنے لگے :سینیٹر طارق چوہدری صاحب کا بیٹا فوت ہوگیا۔ فیصل آباد کے لیے فوراً نکلنا ہوگا۔ میں سوچنے لگا کہ انہیں کیا بتائوں کہ میں تو رات بھر کا جاگا ہوا ہوں ۔ میں نے ہمت کی اور والد صاحب کے ساتھ گاڑی نکال کے باہر نکلا۔ چند گھنٹے کی مزید تھکا دینے والی ڈرائیونگ کے بعد ہم فیصل آباد طارق چوہدری صاحب کے گھر پہنچے‘ جہاں صف ماتم بچھی ہوئی تھی ۔ وہاں والد صاحب کو میں نے بتایا کہ میں رات بھر کا جاگا ہوا ہوں۔ اب میت والے گھر میں سونا تو مناسب نہیں ۔ میں کسی ہوٹل میں جا کر چند گھنٹے سو لوں ۔ گاڑی وہیں چھوڑ کر میں نے ایک رکشا روکاکہ اسے راستے کا پتا ہوگا۔ رکشے والے سے پوچھا کہ قریب کوئی ہوٹل ہے ؟ وہ لڑکا سا تھا۔ اس نے کہا‘ فلاں جگہ پر کئی ہوٹل ہیں ۔ میں رکشے میں بیٹھ گیا۔
اب اس نے مجھے گھمانا پھرانا شروع کیا۔ سچی بات یہ تھی کہ اسے کسی ہوٹل کا کچھ بھی پتا نہیں تھا‘لیکن سواری چھوڑنا اس نے گوارا نہیں کیا۔ دراصل وہ اب مجھے بٹھا کر ہوٹل ہی ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ ادھر اتنی دیر میں ‘ میرا دماغ نیند کی شدت سے بالکل سن ہو رہا تھا۔ اسے میں نے کہا ‘ اگر تمہیں پتہ نہیں تھا تو پھر مجھے بٹھایا کیوں ۔ وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ میرا پارا ہائی ہو گیا۔ اس کے بعد جو الفاظ میں نے اسے کہے‘ وہ میں دہرانا نہیں چاہتا۔ میں اس کے رکشے سے اترا ۔ ایک دوسرے میں بیٹھا۔ آخر میں ایک ہوٹل تک پہنچ ہی گیا۔ وہاں میں سو گیا۔ چند گھنٹے بعد تروتازہ ہو کر اٹھا۔ پھر مجھے یاد آیا کہ رکشے والے کو میں نے کیا کہا تھا ۔ مجھے افسوس ہونے لگا لیکن جو ہونا تھا‘ وہ تو ہو چکا تھااور میں پورے دعوے سے کہتا ہوں کہ ایسے کمزور لمحات ہم سب کی زندگی میں موجود ہیں ۔ اگر کوئی شخص یہ کہتاہے کہ وہ پوری زندگی کبھی کسی بھی شخص سے بد اخلاقی سے پیش نہیں آیا تو وہ سفید جھوٹ بول رہا ہے ۔ ہاں ‘ یہ اور بات ہے کہ اس کی بد اخلاقی ریکارڈ نہیں ہو سکی اور موبائل فون اورکیمروں کے اس دور میں کسی مشہور شخص کی بد اخلاقی ریکارڈ پہ آ گئی ۔
یہ خامیاں ہم سب میں ہیں ۔ ہمارے بیوی بچوں میں ‘ ماں باپ اوربہن بھائیوں میں ۔ ہر بڑے چھوٹے میںلیکن اگر آپ انکار کر تے ہیں کہ آپ کی زندگی میں ایسا کوئی بھی کمزور لمحہ کبھی بھی نہیں آیا‘ جب آپ نے کوئی نازیبا بات کی ہو تو آپ کا نام جھوٹوں کی لسٹ میں نمایاں طور پر شائع ہوگا۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنی ہر بد اخلاقی کو تو ہر شخص معاف کر دیتاہے ‘ خواہ اس نے زبان کی تلوار سے کتنے ہی عزیزوں کو ذبح کر دیا ہو لیکن جب کسی دوسرے کو آپ ایسا کرتے دیکھتے ہیں توانسان کتنا سخت منصف بن جاتا ہے ۔جب آپ کسی شخص کا تجزیہ کریں تو اس کی خوبیوں اور خامیوں کو تول کر فیصلہ کریں کہ کون سا پلڑا بھاری ہے ۔ اس کے برعکس اگر آپ نقائص سے پاک شخص ڈھونڈنا چاہتے ہیں تو کہاں سے ملے گا وہ گناہوں اور نقائص سے پاک صاف شخص‘ جس میں کوئی کمی نہ ہو۔ ایسی ذات تو انسانی تاریخ میں ایک ہی گزری ہے ۔ اگر آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ آپ نقائص سے پاک ہیں ۔ پوری زندگی کبھی کسی شخص سے بھی آپ نے بد اخلاقی نہیں کی ‘ جیسا کہ سوشل میڈیا کے اکثر جنگجوئوں کا دعویٰ ہے ‘ جو زعمِ تقویٰ اور پارسائی کے اعلیٰ ترین منصب پہ فائز ہیں اور جن پر ایک الگ مضمون ضروری ہے تو اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ ہم زمین اترے ہی تب تھے‘ جب ہمارے باپ سے پہلی غلطی سرزد ہو ئی تھی ۔ ہاں البتہ اپنی غلطی کی تلافی کرناہر انسان پہ فرض ہے ۔
اپنی زندگی میں جس شخص کو میں نے انتہا درجے کے اخلاق پر فائز دیکھا ہے ‘ وہ میرے ا ستاد پروفیسر احمد رفیق اختر ہیں ۔ان کا لہجہ کبھی بھی تلخ نہیں ہوتا ۔ انتہا درجے کی تکلیف دہ صورتِ حال میں بھی وہ پرسکون رہتے ہیں ۔ ان کے ایک کمزور لمحے کا احوال بیان کرتا ہوں ۔ میرے چھوٹے بھائی نے پروفیسر صاحب سے کوئی ضروری بات کرنا تھی ۔ پانچ سال پہلے سردیوں کی اُس شام ہم ان کے گھر چلے گئے ۔ وہاں معلوم ہوا کہ انہیں بخار ہے ۔ خیر ہم چھت پر ان کے کمرے کے باہر کھڑے ہو گئے ۔ پروفیسر صاحب سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر آئے ۔ انہوں نے ہمیں دیکھا تو کہنے لگے‘ تمہیں میں نے کہا تھا کہ پرسوں آنا۔ ان کا جسم کانپ رہا تھا۔ غالباً انہیں بخار تھا اور یہ کہا کہ صبح میرا لیکچر ہے ۔ ان کا لہجہ قدرے تلخ اور بلند تھا۔ خیر ‘ پھر میرے بھائی نے علیحدگی میں کچھ دیر ان سے بات کی۔ آخر جب پروفیسر صاحب ہمیں رخصت کرنے لگے تو مجھے پاس بلا کر گلے سے لگایا اور کہا کہ گاڑی احتیاط سے چلانا ۔ یہ میری دلجوئی کے لیے تھا۔
میرے باپ داد ا میں غصہ بے حد شدید ہے ۔ یہ تلخ ہوں گے تو سامنے موجود کسی شخص کے اعلیٰ ترین عہدے کا خیال بھی نہیں رکھیں گے ؛خواہ کوئی جنرل ہی بیٹھا ہو۔ اگر یہ مصلحت کا خیال رکھنے والے ہوتے تونہ الطاف حسین کی دہشت والے دنوں میں ایم کیو ایم کو قاتلوں کا ٹولہ قرار دیتے اور نہ شریف خاندان کے عروج میں ببانگِ دہل انہیں کرپٹ قرار دیتے ۔یہ ایک خاص مزاج کے لوگ ہیں ‘ جو ذرا سی بات پہ بھڑک اٹھتے ہیں لیکن یہ کبھی اپنی dealingsمیں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتے بلکہ ان کی وجہ سے مفادِ عامہ کے بہت سے کام ہو جاتے ہیں ۔
رئوف کلاسرا صاحب نے ایک بار مجھے بتایا کہ شروع شروع میں کافی عرصہ تک تو میں ہارون صاحب سے جھاڑیں ہی کھاتا رہا ہوں۔ان کے درمیان بحث آپ کے وہم وہم و گمان سے بھی زیادہ شدید ہوا کرتی تھی ۔ خیر‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی کا تجزیہ کریں تواس کی پوری شخصیت کا کو ذہن میں رکھیے ۔ اب رہ گئے وہ لوگ جو گناہ گاروں کو سنگسار کرنے کے لیے پتھر سر پہ اٹھائے کھڑے ہیں ‘ ان کی خدمت میں یہ گزارش کہ پتھر تو سب کو پڑیں گے۔ کسی کو پہلے‘ کسی کو بعد میں !